(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
ایک بار والی صاحب کو ڈاک کے ذریعے ایک خط موصول ہوا۔ یہ خط اُردو میں لکھا گیا تھا۔ اس خط میں والی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ اُنھوں نے ریاستی پبلک ورک ڈپارٹمنٹ کے ایک مستحق افسر کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک با اثر خاندان کے آدمی کو ترجیح دی، حالاں کہ دوسرا آدمی اس پوسٹ کا زیادہ مستحق تھا۔
اس میں مزید لکھا گیا تھا کہ (اپوائنٹیڈ) خان فصاحت سے بات نہیں کرسکتا، لہٰذا ’’مسٹر فُلاں‘‘ کو یہ کام دیا جانا چاہیے، جو نہ صرف زیادہ قابل اور فصیح ہے، بل کہ گریجویٹ بھی ہے۔ ساتھ میں وہ ایک پرانا ’’سیدو وال‘‘ بھی ہے، اس لیے وہ دوسرے آدمی سے زیادہ وفادار ثابت ہوگا۔
چوں کہ والی صاحب ہم سب کے اندازِ تحریر کو خوب پہنچانتے تھے، اس لیے انھوں نے فوراً خط لکھنے والے کو اس کی لکھائی سے پہچان لیا۔ ان کے پاس اپنے ساتھی کی ٹانگ کھینچنے کے لیے سزا دینے کا مکمل اختیار تھا، لیکن وہ اس شخص پر جرم ثابت کرنا چاہتے تھے۔ بہ راہِ راست کارروائی کرنے کے بہ جائے، انھوں نے ہمارے افسرِ اعلا کو اُردو میں لکھا ہوا ایک رقعہ دیا۔ اس "Slip” میں یہ سٹیٹ سٹور کے جناب تاج ملوک مرزا، کو ایک پروجیکٹ کے لیے 100 تھیلے سیمنٹ کی ترسیل کا کہا گیا تھا۔ ہم سب ریاستی پی ڈبلیو ڈی کے عملے کو ہدایت دی گئی کہ وہ اس پرچی کو نقل کریں۔ ہم نے ہدایت کے مطابق عمل کیا اور ہر پرچی پر دست خط بھی کیے، جیسے ہم معمول کے خطوط پر اسٹور کیپرز کے لیے کرتے تھے۔
ہمارے افسر نے یہ تمام پرچیاں والی صاحب کے سامنے پیش کیں۔ انھوں نے ہر ایک رقعے کو، خط میں الفاظ کی شکل کا موازنہ کرتے ہوئے، ایک ایک کرکے چیک کیا۔ چند ہی لمحوں میں، انھوں نے ایک پرچی منتخب کی اور ہمارے باس سے باقی پرچیوں کو ضائع کرنے کا حکم دیا۔ انھوں نے انھیں اگلی صبح اپنے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا۔
اگلی صبح، ہمارے ہیڈ محمد کریم صاحب نے مشتبہ شخص کو اپنے ساتھ جانے کا کہا۔ وہ پک اَپ پر سوار ہوئے اور والی صاحب کے دفتر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب وہ دونوں والی صاحب کے دفتر میں داخل ہوئے، تو والی صاحب ہاتھ میں ڈاک سے آئے ہوئے وہ خط پکڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’تم نے مجھے یہ خط لکھا ہے۔‘‘ افسر کا چہرہ زرد ہوگیا اور اس نے کم زور لہجے میں کہا، ’’نہیں سر!‘‘
والی صاحب نے دونوں تحریریں میز پر رکھیں اور مماثلت کی طرف اشارہ کیا اور پھر ایک ساتھی کی توہین کرنے کی کوشش کے الزام میں انھیں برطرف کرنے کا حکم دیا۔ بہ ہرحال، انھوں نے اسے بہت جلد ریاست کے دوسرے محکمہ میں دوبارہ مقرر کیا۔
میرے سکول کی زندگی کے دوران میں دھوکا دہی کا ایک اور کیس سامنے آیا۔ والی صاحب نے ایک بار سوات سے مکئی کی درآمد (ایکسپورٹ) کرنے کی اجازت دی۔ والی صاحب کی مہر اور دست خط کے تحت اجازت نامہ جاری کیے بغیر ایکسپورٹ کی اجازت نہیں تھی۔ اب، جو لوگ اکثر مکئی برآمد کرکے بڑی رقم کماتے تھے، انھوں نے والی صاحب کے جعلی دست خط کے ساتھ جعل سازی کی کوشش کی۔ ان کے اپنے دفتر کے عملے کے دو افراد جعلی دست خط کرنے کے لیے بڑی رقم لے رہے تھے۔ ایک تحصیل دار لنڈاکی میں ’’ٹرانزٹ پرمٹ‘‘ کو باقاعدگی سے چیک کرتا تھا۔ اسے بڑھتی ہوئی تعداد میں مکئی سے بھرے ٹرکوں کے بارے میں شک ہوگیا اور وہ یہ معاملہ والی صاحب کے نوٹس میں لایا۔ دھوکے باز آسانی سے پکڑے گئے اور انھیں سزا دی گئی، جن میں ملازمت سے برطرفی بھی شامل تھی۔
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ایک ہی آدمی ایک اچھی طرح سے اس منظم نظام کو اکیلے ہی چلا رہے تھے، اور ہر حکومت کے شعبے پر عقابی نظر رکھے ہوئے تھے۔ صبح کے ناشتے کے وقت، وہ آڈیٹر جنرل ہوتے تھے، خزانے کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کرتے، دفتری اوقات میں، وہ فوج کے سربراہ، چیف جسٹس، چیف انجینئر اور تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی کے سربراہ ہوتے تھے۔ شام کے وقت انسپکٹر جنرل آف ورکس، ویلفیئر آرگنائزر اور اخلاقی تربیت کرنے والے ہوتے تھے ۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
