چڑھتے سورج کی سرزمین، دید و شنید (نواں حصہ)

کئی دنوں کے مصروف شیڈول کے بعد اے ایل ایف پی پروگرام کے مطابق ’’مے اے ‘‘ پرفیکچر کو ہمارا ایک ہفتے کا دورہ تھا جس میں ہم نے ’’مے اے‘‘ پرفیکچر کے گورنر سے ملاقات کے علاوہ شینٹو شرائن، جاپانی اماں سے ملاقات، پرائیوٹ طریقے سے جنگلات کا انتظام، قدیم تہذیبی راستہ وغیر ہ کو دیکھنا اور سمجھنا تھا۔ ہمارے دورے کے انتظامات پہلے ہی سے کر دیئے گئے تھے، جس میں جاپان کی تیز رفتار بلٹ ٹرین ’’شین کین سن‘‘ میں ہمارے لئے سیٹیں حاصل کی گئی تھیں۔ جاپان کی تیز رفتار ریل گاڑیوں کے بارے میں کافی پڑھا تھا اور وِڈیوز میں دیکھا بھی تھا۔ اس میں سفر کرنے کی خواہش دل میں کئی بار انگڑائیاں لیتی تھی، جو آج پوری ہونے والی تھی۔ ہم صبح سویرے ’’شین اگاوا‘‘ سٹیشن پہنچے جہاں ’’جونکو ایکاڈا‘‘نے ہمیں اپنے اپنے ٹکٹ دئیے۔ جاپان کے ٹرین سٹیشن، بین الاقوامی ہوائی اڈوں کی طرح خوبصورت اور صاف و شفاف ہوتے ہیں۔ ہم روانگی والے لاؤنچ میں وقت سے پہلے پہنچے، تو تھوڑی دیر انتظار گاہ میں رُکے۔ یہاں کا عملہ انتہائی بااخلاق تھا جو وقتاً فوقتاً ہماری رہنمائی میں مصروف تھا۔ مجھے ذاتی طور پر ذرا جلدی تھی، تاہم بلٹ ٹرین کے آنے جانے کا بھی بغور مطالعہ کرنا چاہتا تھا۔ ہم وقتِ مقررہ سے تھوڑی دیر پہلے متعلقہ پلیٹ فارم کے لئے نیچے گئے اور بالکل صحیح وقت پر ہماری ٹرین حاضر تھی۔
جاپان کی شین کین سن ٹرین تقریباً 320 کلو میٹر فی گھنٹہ تک رفتار پکڑ سکتی ہے جو دنیا کی تیز ترین ریل گاڑیوں میں سے ایک ہے۔ ہم جب ٹرین کے اندر گئے، تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ ریل گاڑی ہے یا کوئی وی آئی پی جہاز کا اندرونی حصہ۔ یہ ایک مکمل لگژری ڈبہ تھا جس میں سیٹیں جہاز کی سیٹوں کی مانند تھیں، تاہم یہ جہازکی سیٹوں سے کافی بڑے اور وسیع تھیں۔ خوش قسمتی سے میری سیٹ کھڑکی کے قریب اور میرے قریب ’’کاورو‘‘ براجمان ہوئی جو اے ایل ایف پی کے منتظمین میں سے ایک دلکش خاتون ہیں۔ جب ٹرین روانہ ہوئی، تو اس کی رفتا ر تیز اور سفر اتنا آرام دہ تھا کہ بیٹھتے ہی نیند کے جھونکے آنے لگے، پر میں جاگتا رہا۔ کیوں کہ مجھے بلٹ ٹرین میں زندگی کا یہ پہلا سفر انجوائے کرنا تھا، تاہم جب میں نے پیچھے دیکھا، تو ہمارا انڈونیشین فیلو ’’سودی‘‘ خراٹے لے رہا تھا۔ تیز رفتا ٹرین اونچی عمارتوں کے درمیان سے نکل کر سرسبز میدانوں میں سے دوڑتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔ اس کے راستے میں پہاڑ آتے، تو یہ پہاڑوں میں بنے راستے میں گویا گولی کی طرح تیزی سے گزر جاتی جبکہ دونوں اطراف کے پہاڑوں پر گھنے جنگل اور تاحدِ نگاہ مرغزار کسی جنت کا سماں باندھ رہے تھے۔ جاپان ریلوے کا عملہ انتہائی پیشہ ور اور بااخلاق ہے۔ جب عملہ کا کوئی فرد ہمارے بوگی میں داخل ہوتا، تو دروازے میں کھڑے ہوکر پہلے جھک جاتا اور پھر آگے بڑھتا ہوا دوسری بوگی میں چلا جاتا۔ دو گھنٹوں کی مسافت طے کرنے کے بعد ہم اپنی منزل مقصود یعنی مے اے پرفیکچر پہنچے۔ یہاں ہوٹل میں ہمیں کمرے دیئے گئے اور کہا گیا کہ ایک گھنٹہ بعد ہم نے پرفیکچر کے گورنر سے ملاقات کے لئے جانا ہے۔

شین کین سن ٹرین کا اندرونی منظر جس پر کسی جہاز کا گمان ہوتا ہے۔ (Photo: @c2.staticflickr.com)

مے اے پرفیکچر جاپان کے کنسائی ریجن میں ٹوکیوسے تقریباً 308 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال کی جانب ہونشو جزیرہ پر واقع ہے۔ اس کے گورنر سوزوکی ایکائے (Suzuki Eikei) سے ہماری ملاقات 24 ستمبر کو میونسپل ہال میں ہوئی۔ ہم ہال میں پہلے ہی سے موجود تھے کہ ایک خوبرو جوان جلدی سے ہال میں داخل ہوا جس کے پیچھے ایک دوسرا آدمی بھی تھا۔ میں نے سوچا یہ کوئی عام آدمی ہوگا، مگر مجھے حیرانی ہوئی کہ وہ گورنر صاحب ہی تھے۔ پاکستان میں تو اے سی یا ڈی سی کے ساتھ پروٹوکول ہوتا ہے، آگے پیچھے سرکاری گارڈز ہوتے ہیں، تو گورنر تو بہت بڑی چیز ہوتی ہے۔ ان کا تو اپنا پروٹوکول اور ناز و نخرے ہوتے ہیں۔ خیر، گورنر صاحب مقررہ وقت سے دو تین منٹ پہلے آئے تھے۔ آتے ہی اپنا تعارف کیا اور پریزنٹیشن شروع کی۔

مے اے پرفیکچر کے ایک سیاحتی جگہ کا دلفریب منظر (Photo: @papoahotel.com)

جس طرح ہمارے ملک میں صوبے اورپھر اضلاع ہیں، ٹھیک اسی طرح جاپان کو 47 پرفیکچرز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر پرفیکچر کا گورنر ہوتا ہے جو باقاعدہ الیکشن کے ذریعے منتخب ہو کر آتا ہے۔ گورنر سوزوکی ایکائے جب 2011ء میں پہلی دفعہ الیکشن جیت کر گورنر بنے تھے، تو وہ جاپان کے سب سے کم عمر گورنر تھے۔ اِس وقت وہ دوسری دفعہ گورنر منتخب ہوئے ہیں۔ اپنے وژن اور انقلابی اصلاحات کی وجہ سے وہ نہایت مقبول بھی ہیں۔ وہ اس سے پہلے جاپانی کابینہ میں مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور جاپان کے موجودہ وزیر اعظم کے قریبی لوگوں میں سے ہیں۔ مے اے پرفیکچر جاپان کے ان علاقوں میں سے ایک ہے جو قدرتی آفات یعنی سیلاب اور سونامی کی زد میں ہے۔ جب سوزوکی ایکائے یہاں کے گورنر بنے، تو انہوں نے یہاں کئی اصلاحات کیں اور اپنے پرفیکچر کو کئی شعبوں میں جاپان کے دوسرے پرفیکچرز پر سبقت دلائی۔ ان کا وژن ہے کہ اپنے پرفیکچر کو، یہاں کے رہنے والوں کی سماجی بہبود کو سب سے بہتر بنائیں اور یہی وجہ ہے کہ پورے جاپان میں اس صوبے کے لوگ سب سے زیادہ خوشحال اور مطمئن زندگی بسر کررہے ہیں۔ وہ اپنی حکومت کو ایک تکونی نظریہ کے تحت چلا رہے ہیں جس میں ذہنی سکون، معیشت اور سماجی نظام اور ایک دوسرے سے جڑے رہنا شامل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مستطیل کے یہ تینوں سرے مضبوط ہوں، تو معاشرے خود بخود خوشحال ہوجاتے ہیں۔ جب 1959ء میں یہاں کارخانے لگنے شروع ہوئے، تو یہاں آلودگی نے بھی بیماریاں پھیلانا شروع کیں اور دمہ اور سانس کی بیماریاں عام ہوگئیں جس کے خلاف یہاں کے مکینوں نے عدالت میں کیس دائر کر دیا اور اسی طرح انہوں نے 1972ء میں کیس جیت لیا جس کے بعد یہاں ماحولیاتی آلودگی کے قوانین بنے اور عملی طور پر نافذ بھی ہوئے۔ اس کے بعد تمام کارخانوں کو سلفر ڈائی آکسائیڈ کی کمی کی مشینیں لگانی پڑیں۔ نتیجتاً یہاں سلفر ڈائی آکسائیڈ کا لیول گر کر ماحولیاتی معیار کے مطابق ہوگیا۔ یوں یہاں کے مقامی لوگ جیت گئے اور اب بھی مقامی لوگ ماحولیاتی کمیٹیوں کے سرگرم ممبران ہیں جو وقتاً فوقتاً حکومتی اداروں سے مل کر کارخانہ داروں کے ساتھ ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 1972ء کے بعد یہاں ایک گھنٹہ بھی آلودگی محسوس نہیں کی گئی۔

گورنر "سوزوکی ایکائے” فیلوز کو بریفنگ دے رہے ہیں۔ (فوٹو: لکھاری)

مے اے پرفیکچر میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ایک فعال ادارہ کام کررہا ہے جس میں مقامی لوگ، کارخانہ دار، طالب علم اور حکومتی اہلکار مل جل کر کام کرتے ہیں اور ان تمام کے درمیان ہمہ وقت تعاون کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ گورنرصاحب کہتے ہیں کہ وہ قدرتی آفات سے نمٹنے کی سرگرمی کو روزمرہ زندگی کا حصہ بنا رہے ہیں جس میں معاشرے کہ تمام حلقوں کے لوگوں کو آفات میں کمی کی سرگرمیوں میں برابر کا شریک کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں انسانی وسائل کا بنک بنایا ہے جس میں قدرتی آفات جھیلنے والے تجربہ کار لوگ شامل ہیں۔ مے اے پرفیکچر میں ’’سونامی الرٹ سسٹم‘‘ لگا ہوا ہے جو سونامی کی پیش گوئی کرتا ہے اور فوراً ہی ان کا تمام نظام آفت سے نمٹنے اور اس کے اثرات میں کمی کے لئے کام شروع کردیتا ہے۔

لکھاری اور دیگر فیلوز کی گورنر "سوزوکی ایکائے” کے ساتھ باجماعت تصویر

میں مے اے پرفیکچر کے گورنر کو دیکھ رہا تھا جو انتہائی مخلص اور باعمل شخص نظر آرہاتھا اور اسی لئے یہاں آلودگی کا نام و نشان نہیں تھا۔ اس موقع پر میرا دھیان سوات کی طرف گیا۔ میں نے سوچا کہ 1969ء میں ہمارا سوات آلودگی سے مکمل طور پر صاف تھا۔ یہاں کے خوڑ (نہریں) اتنے صاف تھے کہ خواتین یہاں کپڑے دھوتیں اور بچے نہاتے تھے مگر یہاں کی کام چور اور بدعنوان انتظامیہ اور بے شعور لوگوں کی وجہ سے آج مینگورہ شہر دنیا کا گندا ترین شہر بن گیا ہے اور یہاں کی شفاف نہریں گندے نالوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ کاش، ہمیں بھی جاپانی انتظامیہ کی طرح سرکاری افسران ملتے یا پھر ہماری ریاست ہی برقرار ر ہتی۔ (جاری ہے)

……………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔