پروفیسر قادر خان

Blogger Sajid Aman

پروفیسر قادر خان صاحب کہتے ہیں کہ میری کل 7 یا 8 تصویریں ہیں، جو میانگل شہریار امیر زیب صاحب نے کھینچی ہیں۔ چوں کہ اُن کو معلوم ہے کہ مجھے تصویر کھینچنا پسند نہیں، اس لیے اُنھوں نے اُن پر تبصرے لکھ کر مجھے واپس کر دیا ہے۔
قارئین! راقم ایک دن تین بجے سہ پہر سے چھے بجے شام تک پروفیسر صاحب کے ساتھ رہا۔ یوں تو جب بھی اُن سے ملاقات ہوتی ہے، یا کہیں ملنا ہوتا ہے، تو وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اُس روز مَیں نے اپنے ملنے کا مدعا ان کو بتایا، تو کہنے لگے، ’’آج مل کر بہت افسوس ہوا۔ تم بھی اتنے خود غرض ہو، ملنے کا مقصد لیے آئے ہو!‘‘
زندگی اپنے اُصولوں، اپنے ضابطوں پر گزارنے کا نام ہے۔ پیسا، شہرت، سیاست جیسی چیزیں زندگی کو گرفت میں لے لیتی ہیں اور انسان سے آزادی چھین لیتی ہیں۔ ’’لائم لائٹ‘‘ میں آنا زندگی کو منجمد کر دیتا ہے۔
کہتے ہیں:’’مَیں اپنی پرایویسی سے بہت خوش ہوں اور زبان زدِ عام بننا بالکل پسند نہیں…… خواہ وہ اچھی نیت سے ہو یا بری نیت سے۔ یہ فرد کی بنیادی شخصی آزادی کا استحصال ہے۔‘‘
بہت سی باتیں پہلی بار ہوئیں، جن میں 90 فی صد کو اُنھوں نے امانت قرار دیا۔ کہا: ’’مَیں ایک مطمئن زندگی اور پُرسکون موت کا خواہش مند ہوں۔ اس کے علاوہ کسی خواہش کا اسیر نہیں۔ پنشن کی رقم اتنی آتی ہے کہ جس سے میری زندگی سہولت سے گزرتی ہے۔ یہ پیسے مَیں مہینے کے اندر ختم کرلیتا ہوں۔ مجھے یاد نہیں کہ مَیں نے کسی کے ساتھ زندگی میں برا کیا ہو، یا کم از کم کسی کا برا سوچا ہو۔ جواب مَیں مجھے یاد نہیں کہ میرے ساتھ کبھی دھوکا ہوا ہو۔ میری کوئی چیز گم نہیں ہوئی۔ میرا کبھی کوئی نقصان نہیں ہوا۔‘‘
ملاقات کے دوران میں ہنستے ہوئے کہا کہ اکتوبر یا نومبر میں میری جیب سے تقریباً 1 لاکھ 25 ہزار روپے گرے، مین بازار چوک کے آس پاس، مجھے پتا نہ چلا۔ نشاط چوک کراس کرتے ہوئے پیچھے سے کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے روکا۔ مجھے برا لگا۔ اُس نے کہا، معاف کرنا! آپ سے یہ پیسے وہاں گرگئے ہیں، مگر آپ رُک نہیں رہے تھے، یہ لیجیے اپنے پیسے۔ کہنے لگے، چوں کہ مجھے بالکل خبر نہیں تھی، اس لیے اُس کا شکریہ ادا کیا۔
کہا: ’’پچھلے مہینے مجھ سے بینک میں 86 ہزار روپے گرگئے۔ مَیں نے بینک سے 1 لاکھ 25 ہزار اور نکلوائے تھے۔ جب گھر پہنچا، تو نئے پیسے موجود تھے، پرانے غائب تھے۔ مَیں رکشے میں گیا تھا۔ کسی نے کہا کہ رکشے والے کو پکڑتے ہیں۔ مَیں نے کہا، نہیں! اگر رکشے والے کو ملے ہوں گے، تو ضرورت مند ہوگا، اس لیے رکھ لیے ہوں گے۔ اور اگر ضرورت مند نہیں ہوگا، تو اُس کو میرا پتا معلوم ہے، خود ہی دینے آ جائے گا۔
بعد میں وہ پیسے بینک سے ملے۔ وہ منیجر صاحب کے پاس پڑے تھے۔ اُن کو دے دیے گئے تھے۔ اُنھوں نے واپس کیے۔ مَیں نے لے کر جیب میں رکھے، تو ساتھ گئے شخص نے کہا کہ گن تو لیں۔ مَیں نے جواباً کہا، یہ گننا بھی عجیب ہے۔ کباب خریدو ، واپس پیسے لیتے گنو، سنگترے خریدو، کھلے پسے گنو ۔پوری زندگی پیسے گنتے گنتے گزر جانی ہے۔‘‘
قارئین! پروفیسر صاحب 1942ء میں امان کوٹ میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب بچپن ہی میں فوت ہوئے۔ اُن کے ذہن پر والد کا ایک دھندلا سا عکس پڑا ہے اور بس۔
ودودیہ ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ آگے جہانزیب کالج میں پڑھے۔ اُن سے اساتذہ کا نام پوچھا، تو مسکرائے اور کہا کہ ’’ہمارے وقت میں اُستاد کی ایک شخصیت ہوتی تھی۔ اُن کا نام معلوم کرنا یا جستجو کرنا آسان کام نہیں تھا۔ جن کے نام آتے بھی تھے، تو اِس وقت ذہن میں نہیں آرہے۔‘‘
1971ء میں ڈگر کالج میں ملازمت شروع کی۔ 1974ء میں جہانزیب کالج آنا ہوا۔ 1999ء میں سوات انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ سے منسلک ہوئے اور وہی سے ریٹائرمنٹ لی۔ 80 سالہ پروفیسر صاحب (ماشاء اللہ) آج بھی صحت مند ہیں۔ بلڈ پریشر یا شوگر وغیرہ لاحق نہیں۔ دانت سالم ہیں۔ خبریں سن کر سو جاتے ہیں۔ دوپہر کو لازمی آرام کرتے ہیں۔ واک کرنے بازار جاتے ہیں۔
کہتے ہیں، ’’جتنی پُرتعیش زندگی کی مجھے خواہش تھی، میں گزار رہا ہوں۔ اپنی گاڑی ہے، اپنا گھر ہے۔ اس سے زیادہ کی خواہش تھی، نہ جد و جہد ہی کی۔ ہفتے میں پانچ دن دوستوں کی محفل اور دو دن گھر میں گزارتا ہوں۔ زیادہ تر دوست کالج کے شاگرد ہی ہیں۔‘‘
قارئین! میرے پاس پروفیسر صاحب کے بارے میں لکھنے کو بہت کچھ ہے، مگر اُن کی اجازت نہیں۔ زندگی اپنے اُصولوں پر کم ہی لوگ جی پاتے ہیں۔
پروفیسر صاحب کا مطالعہ غضب کا ہے۔ ریفرنس کے لیے کتابوں سے اقتباسات کا حوالہ دینا کوئی اُن سے سیکھے۔
قارئین! ہماری مذکورہ ملاقات کئی گھنٹے جاری رہی، مگر اُن کا حکم تھا کہ ’’سبھی باتیں نہیں لکھنی۔ کیوں کہ مَیں ہر کسی کو مخاطب کرتا ہوں، نہ ہر کسی سے بات ہی کرتا ہوں۔ سبھی باتیں ہر کسی سے تو نہیں ہوسکتیں ناں……!‘‘
سو مجھے اپنے استاد، رشتے دار، دوست اور آئیڈیل سے شکوہ ہے کہ اُن سے کی گئی گفت گو چاہتے ہوئے بھی بلا کم و کاست نہیں لکھ سکتا۔
قارئین! ایک دفعہ پروفیسر صاحب کو لانگ ڈرائیو کی خواہش ہوئی۔ کانجو روڑ پر ٹریفک میں پھنس گئے۔ آپریشن کے بعد کے دن تھے۔ آرمی کی چیکنگ ہورہی تھی، ناکہ لگا تھا۔ جب پروفیسر صاحب کی باری آئی، تو اُن کو گاڑی سے اُتارا گیا۔ گاڑی کی تلاشی لی گئی۔ اُن سے پوچھ گچھ شروع ہوئی۔ پروفیسر صاحب بے بسی اور ندامت کی تصویر بنے کھڑے تھے۔ نوجوان میجر نے پُراعتماد آواز میں پوچھا، ’’آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘
پروفیسر صاحب نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ’’بس موت کا انتظار……!‘‘
پُر اعتماد میجر کی بھنویں سکڑ گئیں۔ حیرت اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت میں پوچھا، ’’کیا مطب……؟‘‘
پروفیسر صاحب نے جواباً کہا، ’’رہنے دو، اب تمھیں کیسے سمجھاؤں گا؟‘‘
میجر صاحب مشتعل ہوکر بولے، ’’نہیں، مجھے اپنا مطلب سمجھائیں!‘‘
پروفیسر صاحب نے جواباً کہا: ’’کچھ یوں زندگی گزاری ہے کہ اولاً لیکچرار سے پروفیسر بنا، ثانیاً کنٹرولر امتحانات کالج سے ایجوکیشن بورڈ پہنچا۔ بچوں کی شادیاں کرائیں۔ زندگی اچھے طریقے سے گزاری۔ اب کرنے کو کچھ نہیں۔ صرف مرنا رہ گیا ہے۔‘‘
میجر صاحب نے سلوٹ کیا۔ معذرت کی اور چائے ساتھ پینے کی فرمایش کی۔ پروفیسر صاحب نے کہا، ’’میجر صاحب! اِس وقت میں بہت پریشان ہوں۔ میری اور آپ کی گفت گو کی وجہ سے لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔وہ روڈ کھلنے کے لیے تکلیف دہ انتظار میں ہیں۔‘‘
میجر صاحب نے ایک بار پھر معذرت اور شرمندگی کا اظہار کیا اور کہا کہ چیکنگ کا عمل تیز تر، باعزت اور باوقار طریقے سے کیا جائے گا، بس شرط یہ ہے کہ آپ میرے ساتھ چائے پی لیں۔ پروفیسر صاحب نے بھی شرط مان لی۔ رخصت ہوتے وقت پروفیسر صاحب سے پوچھا، ’’سر! آپ سے پھر کب ملاقات ہو رہی ہے، یہاں تو آئیں گے ناں……!‘‘
پروفیسر صاحب نے جواب دیا، ’’ضرور! لیکن تب جب آپ لوگ رخصت ہوچکے ہوں گے۔‘‘
ریاستِ سوات کے ادغام کے بعد مختلف انتظامی ڈھانچے کھڑے کیے گئے۔ ایسے میں پروفیسر صاحب کی رفیع الملک کاکی خان سے اتفاق سے ملاقات ہوئی اور پھر مذکورہ ملاقات ایسی دوستی میں تبدیل ہوئی کہ اب اُس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
پروفیسر صاحب، سوات کلب کے مستقل ممبر رہے…… جہاں اعلا پائے کے تعلیم یافتہ، سکالر اور اپنے فیلڈ میں کمال حاصل کرنے والے لوگ رُکن ہوتے تھے۔ کاکی خان بھی کلب کے لائف ٹائم ممبر تھے۔
کہتے ہیں کہ پروفیسر صاحب کو نوجوانی میں اعلا نسل کے کتے پالنے کا بہت شوق تھا۔ ایک دفعہ ایک محفل میں ایک شخص آئے اور پروفیسر صاحب کو کہا، جناب! میرے پوتے کیا کمال کے کتے لائے ہیں۔ اس حوالے سے اُس نے لمبی تقریر جھاڑی۔ آخر میں کہا، ’’کتے بہت وفادار ہوتے ہیں!‘‘
مجھ (راقم) سمیت مجلس میں بیٹھے ہر شخص نے اثبات میں سر ہلایا۔ پروفیسر صاحب اُس وقت تک لاتعلقی سے سن رہے تھے۔ یک دم بولے، ’’کتے سے بے وفا اور بزدل جانور پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ خود کو انسان کا غلام بنا دیتا ہے۔ اچھی حفاظت اور خوراک کے بدلے یہ غلامی کرتا ہے۔‘‘
اُس وقت مَیں حیرت سے پروفیسر صاحب کا منھ تکتا رِہ گیا۔ پھر اُنھوں نے دلیل کے طور پر کئی ادبا کے حوالے دیے اور کئی کتابوں سے کتوں کی خصلت پر اتنی باتیں کیں کہ مَیں ششدر رہ گیا۔
قارئین، ایک بار شیخ سعدی سے کسی نے پوچھا کہ علم کی انتہا کیا ہے؟ اُنھوں نے جواب دیا: ’’حیرت……!‘‘
مَیں ہر دفعہ جب بھی پروفیسر صاحب سے ملا، حیرت زدہ ہی لوٹا۔ مجھے ہر وقت اُن سے ملنے کے بعد اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا۔

قارئین! جب مَیں فرسٹ ائیر میں تھا، کسی نے مجھے ’’سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن‘‘ کے بارے میں بتایا۔ اس کی آمدنی بتائی اور بتایا کہ کسی ایک شخص کو بیمہ کرو۔ یوں انشورنس کمپنی میں درج بھی ہو جاؤگے اور آمدن بھی شروع ہو جائے گی۔ پوری رات سوچتا رہا اور خود کو لکھ پتی بنتا تصور کرتا رہا۔ صبح کالج پہنچا، تو میرا ’’پہلا شکار‘‘ (پروفیسر صاحب) کالج بالکونی کے نیچے ہاتھ میں عینک لیے کھڑے تھے۔ مَیں تیر کی طرح کمان سے نکل کر شکار کی طرف گیا۔ اُنھوں نے فطری شفقت سے سلام کا جواب دیا۔ مَیں سیدھا اپنے مقصد کی طرف آیا، جو کچھ رٹا تھا، سب اُن کے گوش گزار کیا۔ وہ تحمل سے سنتے رہے۔ مَیں خوش ہو رہا تھا کہ وہ پھنس گئے ہیں۔ اور پھر جیسے ہی مَیں خاموش ہوا، تو وہ بے اختیار ہنسنا شروع ہوئے۔ دیکھتے دیکھتے ہنسی قہقہے میں بدل گئی اور قہقہہ اتنی شدت اختیار کرگیا کہ مَیں سہم سا گیا۔ پھر جب نارمل ہوئے، تو پوچھا: ’’تم نے پوچھا نہیں کہ مَیں کیوں ہنس رہا تھا؟‘‘ مَیں نے سہمے ہوئے انداز میں پوچھا: ’’کیوں……؟‘‘
کہا، ’’تم سے بہت توقع تھی۔ خود بھی یقین تھا کہ جن کے تم بچے ہو، اُنھی کی طرح تم بھی سمجھ دار ہوگے، مگر تم بالکل سمجھ دار نہیں ہو۔ اس طرح میری یہ بھی غلط فہمی دور ہوئی کہ تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو۔ سنو، جب مَیں مر جاؤں گا، تو انشورنس کے پیسے میرے کس کام آئیں گے؟ مرنا ایک حقیقت ہے۔ اس کے بعد انسان مردہ ہوجاتا ہے۔ مردہ، بے فکر اور بے نیاز ہوجاتا ہے۔ اور بے وقوف ہے وہ، جو مرنے کے بعد زندہ رہنے والوں کی اپنی زندگی تنگ کرے اور مرنے تک کا کرایہ دے۔‘‘
پروفیسر صاحب کی صحبت میں بہت کچھ سمجھا۔ بہت کچھ سیکھا۔ بہت اثر لیا اور تب سے آج تک اپنی اُس روز کی حماقت پر پچھتاتا ہوں۔ مارکیٹنگ کی زبان میں کہتے ہیں کہ مارکیٹ اور گاہک کو پہچاننا ضروری ہے۔ نیز ضرورت کو پہچاننا ہے، بل کہ ضرورت کو پیدا کرنا ہے اور گاہک کو پراڈکٹ نہیں، اطمینان بیچنا ہے۔
قارئین! اُس روز مَیں سب غلط کرکے آیا تھا۔
میری خواہش ہے کہ پروفیسر صاحب تادیر زندہ رہیں، صحت مند رہیں۔ پتا ہے، میرے اندر اُن کے لیے ایک شدید قسم کا جذبہ ہے، جو نہ چاہتے ہوئے مَیں آج تک اپنے اندر سے ختم نہ کرسکا۔ مذکورہ جذبہ کئی دہائیوں سے میرے اندر ہے، جس کا آج اظہار کرنے جا رہا ہوں۔ ’’اے کاش……! ایسا ممکن ہوتا کہ اُن کے ذہن میں جتنی قابلیت، مطالعہ، مشاہدہ ا ور تجربات پھرے پڑے ہیں، اُن کو میں کشید کرکے اپنے دماغ میں بھرلوں۔‘‘
مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک حیوانی ٹائپ جذبہ ہے، مگر آج اس کا اقرار کرتا ہوں۔ جب بھی اُن سے ملتا ہوں کسی آدم خور جیسی خواہش مجھ پر غالب ہوجاتی ہے۔
بہ قولِ شاعر (تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ)
ایک روشن دماغ ہے،ا ور رہے
شہر میں اِک چراغ ہے،ا ور رہے
آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے