والی سوات کے لیے کلمۂ خیر کہنے میں کیا امر مانع ہے؟

Blogger Fazal Raziq Shahaab

دوستو! مجھے فیس بک پہ آئے اتنا زیادہ عرصہ نہیں ہوا، مگر جو بات مَیں نے سیکھ لی ہے، وہ ہے کمنٹس کو کبھی نظرانداز نہ کرنا۔ کیوں کہ ان سے رائے زنی کرنے والے کی اصلیت کا پتا چلتا ہے۔
اس کی مدد سے آپ یہ بھی جان لیتے ہیں کہ لوگوں کا’’ٹرینڈ‘‘ کیا ہے، اُن کی تربیت کیسی ہورہی ہے یا ہوئی ہے اور اُن کی سماجی اور اخلاقی سطح کیا ہے؟
دوسری اہم بات جو میرے مشاہدے میں آئی ہے، وہ ریاستی دور سے متعلق پوسٹس پر بعض کمنٹس کرنے والوں کے الفاظ، جو بیش تر زہر آلود، تحقیر آمیز اور نفرت انگیز ہوتے ہیں۔ وہ لوگ شاید صحیح صورتِ حال سے یا تو لاعلم ہیں، یا گم راہ کن پروپیگنڈے سے متاثر ہیں۔ اس حوالے سے میرا خیال ہے کہ ہمیں دو انتہاؤں کے بیچ درمیانی رویہ اپنانا ہوگا۔
حال ہی میں بعض پوسٹوں نے ریاست کے ادغام کو والیِ سوات کی ناکامی قرار دیا، یا لوگوں کی مخالفانہ کوششوں کا شاخسانہ…… مگر مَیں اُن سے بالکل اتفاق نہیں کرتا۔ والیِ سوات نے جن معروضی حالات میں ریاست کے وجود کو قائم رکھا، جن اعصاب شکن "Restrains” اور "Limitations” کے باوصف اُنھوں نے نہایت حوصلے اور "Statesmanship” سے نہ صرف ریاستی اُمور سرانجام دیے، انصاف فراہم کیا، بل کہ ریاست کو تعلیم، صحت اور رفاہِ عامہ کے لحاظ سے ایک مثال، ایک رول ماڈل اور امن کا گہوارہ بنایا، وہ لائقِ تحسین ہے۔
تاریخ کو سمجھ کر پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ریاست کا وجود "Supplementary Instrument of Accession 1954” کے بعد محض ایک رسمی اکائی بن گیا تھا۔ 1955ء میں "State Council” کا قیام اسی ضمنی دستاویزِ الحاق کی بنیاد پر ہوا تھا۔ والیِ سوات اس کونسل کے پریزیڈنٹ قرار پائے اور اُن کو مذکورہ کونسل کے سامنے ریاستی بجٹ، تعلیمی، طبی اور مواصلاتی منصوبوں کی تفصیل دینی تھی اور ان کی تجاویز پر مناسب کارروائی کرنی تھی۔
اگر آپ اُن اجلاسوں کی روداد ملاحظہ کریں، تو اُن میں جا بہ جا ارکان کونسل کی تجاویز اور صاحبِ صدر کے جوابات پڑھ سکتے ہیں، مگر جس تدبر اور تحمل سے والیِ سوات نے ان حالات کو”Handle” کیا اور ترقی کی رفتار کو قائم رکھا، وہ صرف ایک آہنی اعصاب والا شخص ہی کرسکتا ہے۔
والیِ سوات ابتدا ہی سے مخالفتوں سے نبرد آزما رہے اور کسی بھی مرحلے میں سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہوئے۔
1954ء کے بعد ریاست کو کسی بھی وقت اپنی الگ حیثیت کھونی تھی۔ جو لوگ مزاحمت کی باتیں کرتے ہیں، وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ والیِ سوات کسی بھی صورت میں سوات سے نکلنے کو تیار نہیں تھے۔ سوات سے نکل کر وہ کہاں جاتے؟ سوات ہی اُن کا گھر اور پوری دنیا تھی۔
جن لوگوں کو والیِ سوات نے بے تحاشا نوازا تھا، وقت آنے پر وہ بھی لائن کے دوسری طرف کھڑے تھے۔ ریاست ویسے بھی پاکستان ہی کا حصہ تھی، تو اگر باعزت طریقہ سے یہ ہونی ہونی تھی، تو یہی بہترین راستہ تھا۔ وہ ایک آہنی ارادے والے شخص تھے۔ہر قسم کی سازشوں سے سرخ رُو ہوکر نکلے تھے۔
باقی والیِ سوات ایک انسان تھے، کوئی مافوق الفطرت مخلوق نہیں تھے۔ جہاں تک ہوسکا، آئینی حدود کے اندر ریاست کو سنبھالے رکھا۔
ہمیں والیِ سوات میانگل عبدالحق جہانزیب کے لیے کلمۂ خیر کہنے میں کیا چیز مانع ہوسکتی ہے…… جنھوں نے ہمیں تعلیمی، طبی اور مواصلاتی سہولتیں فراہم کیں۔ پڑوسی ریاستوں کے برعکس سوات کو ایک مہذب، پُرامن اور روشن خیال سرزمین کے طور پر پوری دنیا سے متعارف کروایا۔
میری تو دعا ہے کہ اللہ تعالا اُن کی روح کو جنت الفردوس میں اعلا ترین مقام عطا فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے