’’ایسا ہے کہ ریاست دیر اور چترال کی الگ الگ ٹوپیاں تھیں جن کی وجہ سے مذکورہ ریاستوں کے باسیوں کی پہچان باآسانی ہوا کرتی تھی۔ محسنِ سوات میاں گل عبدالحق جہانزیب المعروف والی صاحب نے جیسے ہی زمام حکومت ہاتھ میں لی، تو ان کے سینے میں یہ خواہش انگڑائیاں لینے لگی کہ سوات کی بھی اپنی ایک الگ ٹوپی ہونی چاہیے جو آگے چل کر ریاست سوات کے باسیوں کی پہچان بنے۔ اس لئے آپ جناب نے یہ ذمہ داری میرے والد بزرگوار ملک فضل کریم جان کو سونپ دی۔ بعد میں ایک ڈیزائن باقاعدہ طور پر والی صاحب کے مشورے سے ’’سواتی ٹوپی‘‘ کی شکل اختیار کرگیا جسے یہاں عرفِ عام میں ’’گراریٔ پکول‘‘ کہتے ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن کہ مذکورہ ٹوپی سوات کے باسیوں کے سر پر سج گئی ہے۔ والی صاحب کی تاجپوشی کے اک آدھ سال بعد اس کو تیار گیا ہے۔‘‘
آج کی نشست ’’سوات کیپ ہاؤس‘‘ کے نام ہے جو بلا مبالغہ ایک عہد ساز ادارہ ہے۔ سواتی ٹوپی یا ’’گراریٔ پکول‘‘ کی تیاری کے حوالے سے ملک اورنگزیب صاحب سے میری ملاقات ہوئی تھی جس میں کئی باتیں میرے لئے نئی تھیں۔ سوچا آپ صاحبان سے بھی شریک کرتا چلوں۔ سوات کیپ ہاؤس کے روح رواں ملک اورنگزیب صاحب کے بقول: ’’ان دنوں میرے چچا پروفیسر خورشید، والد بزرگوار کے ساتھ کام کیا کرتے تھے۔ انھوں نے مینگورہ شہر میں راہ چلتے کسی شخص کے سر پر ایک ٹوپی دیکھی جس میں ایک سلوٹ سی بنی ہوئی تھی۔ چچا اُسے ہاتھ سے پکڑ کر دکان لے آئے اور میرے والد صاحب سے کہا کہ یہ ٹوپی کیسی لگ رہی ہے؟ والد صاحب نے ٹوپی دیکھی اور مسکرا کر کہا کہ بے فکر رہو، مجھے آئیڈیا مل گیا۔ اب ریاست سوات کی نمائندہ ٹوپی بنے گی۔‘‘
ملک اورنگزیب صاحب مزید کہتے ہیں کہ اس ٹوپی کو لوگ ریاست سوات کی نشانی سمجھتے ہیں اور اسے ایک طرح سے ثقافتی حیثیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے اس کی مانگ زیادہ ہے۔ ان سے جب سالانہ تیار ہونے والی ٹوپیوں کی تعداد کے حوالے سے پوچھا گیا، تو ایک خفیف سی مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر پھیل گئی اور کہنے لگے کہ اس بات سے اندازہ لگالیں کہ ہم اس کی تیاری سے سال بھر فارغ نہیں ہوتے۔ صرف سوات نہیں بلکہ پشاور، اسلام آباد اور ملک کے دوسرے حصوں سے بھی اس کی مانگ زیادہ ہے۔ جب بھی کوئی سوات کا رہائشی یہ ٹوپی پہن کر ملک کے دوسرے حصوں میں جاتا ہے، تو لوگ اس کے مخصوص ڈیزائن سے متاثر ہوکر اس کے حوالہ سے پوچھتے ہیں اور پھر پتہ حاصل کرنے کے بعد ہمیں کال کرتے ہیں۔ ہم سال بھر اسے مختلف کوررئیر سروسز کے ذریعے بھیجتے رہتے ہیں۔
اس ٹوپی کو لوگ ریاست سوات کی نشانی سمجھتے ہیں، ملک اورنگزیب (فوٹو: لکھاری)
اس کے علاوہ ریاست سوات کے جھنڈے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’’وہ بھی میرے والد صاحب نے ڈیزائن کیا تھا۔ جھنڈے کے نقش و نگار میری والدہ ماجدہ اپنے مبارک ہاتھوں سے کیا کرتی تھیں۔ نیز ریاست سے متعلق دیگر امور یعنی آرمی، پولیس اور سڑکیوں کی وردیاں اور ان سے متعلق مختلف اشیا کی تیاری ہمارے حوالے تھی۔ دراصل ان دنوں جب اول اول والی صاحب تخت پر بیٹھ گئے، تو انھوں نے ریاست کی دستکاری کے کام کے حوالے سے ایک کاریگر ہندوستان سے بلوایا۔ میرے داداجی اس کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ کچھ کام میرے داداجی سیکھ گئے، باقی ماندہ کام کے لئے انھوں نے والی صاحب سے درخواست کی کہ اگر فضل کریم جان (میرے والد بزرگوار) اس کی شاگردی اختیار کرلے، تو بہتر ہوگا۔ یوں میرے والد بزرگوار نے ان سے کافی کام سیکھا۔‘‘
والی صاحب کی تاجپوشی کے کوئی آٹھ دس مہینے بعد سوات کیپ ہاؤس کی بنیاد رکھی گئی۔ کہتے ہیں کہ اول اول دستکاری کا کام حجروں اور بیٹھکوں میں ہوا کرتا تھا۔ بعد میں جیسے ہی بازار کا رجحان بڑھنے لگا، تو ہم بھی بازار ہی نکل آئے۔ ہماری اولین دکان ’’کتیڑہ‘‘ میں تھی جہاں میرے داداجی ملک عبدالمالک بیٹھا کرتے تھے۔
کہتے ہیں کہ کوئی 70 تا 75 سال ہم دستکاری سے وابستہ چلے آ رہے ہیں۔ ’’داداجی سے ہنر والد بزرگوار کو منتقل ہوا، ان سے مجھے اور اب مجھ سے میرے بیٹے کو منتقل ہو رہا ہے۔‘‘
والی صاحب کے حوالے سے کہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ بے حد محبت کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے میرے دادا جی ان کے قریب رہتے تھے۔ اس کے علاوہ جو کام ان کے لئے میرے والد بزرگوار کیا کرتے تھے، وہ انھیں پسند آتا تھا۔’’کوئین الزبتھ جب سوات آئیں، تو والی صاحب نے میرے والد بزرگوار کو ٹاسک دیا کہ ملکہ کے لئے ٹوپی کے ساتھ ایک عدد ’’پرس‘‘ بھی تیار کیا جائے۔ اس طرح سوات کیپ ہاؤس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ایوب خان میرے والد بزرگوار کا شکریہ ادا کرنے بطور خاص ہماری دکان آئے تھے۔ انھوں نے مصافحہ کرتے وقت والد صاحب سے کہا تھا کہ تم میرا کام دل لگا کر کیا کرتے ہو، اس لئے میں بنفس نفیس حاضر ہوا ہوں۔‘‘
کہتے ہیں کہ صدر ایوب خان جب بھی سوات آتے، تو والی صاحب کے حکم کے مطابق چار قراقلی ٹوپیاں تیار کی جاتیں۔ ’’دو ٹوپیاں صدر ایوب خان کی خدمت میں پیش کی جاتی تھیں، باقی دو میں سے ایک ملٹری سیکریٹری اور دوسری ان کے ڈاکٹر کی ہوا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ بادشاہ صاحب کے دور میں ریاستی چغا ہوا کرتا تھا جس کے اولین کاریگر میرے دادا جی تھے۔ اس دور میں دادا جی چغے کثیر تعداد میں تیار کرتے اور بادشاہ صاحب انھیں اپنے ساتھ جمع کرتے۔ پھر جب مہمان سوات کا رخ کرتے، تو بادشاہ صاحب پہلے سے تیار چغا تحفتاً انھیں دے دیتے۔اس کا ڈیزائن بادشاہ صاحب دیا کرتے اور تیاری میرے دادا جی کے ذمہ ہوا کرتی۔‘‘
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے نشاط چوک میں زمیندار کیفی کے ساتھ سوات کیپ ہاؤس آج بھی قائم ہے۔ اس چھوٹی سی دکان کے سامنے پچھلے بیس پچیس سال سے گزرتے ہوئے میرے سان گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ اتنی زبردست تاریخ کی حامل جگہ ہوگی۔
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔