بڑے شہروں میں رہنا یوں تو بے شمار فوائد کا باعث ہے۔ تمام جدید سہولیات یہاں رہنے والوں تک قابل رسائی ہوتی ہیں…… لیکن بڑے شہروں میں رہنے کے کئی نقصانات بھی ہیں، جن میں سرِفہرست ٹریفک کا اِزدحام اور اس سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی ہیں۔ ایک وقت تھا، جب سوات میں والی صاحب کے دور میں چنار کا ایک درخت کاٹنے پر سخت سزا ہوتی تھی اور ہر طرف خوب صورت جھیلیں، آبشاریں، جنگلات اور ہریالی تھی…… لیکن اب معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ وقت کے ساتھ جنگلات کٹ گئے، جھیلیں ختم ہوگئیں، ہاؤسنگ سوسائٹی اور کنکریٹ کے جنگل بن گئے، رکشوں، دھواں چھوڑتی گاڑیوں، موسمیاتی تبدیلی اور صنعتی دھویں نے رہی سہی کسر پوری کردی۔
ٹریفک کا شور اور دھواں ایک طرف تو آپ کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے، دوسری طرف ٹریفک جام میں پھنسنا اور بات بات پر ڈرائیوروں سے اُلجھنا آپ کی دماغی کیفیات اور مزاج کو تبدیل کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوات میں رہنے والے افراد میں امراضِ قلب، ہائی بلڈ پریشر اور ڈپریشن کا مرض عام ہوتا جارہا ہے۔
جیسے جیسے سوات میں فضائی آلودگی بڑھتی جا رہی ہے، ویسے ویسے ہمارے پھیپڑوں کی صحت پر بھی مضر اثرات مرتب ہوتے جا رہے ہیں۔
آلودہ ہوا سے سانس کی نالی میں سوزش پیدا ہوتی ہے جس سے پھیپڑے زہریلے مادوں کو جسم سے ٹھیک طرح سے خارج نہیں کر پاتے۔ آئیے، جانتے ہیں کہ فضائی آلودگی سے نمونیا کی بیماری پیدا کرنے والے عوامل کون سے ہیں؟
٭ پارٹیکولیٹ میٹر (پی ایم 2.5 اور پی ایم 10):۔ پی ایم 2.5 اور پی ایم 10 جیسے پارٹیکولیٹ میٹر پھیپڑوں کی تہہ میں جذب ہوتے ہیں، جس سے سوزش اور ’’آکسیڈیٹیو سٹریس‘‘ پیدا ہوتا ہے۔ ان ذرات سے قوتِ مدافعت کم زور ہوتی ہے، جس سے نمونیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
٭ نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ:۔ نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ عمومی طور پر گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں میں پائی جاتی ہے، جس سے سانس کی نالیاں تنگ پڑتی ہیں اور سوزش بڑھتی ہے۔ نتیجتاً پھیپڑے وقت کے ساتھ ساتھ متاثر ہوتے ہیں۔ لمبے عرصے تک اگر ’’نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ‘‘ جسم میں داخل ہوتی رہے، تو اس سے پھیپڑوں کی پیچیدہ بیماریوں سمیت نمونیا ہوسکتا ہے۔
٭ اوزون:۔ صنعتوں سے خارج ہونے والا دھواں جب سورج کی روشنی سے ’’ری ایکٹ‘‘ کرتا ہے، تو اس کے نتیجے میں گراؤنڈ لیول اوزون پیدا ہوتی ہے، جس سے پھیپڑوں کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے، جب کہ دمے کی بیماری کی علامات سنگین ہوجاتی ہیں۔ جب پھیپڑے اوزون سے خراب ہوتے ہیں، تو اس سے وائرل نمونیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
٭ بچوں اور بوڑھوں میں نمونیا کا خطرہ:۔ بچوں اور بوڑھوں میں قوتِ مدافعت کی کمی اور پھیپڑوں کے محدود کام کرنے کی وجہ سے فضائی آلودگی کے باعث نمونیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
٭ شہری اور صنعتی علاقے:۔ شہری علاقوں میں زیادہ ٹریفک اور صنعتی سرگرمیوں کی وجہ سے آلودگی زیادہ ہوتی ہے۔ فضائی آلودگی والے ایسے علاقوں میں زیادہ دیر رہنے کی وجہ سے سانس کی بیماریاں بڑھ جاتی ہیں اور نمونیا کی بیماری عام ہو جاتی ہے۔
٭ ’’اِن ڈور‘‘ آلودگی:۔ دھویں، فیول کے جلنے اور ’’کیمیکلز‘‘ کی وجہ سے پائی جانے والے ’’اِن ڈور‘‘ آلودگی بھی ’’آؤٹ ڈور‘‘ آلودگی کی طرح ہی خطرناک ہوتی ہے۔ ’’اِن ڈور‘‘ آلودگی میں سانس لینے کی وجہ سے سانس کی بیماریاں اور نمونیا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
٭ بدلتے موسموں کے اثرات:۔ موسموں کے بدلنے، خاص طور پر سردیوں کے مہینوں، میں آلودگی مزید گمبھیر ہو جاتی ہے اور سانس لینے کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں درجۂ حرارت کی کمی کے باعث سرد ہوا زمین کے قریب ہوتی ہے، جس سے سانس لینے میں دشواری پیدا کرنے والے انفیکشن جنم لیتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
