چار اپریل، بھٹو اور نشانِ پاکستان

Blogger Syed Fayaz Hussain Gailani

ذرا چشمِ تصور میں لائیں وہ رات، جو کسی پر قہر بن کر ٹوٹی تھی۔ جی، وہ رات تھی 3 اور 4 اپریل 1979ء کے درمیان کی۔ دن کو بارش ہوتی رہی۔ رات قریب 11 بجے کا وقت تھا، جب ڈپٹی سپرنٹنڈٹ مجید قریشی راولپنڈی ڈسٹرک جیل کے ایک معمولی سے کمرے میں داخل ہوا اور موجودقیدی کو بتایا کہ اس کی زندگی کا آخری وقت آچکا ہے۔ وہ مرنے کے لیے تیار ہوجائے۔
اُس کے بعد کچھ سرکاری اہل کار کمرے میں داخل ہوئے اور قیدی کو کہا کہ اگر وہ کوئی وصیت کرنا چاہے، تو بتا دے…… لیکن قیدی نے انکار کر دیا اور کہا، اَب وصیت کتابوں میں تحریر کی جائے گی۔
اُس کے بعد سپرنٹنڈٹ جیل اُسی کمرے میں داخل ہوا اور ایک کاغذ کا ٹکڑا نکال کر پڑھنا شروع کر دیا۔ اُس کاغذ کے ٹکڑے کو قانون کی زبان میں ’’بلیک وارنٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ سپرنٹنڈٹ کی آواز گونجی کہ آپ پر پاکستان کے ایک شہری نواب احمد خان کو قتل کروانے کے جرم میں مقدمہ درج ہوا۔ اُس مقدمے کی پاداش میں آپ کو گرفتار کیا گیا۔ پہلے ہائی کورٹ نے آپ کو موت کی سزا سنائی۔ اُس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے آپ کی اپیل مسترد کر دی۔ حکومتِ وقت نے آپ کے فیصلے میں کسی قسم کا کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا اور یوں آپ کی سزا پر آج عمل در آمد کیا جا رہا ہے۔ قیدی مسکرا کر سنتا رہا۔
پھر قیدی کو کہا گیا کہ وہ نہالیں، لیکن قیدی نے کہا کہ وہ بالکل فریش اور صاف محسوس کرتا ہے خود کو۔ اُس کے بعد بہ قول ڈپٹی سپرنٹنڈٹ، قیدی کافی پینے کی خواہش کرتا ہے، لیکن انتظامیہ کا خیال ہے کہ وقت ختم ہوگیا ہے۔ جب قیدی احتجاج کرتا ہے، تو سپرنٹنڈٹ سیکورٹی سٹاف کو اشارہ کرتا ہے کہ وہ قیدی کو اُٹھالیں۔ سیکورٹی اہل کار فوراً قیدی کو اٹھا کر سٹریچر پر ڈال دیتے ہیں اور پھر وہ سٹیریچر جیل کی مختلف راہ داریوں سے گزر کر اس چبوترے کے قریب آجاتا ہے کہ جہاں اوپر لوہے کی گرل کے ساتھ رسا باندھا ہوتا ہے اور نیچے تختے ہوتے ہیں۔ بس لمحوں کا سفر باقی رہتا ہے۔ اُس قیدی کو تختۂ دار پر کھڑا کرکے رسا گلے میں ڈال دیا جاتا ہے اور اگلے ہی لمحے سپرنٹنڈٹ سفید رومال کو نیچے جانب کی جانب ہلا کر اشارہ دیتا ہے۔ پھر یک دم سے تختے نیچے گرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی قیدی بھی فضا میں جھول جاتا ہے۔
موت کی تصدیق کے بعد لاش اُتار لی جاتی ہے۔ وہی کفن پہنا دیا جاتا ہے اور ایک طیارہ چک لالہ ائیر بیس پر منتظر ہوتا ہے کہ جو لاش لے کر سکھر کو جاتا ہے، وہاں سے فوجی قافلہ کی صورت میں لاش کو تحصیل رتو ڈھیرو کے گاؤں گڑھی خدا بخش میں فجر سے کچھ ہی دیر بعد پہنچا دیا جاتا ہے۔ گاؤں کے مولوی کو بیدار کیا جاتا ہے اور ہر طرف فوجی ناکہ لگا دیا جاتا ہے۔ گاؤں کے چند لوگ اُٹھتے ہیں، روتے ہیں، جنازہ پڑھتے ہیں اور وہی ایک قبر میں دفن کر دیتے ہیں۔ یوں بات ختم سمجھی جاتی ہے۔
اس پوری کارروائی کو راولپنڈی کے سفید محل میں بیٹھا ایک شخص بہ راہِ راست کنٹرول کر رہا ہوتا ہے۔ اُس شخص کا خیال ہوتا ہے کہ سب کچھ بالکل آرام سے ہوگیا۔ اب قیدی قبر میں آرام کرے گا اور مَیں قیامت تک حکومت کروں گا۔ اُس شخص کا یہ گمان تھا کہ قیدی بہت کم عرصہ میں گم نامی کی دلدل میں ڈوب جائے گا اور تاریخ میں بہت کم جگہ اُس کا مقدر ہوگی، اور جتنی ہوگی، وہ بھی ایک قاتل کے طور پر۔
اُس قیدی شخصیت کو پہلے تو موت دینے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا گیا۔ حتی کہ موت پر عمل در آمد بھی غیر روایتی طور پر کیا گیا، یعنی وقت سے بہت پہلے۔ پھر میڈیا کے ذریعے اُس کی کردار کشی کی انتہا کی گئی۔ اُس کی تصویر کو اخبارات میں چھاپنے سے منع کر دیا گیا۔
جی ہاں! اُس قیدی کا نام ذوالفقار علی بھٹو ولد شاہنواز بھٹو تھا، جو لاڑکانہ کا رہایشی تھا اور اپنی محنت و قابلیت سے پہلے وزیرِ توانائی بنا، پھر وزیر خارجہ بنا، پھر ملک کا پہلا منتخب صدر اور وزیر اعظم بنا، خیبر سے کراچی تک ہر شہر، ہر قصبہ، ہر گاؤں میں اُس کے چاہنے والے معقول تعداد میں بستے تھے۔ پھانسی کی سزا اس کے لیے امرت دھارا بن گئی، یعنی ابدی زندگی۔ آج 46 سال بعد بھی ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کا نعرہ گونج رہا ہے اور اس کو مٹانے والے خود مٹ چکے ہیں۔
اُس دور کے حکم رانوں کا خیال تھا کہ بھٹو اب ایک بھولی بسری کہانی ہوجائے گا، لیکن شاید قدرت کا نظام کچھ اور ہے، تاریخ کا پہیا جب گھومتا ہے، تو پھر اس کو سمجھ نہیں آتی کہ غلط کو درست کیسے کیا جائے، بل کہ وہ بہت عدل سے بے رحم احتساب کرتا جاتا ہے اور حقائق واضح کر دیتا ہے۔ اس معاملے پر بھی تاریخ کا انصاف ہوتا گیا۔ مستقبل قریب و بعید میں مزید راز اِفشا ہوں گے۔
اب تک کا معاملہ یہ ہے کہ ملک کی تقریباً تمام سیاسی و انتظامی قیادت بھٹو کو بے قصور مانتی ہے اور عدالتِ عظمیٰ نے تو صدرِ پاکستان کے ریفرنس میں یہ واضح فیصلہ کر دیا ہے کہ بھٹو کو انصاف نہیں دیا گیا۔ اَب باقاعدہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز ’’نشانِ پاکستان‘‘ دیا گیا۔ نشانِ پاکستان بھٹو کو دیا بھی، تو اُن کے مخالف ترین سیاسی حریفوں نے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ ذوالفقار علی بھٹو کوئی فرشتہ تھا، یا خامیوں سے پاک شخصیت…… لیکن یہ حقیقت ہے کہ بھٹو ایک سچا اور پکا قوم پرست تھا۔ وہ پاکستان کو آگے لے جانے کی خواہش رکھتا تھا۔ شاید بھٹو عملی طور پر ایک اچھا مسلمان نہ تھا، لیکن اُس شخص کے اندر امت سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ وہ اس کا برملا اظہار کرتا تھا۔ کتنے بین الاقوامی فورم پر وہ بہت کھل کر اس بات کا اظہار کرتا رہا کہ اگر آج کے دور میں یہودی، عیسائی اور ہندو بہتر عزت کا تقاضا کرتے ہیں، اگر دنیا میں اُن کی اہمیت و عزت ہے، تو انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک مسلمان کیوں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہیں؟ اسی وجہ سے اُس نے امت کی یک جہتی کی خاطر بہت کام کیا۔
اِس کے بعد اُس نے دنیا بھر کے کچلے ہوئے انسانوں کے لیے آواز بلند کی اور دنیا کو تیسری دنیا کی اصطلاح دی۔ بہ ہرحال یہ سبق ہے تاریخ کا۔ آج تاریخ کے غیر جانب دار اور بے رحم احتساب نے فیصلہ کر دیا کہ حق پر کون ہے! ایک طرف انکل سام کے زر خرید چیلے تھے۔ اُن کو ہیرو بنانے کی جعلی کوششیں کی گئیں۔ ریڈیو اور ٹی وی پر اندھی مہم چلائی گئی۔ کتب لکھوائی گئیں۔ بھٹو کو غدار اور کافر ثابت کرنے کے لیے بے تحاشا مین پاؤر استعمال کی گئی۔ اربوں روپیا خرچ کیا گیا، لیکن تاریخ کا پہیا اپنی فطری رفتار سے گھومتا گیا۔ تاریخ نے اپنا کام جاری رکھا۔ آج وہ ظلم کی داستانیں دھری کی دھری رہ گئی ہیں، جو روز ریڈیو اور ٹی وی پر ہر گھنٹے کے بعد نشر کی جاتی تھیں۔ جب بھٹو کی بیٹی ’’نشانِ پاکستان‘‘ آہوں اور سسکیوں کے ساتھ وصول کر رہی تھی، تو میرے دماغ میں بھٹو کو جسمانی اور سیاسی طور پر ختم کرنے والے چہرے گھوم رہے تھے۔ مثلاً: جنرل فیض چشتی آئے دن یہ تاویل دیتے کہ جی میرا تو کوئی کردار ہی نہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے کرنل رفیع کو بہت اعتماد سے ڈانٹا تھا کہ بھٹو کو تو اُس کا خاندان بھول چکا ہے، تم کو کیا ضرورت ہے اُس پر قلم اٹھانے کی……؟ لیکن آج کیا ہوا،اپنی طرف سے ضیاء الحق لاڑکانہ کے ایک دور دراز گاؤں میں دفن کرکے یہ سمجھ بیٹھا کہ بھٹو کا قصہ ختم۔ لیکن وہ چھوٹا سا گاؤں اب دنیا کا محور ومرکز بن چکا ہے۔ عین اسلام آباد کے مرکز میں ایک بین الاقوامی مسجد کے تقریباً صحن میں ضیا کو دفن کیا گیا، لیکن آج کیا ہورہا ہے کہ فیصل مسجد میں دن رات رونق لگی رہتی ہے، لیکن ضیا کی قبر ویران پڑی ہے۔
اسی طرح جسٹس انوار الحق بے چارہ کسی تقریب کی دعوت میں پہلی درخواست یہ کرتا تھا کہ سب کہیں، لیکن بھٹو کیس پر بات نہ کریں۔
محمود مسعود امریکہ میں ذلیل ہوکر گیا۔ جسٹس مولوی مشتاق بہت قابل، بہت مغرور، لیکن اُس کی لاش تک خراب ہوئی۔ لوگ جنازہ پھینک کر بھاگ گئے، شہد کی مکھیاں پڑگئیں، لیکن بھٹو پاکستانی سیاست و معاشرت کا محور و مرکز رہا۔ بھٹو کی اہمیت کو تاریخ نے ویسے ہی درست نہیں کر دیا، بل کہ اپنے تمام فطری قوانین اور طریقۂ کار کے مطابق کیا۔
آج بھٹو کی جماعت کے شدید ترین مخالف بھی بھٹو کو ماننے پر مجبور ہیں۔ نواز شریف، مریم شریف، مولانا فضل الرحمان، عمران خان، الطاف حسین، ایمل ولی خان وغیرہ تمام بھٹو کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور خراجِ تحسین بھی پیش کرتے ہیں۔
مجھے یاد ہے چند سال قبل ایک سیاسی جماعت کے چاپلوس شخص کہ جس کا باپ بھٹو کا ساتھی رہا، نے کشمیر کے انتخابات میں بھٹو بارے روایتی مذمتی باتیں کیں، تو اُسی جماعت کے ارکان نے قومی اسمبلی میں اپنے ہی راہ نما پر شدید تنقید کی اور خبر دار کیا کہ وہ احتیاط کریں اور آیندہ محتاط رہیں۔
مَیں نے بھٹو بارے جتنا پڑھا اور سنا، اُس میں بے شک بھٹو صاحب کی بہت سی خامیاں ہیں، لیکن پاکستان اور عوام کے لیے اگر کسی نے کوئی کام کیا ہے، تو اس کا نام بس ذوالفقار علی بھٹو ہے۔ اگر کوئی پاکستان کی تاریخ میں پاکستان کی کام یابیوں پر تحقیق کرے، تو اُس کو معلوم ہوگا کہ آئینِ پاکستان کی تشکیل ہو، کہوٹہ ایٹمی پروگرام ہو، پاکستانیوں کے بیرونِ ملک روزگار کا معاملہ ہو، بندرگاہوں اور فیکٹریوں کی بنیادیں ہوں، عام عوام کے جمہوری اور ترقیاتی حقوق ہوں، خواتین کے لیے کام ہوں، دین کی خدمات ہوں، زراعت کی ترقی ہو…… ان تمام کاموں کا کھرا آپ کو بھٹو سے جا کر ملتا ملے گا۔
المختصر، ہمارے آج کے کالم کا مقصد بھٹو کے کارناموں پر روشنی ڈالنا نہیں، نہ ہمیں اس سے دل چسپی ہی ہے، بل کہ ہمارا مقصد صرف اُس دماغ کو سمجھانا ہے کہ جوتاریخ کی مخالف سمت کو درست سمجھ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ تاریخ ہمیشہ درست فیصلے کرتی ہے، اور صرف بھٹو کا ہی مسئلہ نہیں، بل کہ یہ آگاہ انسانی تاریخ کا ایک مستند اور سکہ بند طریقۂ کار ہے۔ تاریخ وقتی کام یابی یا ناکامی سے بالاتر ہو کر فیصلے کرتی ہے اور تاریخ کے ہیرو وہ نہیں ہوتے، جو وقتی میدان مار لیتے ہیں، بل کہ ہمیشہ وہ ہیرو ہوتے ہیں، جو درست نظریہ پر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر حسین ابن علی سے لے کر عدنان مینڈرس، بل کہ نیلسن میڈیلا تک ہمیشہ تاریخ کا فاتح اور ہیرو وہی بنا، جو صداقت اور حق کے ساتھ کھڑا رہا۔
قارئین! آپ بھٹو کا لٹریچر پڑھیں۔ اُن کے عدلیہ میں بیانات دیکھیں۔ ایک بات ہر جگہ وہ تواتر کے ساتھ کہتا ملے گا کہ مَیں جانتا ہوں آمرانہ اقتدار مجھے جسمانی طور پر مارنے کے لیے تیار ہے، اور وہ مجھے مار دے گا…… لیکن مَیں تاریخ میں ایک ہیرو کی طرح زندہ و جاوید رہوں گا۔
شاید جب صنم بی بی نشانِ پاکستان لے رہی تھی، تو تاریخ کا یہ باب مکمل نہیں، لیکن کسی حد تک پورا ہو رہا تھا۔ بھٹو کو ریاستِ پاکستان نے ایک مظلوم، بے گناہ اور سچا قوم پرست تسلیم کر لیا تھا، سرکاری و حکومتی سطح پر۔ مجھے یقین ہے کہ اگلے 50 سال کے بعد یہ باب مکمل ہو جائے گا۔ پھر بھٹو پُرکشش مسکراہٹ کے ساتھ ایک فاتح کی طرح کھڑا ہوگا اور ضیا اور اُس کے حواری ’’غدارِ ملک و ملت‘‘ کا ’’اعزاز‘‘ پائیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے