ریاست سوات کی سند ملکانہ

Blogger Fazal Raziq Shahaab

گذشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر سابقہ ریاستِ سوات کے دور میں حکم ران کے دستخطوں سے جاری شدہ اُن سندات کو شیئر کیا جا رہا ہے، جن میں کسی بھی علاقے کے صاحبِ جائداد شخص کو اپنی زمینوں (دفتر) اور مزارع (فقیروں) کا ملک مقرر کرنے کا ذکر ہوتا ہے اور بس۔ ان کے لیے کسی اعزازیے (مواجب وغیرہ) کا ذکر نہیں ہوتا۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ صرف ایک عز و شرف کی بات تھی اور اس میں کچھ مالی مراعات نہیں تھیں۔
دوسری طرف ایسے فرامین بھی منظر عام پر لائے گئے ہیں جن کے الفاظ ہی سے حاملِ سند کی حیثیت اور مرتبے کا اظہار ہوتا ہے۔
آخرالذکر امر کی ابتدا باچا صاحب کے دورِ حکومت سے ہوئی۔ چوں کہ ریاست ابھی اتنی طاقت ور نہیں تھی اور اسے مزید مضبوط اور ممتاز خوانین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان کو کچھ”Incentives” اور مراعات دینا مجبوری تھی۔اس کٹیگری کے ملکانان کی تعداد اگر چہ اتنی زیادہ نہیں تھی، مگر اُن کا حلقہ اثر ضرور اہمیت رکھتا تھا۔ اُن کے بارے میں جو جو فرامین جاری ہوتے تھے، اُن کے الفاظ غور سے ملاحظہ کریں، تب آپ کو اُن کے اور عام سند رکھنے والوں کی حیثیت کے تعین کرنے میں آسانی ہوگی۔
ثانی الذکر کے فرامین کے الفاظ کچھ اس طرح ہوا کرتے تھے: ’’ہر گاہ کہ فلاں…… ریاست کا خیر خواہ اور دوست ہے۔ اس وجہ سے اس کو محاصل جرائم میں ملکانہ دیا جائے گا۔‘‘
ایک اور قسم کی سندِ ملکانہ کے الفاظ اس طرح سے تھے کہ ـچوں کہ فلاں ریاستِ سوات اور حکم ران کا خیر خواہ اور دوست ہے۔اس وجہ سے اس کو مبلغ………… روپیہ مواجب مقرر کیا جاتا ہے، جو اسے مقررہ وقت پر ادا کیا جائے گا۔‘‘
بغیر مواجب کے اور بغیر مراعات کے زیادہ تر ملاکانان کا تقرر دوسرے والیِ ریاست میاں گل جہان زیب کی دستخطوں سے ہوتا نظر آتا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست مستحکم ہوچکی تھی۔
مواجب یافتہ ملکانان کا بھی اثر و رسوخ کم ہوتا رہا۔ مواجب کی ادائی کے علاوہ باقی مراعات آہستہ آہستہ ختم کردی گئیں۔ مواجب خور ملک کے انتقال پر بڑے بیٹے کو مواجب کی رقم منتقل کی جاتی تھی…… مگر آدھی کرکے۔
بعض مورخین کے مطابق دارمئی خان کا مواجب سب خوانین سے زیادہ تھا۔
مواجب خور ملک اور عام سندِ یافتہ ملک میں ایک اور امتیاز یہ ہے کہ مواجب کے حاملین کی تعداد کم تھی اور ملکانہ سند یافتہ سیکڑوں میں تھے، لیکن پھر بھی اسے ایک اعزاز کی حیثیت حاصل تھی۔ وہ لوگوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے