حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں آج بھی کچھ افراد ایسے موجود ہیں، جو نہ صرف جذباتی نعرے لگاتے ہیں، بل کہ یہ مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کو فوراً بھارت پر حملہ کر دینا چاہیے۔ اُن افراد کا یہ بھی شکوہ ہے کہ پاکستان نے ابھی تک کوئی واضح اور سخت کارروائی کیوں نہیں کی؟ درحقیقت یہ سوچ اس حقیقت سے مکمل طور پر لاعلمی کا ثبوت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات، عسکری حکمت عملی اور سفارتی توازن صرف گولہ بارود سے نہیں، بل کہ حکمت اور تدبر سے طے ہوتے ہیں۔ عالمی منظرنامہ صرف میدانِ جنگ میں لڑی جانے والی لڑائیوں سے نہیں، بل کہ میڈیا، سفارت کاری اور اقتصادی اثرورسوخ سے بھی متاثر ہوتا ہے۔ جنگ اب صرف توپ و تفنگ کا کھیل نہیں رہی، بل کہ رائے عامہ، سچائی کے موثر اظہار اور دانش مندی سے فیصلے لینے کی قوت کا نام بن چکی ہے۔
وہ افراد جو اَب بھی یہ کَہ رہے ہیں کہ پاکستان نے کچھ نہیں کیا، اُنھیں یہ جان لینا چاہیے کہ 6 اور 7 مئی کی درمیانی رات پاکستان کی فضائیہ نے جو عملی مظاہرہ کیا، وہ صرف ایک فوجی کارروائی نہیں، بل کہ جدید جنگی ٹیکنالوجی کے خلاف ایک نیا باب ہے۔ بھارت نے پاکستان کے مختلف علاقوں، جن میں مریدکے، بہاولپور، کوٹلی اور مظفرآباد شامل ہیں، پر جارحیت دکھانے کی کوشش کی اور ڈرون اور میزائل حملے کیے، لیکن پاکستان نے وہی حکمتِ عملی اختیار کی جو ایک ذمے دار ریاست کو زیب دیتی ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے نہ صرف جارحیت کو ناکام بنایا، بل کہ بھارت کے پانچ سے زائد طیارے تباہ کرنے کا دعوا بھی کیا، جس میں سب سے نمایاں ’’رفال‘‘ (Rafale) طیارے کی تباہی ہے۔ یہ واقعہ پاکستان کی عسکری مہارت، جدید حکمتِ عملی اور سٹریٹجک صبر کی شان دار مثال ہے۔
رفال طیارے کی تباہی محض ایک طیارے کے مارے جانے کا معاملہ نہیں، بل کہ یہ عالمی اسلحہ منڈی میں ایک زلزلے سے کم نہیں۔ یہ وہی رفال ہے، جس کا ذکر نریندر مودی نے اُس وقت کیا تھا جب ابھینندن کا ’’مگ 21‘‘ پاکستان میں مار گرایا گیا تھا۔ مودی نے اُس وقت دعوا کیا تھا کہ اگر رفال طیارے بروقت بھارت کو مل جاتے، تو پاکستان کی طرف سے ایسا حملہ ممکن نہ ہوتا…… لیکن آج حالات نے ثابت کر دیا کہ رفال کے ہوتے ہوئے بھی بھارت کی فضائی برتری کا دعوا زمین بوس ہوچکا ہے۔ یہ دعوا اس لیے زمیں بوس ہوا جب ایک چینی ساختہ "JF-10” طیارے سے رفال جیسا جدید اور مہنگا طیارہ مار گرایا جاتا ہے، تو دنیا حیران ہو جاتی ہے اور جنگی طاقت کے توازن پر سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ محض ایک جنگی کارنامہ نہیں، بل کہ عسکری تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ پوری دنیا اس ’’ڈاگ فائٹ‘‘ (ہوائی جہازوں کا باہمی معرکہ) کو ایک مثال کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ دنیا ورطۂ حیرت میں ہے کہ پاکستان نے کیسے ایک ایکسپورٹ کوالٹی طیارے کی مدد سے دنیا کے مہنگے اور جدید ترین طیارے کو تباہ کر ڈالا…… جب کہ رہی سہی کسر 10 مئی کے معرکے نے پوری کر دی۔
10 مئی کو نہ صرف پاکستانی مسلح افواج نے ایک نپا تلا ردِ عمل دیا، بل کہ یہ ایک ایسا ردِعمل تھا کہ جس نے پوری دنیا کو ایک لمحے کے لیے پریشان کر دیا کہ پاکستان نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا ہی ایسے منوایا ہے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ ابھی نندن کے بعد دوسرا موقع ہے کہ پاکستان نے ایک بھارتی پائلٹ کو بھی گرفتار کیا۔ آپریشن ’’بنیان المرصوص‘‘ نے دنیا کو کم از کم اتنا ضرور بتا دیا ہے کہ ہمارا صبر ہماری کم زوری نہیں۔
رفال کی تباہی پر پاکستان میں شاید خوشی کی لہر تو ہوگی، لیکن اس کی بازگشت امریکہ، فرانس، برطانیہ اور جرمنی جیسے اسلحہ ساز ممالک میں محسوس کی گئی۔ امریکی اور یورپی ذرائع ابلاغ نے اس فضائی مڈبھیڑ کو نہ صرف نمایاں کوریج دی، بل کہ برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے تین مختلف ویڈیوز، سیٹلائٹ امیجز اور سابق فوجی افسر ’’جسٹن کرمپ‘‘ کی گواہی کے ساتھ رفال کی تباہی کی تصدیق کی گئی۔
فرانسیسی کمپنی ’’ڈاسالٹ‘‘، جو رفال بناتی ہے، کو عالمی سطح پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ کیوں کہ اُن کے تیار کردہ جنگی طیارے کو ایک ایکسپورٹ ورژن "JF-10” نے محض چند لمحوں میں زمین بوس کر دیا۔ یہ وہ جھٹکا ہے، جس نے عالمی اسلحہ مارکیٹ میں بڑی تبدیلیوں کی بنیاد رکھ دی ہے۔ دنیا اور خاص طور پر امریکہ کے لیے پریشانی یہ ہے کہ چین اسلحہ سازی میں اس قدر جدت اختیار کرچکا ہے کہ اس کے بنائے گئے ہتھیار اب دنیا کے جدید ترین اسلحے کو بھی مات دے رہے ہیں۔ مستقبل میں امریکہ کے ساتھ جاری مخاصمے میں یہ بات بہت اہمیت اختیار کر جائے گی۔
’’روئٹرز‘‘ (Reuters) جیسا میڈیا کا معتبر عالمی ادارہ اس پوری جھڑپ کو ایک ’’سٹڈی کیس‘‘ قرار دے چکا ہے۔ ’’روئٹرز‘‘ کے مطابق امریکی و فرانسیسی ماہرین بھی اس فضائی جھڑپ کو بہت الگ انداز سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایک جنگ نہیں بلکہ جدید ہتھیاروں، عسکری حکمت عملی اور ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ایک بڑے دھچکے کا نام ہے۔
’’روئٹرز‘‘ نے امریکی اہل کاروں کے حوالے سے لکھا کہ جس ’’PL-15 میزائل‘‘ نے رفال کو مار گرایا، وہ نہ صرف جدید ہے، بل کہ دنیا کے کسی بھی جدید میزائل سسٹم سے زیادہ طاقت ور اور درست نشانہ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے پاس "JF-10” کا جو ورژن ہے، وہ ایکسپورٹ ماڈل ہے، یعنی وہ ورژن جو چین نے پاکستان کو برآمد کیا۔ اگر یہ برآمد شدہ ماڈل ہی اتنی مہارت رکھتا ہے، تو اصل چینی ورژن کی قوت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہی وہ پہلو ہے، جس نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان نے رفال کو مار گرایا ہے، تو پھر جنگ کون جیتا؟ اس کا جواب خود عالمی میڈیا دے رہا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور مشرق وسطیٰ کے معتبر ادارے یہ بات دہرا رہے ہیں کہ پاکستان کی فضائیہ نے نہ صرف اپنی برتری ثابت کی، بل کہ ایک نیا عالمی فوجی بیانیہ بھی تشکیل دیا ہے۔ اس سب کے باوجود پاکستان کی طرف سے کوئی جارحانہ بیان یا حملہ نہیں کیا گیا۔ اس کی بہ جائے، دنیا کو مہارت، تدبر اور موثر عسکری برتری دکھائی گئی۔ یہ صرف طاقت کی نہیں، بل کہ دانش مندی کی فتح ہے۔
اس دوران میں بھارت نے جو جوابی اقدامات کیے، جیسے کہ ڈرون حملے، وہ کسی عسکری حکمتِ عملی کا حصہ نہیں، بل کہ میڈیا پر اپنی خفت مٹانے کی ایک ناکام کوشش تھی۔ یہ ڈرون حملے غیر ملکی ساختہ تھے، جو بھارت نے دوسرے ممالک سے حاصل کیے۔ ان کو بھی پاکستان نے انتہائی پیشہ ورانہ طریقے سے اپنے دفاعی نظام کی مدد سے تباہ کیا، بل کہ اپنے لانچنگ پوائنٹس کو سامنے لائے بنا میزائلوں کے بہ جائے روایتی ہتھیاروں سے گرایا۔ جس بلندی پر یہ ڈرونز تھے، میزائل سے بھی شاید گرائے جا سکتے ہوں ( اس حوالے سے عسکری ماہرین ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔) لیکن ایسا کرنے سے جو معلومات دشمن کو درکار تھیں، وہ ضرور اُن کو حاصل ہوجاتیں۔ اتنا واضح ہے کہ پاکستان اب صرف ایک علاقائی طاقت نہیں، بل کہ عالمی عسکری بصیرت کا حامل ملک بن چکا ہے، ایک انتہائی پروفیشنل فوج اور دانش مندانہ سوچ کا حامل ملک۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ موجودہ جنگ صرف ہتھیاروں کی نہیں، بل کہ بیانیوں کی بھی ہے۔ بھارت میڈیا کے محاذ پر ہمیشہ سے جارح رہا ہے، لیکن اس بار حقیقت اتنی واضح، شواہد اتنے قوی اور عالمی میڈیا اتنا متفق ہے کہ بھارتی بیانیہ مکمل طور پر دھندلا چکا ہے۔ دنیا بھر کے معتبر ادارے اس واقعے کو ایک نئی عسکری حقیقت کے طور پر تسلیم کر رہے ہیں۔
امریکہ کے دفاعی حلقوں میں یہ بات زیرِ بحث ہے کہ اگر رفال جیسے جدید طیارے کو PL-15 جیسے میزائل سے مارا جاسکتا ہے، تو مستقبل میں اُن کی اپنی عسکری پالیسیوں اور ہتھیاروں کی برآمد پر کیا اثر پڑے گا؟ یہ جنگ کا اختتام نہیں، بل کہ ایک نئی دنیا کے آغاز کا عندیہ ہے۔
آخر میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا جنگ صرف اس کو کہتے ہیں، جو توپ و تفنگ کے ساتھ ہو؟ کیا جنگ کا مطلب صرف یہ ہے کہ دشمن کے ملک میں گھس کر حملہ کیا جائے، یا یہ بھی ایک کام یابی ہے کہ آپ اپنے ملک کا دفاع اس انداز میں کریں کہ دشمن کی چال اُلٹی پڑ جائے اور دنیا آپ کے بیانیے کو تسلیم کرے؟
پاکستان نے اپنی حکمتِ عملی، عسکری مہارت اور سٹریٹیجک برتری سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب جنگیں صرف بارود سے نہیں، بل کہ بصیرت سے جیتی جاتی ہیں۔ بھارت کے پاس اس وقت جذباتیت کے سوا کچھ نہیں بچا، جب کہ پاکستان عالمی سطح پر اپنی ساکھ، وقار اور عسکری اہلیت کی بنیاد پر آگے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان نے یقینی طور پر عالمی اسلحہ ساز کمپنیوں اور اداروں کو رفال گرا کر ایک واضح پیغام بھی دے دیا ہے کہ پیشہ وارانہ مہارت جب ٹیکنالوجی میں کم مشین کے ساتھ بھی دکھائی جائے، تو نتیجہ مختلف ہوسکتا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم قومی سطح پر اپنے بیانیے کو درست سمت میں استوار کریں۔ بھارت کو جواب دے دیا گیا ہے، دنیا نے وہ جواب دیکھ بھی لیا اور تسلیم بھی کر لیا۔ اب ضرورت ہے کہ ہم بہ طور قوم اپنی کام یابی کو جذباتی نعروں میں ضائع نہ کریں، بل کہ دنیا کو اپنی دانش مندی، سفارت کاری اور عسکری بصیرت سے متاثر کریں۔
پاکستان نے نہ صرف جنگی محاذ پر فتح حاصل کی، بل کہ عالمی سطح پر عسکری سوچ کا دھارا بھی بدلنے میں کام یاب رہا۔ یہی اصل کام یابی ہے، یہی اصل جنگ کی جیت ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
