تونسہ (پنجاب) میں ایچ آئی وی وائرس کے مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق ایک اور بچے میں اس وائرس کی تصدیق کے بعد متاثرہ افراد کی تعداد 107 تک جا پہنچی ہے۔ یہ صرف ایک عددی اضافہ نہیں، بل کہ ایک لمحۂ فکریہ ہے، جو ہمارے صحت کے نظام، احتیاطی تدابیر اور پبلک ہیلتھ پالیسی کی ناکامی کو بے نقاب کرتا ہے۔
اسپتال انتظامیہ کے مطابق متاثرہ بچوں کی عمریں چھے ماہ سے دس سال کے درمیان ہیں۔
یہ بات اس خدشے کو تقویت دیتی ہے کہ وائرس کسی خاص طبقے یا مخصوص رویے کی وجہ سے نہیں، بل کہ ممکنہ طور پر غیر محفوظ طبی طریقوں یا دیگر وجوہات کے باعث پھیل رہا ہے۔ ان بچوں نے کوئی غیر محفوظ جنسی عمل نہیں کیا، نہ نشہ آور سرنجوں کا استعمال ہی کیا، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ معصوم بچے کیسے اس مرض میں مبتلا ہوگئے؟
ہمارے دیہی اور نیم شہری علاقوں میں غیر مستند ڈاکٹر (جعلی حکیم، عطائی) کا راج ہے، جو ایک ہی سرنج کو کئی مریضوں پر استعمال کرلیتے ہیں، جس سے ایچ آئی وی سمیت دیگر خطرناک بیماریوں کے پھیلاو کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
اگر کسی مریض کو خون کی ضرورت پڑے اور وہ غیر محفوظ بلڈ بینک سے لیا گیا ہو، تو اُس میں ایچ آئی وی وائرس کی موجودگی ممکن ہے۔
اسی طرح، اگر حاملہ ماں ایچ آئی وی سے متاثرہ ہو، تو اُس کے بچے میں بھی یہ وائرس منتقل ہوسکتا ہے۔
تونسہ میں بچوں میں زیادہ شرح اس بات کی نشان دہی کر رہی ہے کہ یا تو ماؤں میں وائرس پہلے سے موجود تھا، یا پھر طبی عمل میں سنگین غفلت ہوئی۔
تونسہ میں پہلے ہی صحت کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ ایچ آئی وی کنٹرول پروگرام نے ادویہ تو بھیج دی ہیں، مگر عملہ تاحال نہیں پہنچا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقامی مریضوں کے لیے تاحال کوئی مستقل حل موجود نہیں۔ وزیرِ اعلا پنجاب مریم نواز نے اس مسئلے کا نوٹس لے کر جامع پلان طلب کیا ہے، جو ایک مثبت قدم ہے۔ تاہم، سبھی نوٹس اور پلان تبھی موثر ثابت ہوں گے، جب عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
تونسہ میں نہ صرف متاثرہ افراد، بل کہ عام شہریوں کی بھی بڑے پیمانے پر ایچ آئی وی ٹیسٹنگ کی جائے، تاکہ مزید کیسوں کا پتا چل سکے اور پھیلاو کو روکا جاسکے۔ عطائی ڈاکٹروں اور غیر رجسٹرڈ طبی مراکز کو فوری طور پر بند کیا جائے، تاکہ غیر محفوظ سرنجوں اور آلات کے استعمال کو روکا جاسکے۔ یہ یقینی بنایا جائے کہ بلڈ بینکوں سے دیا جانے والا خون مکمل طور پر اسکرین شدہ ہو، تاکہ متاثرہ خون کسی دوسرے شخص میں منتقل نہ ہو۔ اسپتال میں الگ وارڈ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن جب تک ماہرین اور طبی عملہ وہاں نہیں پہنچے گا، مریضوں کی مناسب دیکھ بھال ممکن نہیں ہوسکے گی۔ اس لیے عملے کی فوری تعیناتی ناگزیر ہے۔ تونسہ سمیت دیگر علاقوں میں ایچ آئی وی اور ایڈز کے حوالے سے شعور اُجاگر کیا جائے، تاکہ لوگ غیر محفوظ طبی طریقوں، غیر محفوظ انتقالِ خون اور دیگر ممکنہ وجوہات سے بچ سکیں۔
تونسہ میں ایچ آئی وی کیسوں میں اضافہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ یہ ایک سنگین بحران ہے، جو ہمارے صحتِ عامہ کے نظام کی کم زوریوں کو بے نقاب کر رہا ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے، تو یہ مسئلہ مزید شدت اختیار کرسکتا ہے اور دوسرے علاقوں میں بھی پھیل سکتا ہے۔ حکومت، طبی اداروں اور عوام کو یک جا ہوکر اس مسئلے سے نمٹنا ہوگا، ورنہ آنے والے دنوں میں ہمیں مزید خوف ناک اعداد و شمار کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھولیں اور ان معصوم بچوں کے مستقبل کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھائیں۔ صرف بیانات دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، عملی اقدامات ناگزیر ہیں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
