ریاست سوات کے والی کا ایک معائنہ

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
تین سال تک چکیسر میں ہر مہینے تین ہفتے گزارنے کے بعد، 1965ء میں والی صاحب نے مجھے حکم دیا کہ میں اکاخیل، موسیٰ خیل کے علاقے میں تعمیراتی ذمہ داریاں سنبھالوں۔ اس دوران میں بریکوٹ میں لڑکوں کے لیے ہائی سکول کی عمارت مکمل ہوچکی تھی، لیکن مڈل سکول مانیار اور ابوھا میں سکولوں کی تعمیر جاری تھی۔ بریکوٹ میں حاکم کی رہایش گاہ بھی ابھی زیرِ تعمیر تھی۔
اسی صبح جب مَیں دفتر پہنچا، تو ریاست کے محکمہ ’’پی ڈبلیو ڈی‘‘ کے سربراہ، حاجی محمد کریم نے مجھے بتایا کہ والی صاحب بریکوٹ ہائی سکول کا حتمی معائنہ کریں گے، جو ایک ماہ قبل مکمل ہوا تھا۔ انھوں نے مجھے سمجھایا کہ اگر صورتِ حال غیر موافق ہوئی، تو مَیں بات بگڑنے سے کیسے بچوں گا۔ اس نے مجھے تسلی بھی دی کہ اگر اس دورے کے دوران میں والی صاحب کوئی خامی نکالتے ہیں، تو اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہوگی۔ والی صاحب کا معائنہ بہت باریک بینی سے ہوتا تھا اور ان کی تیز نظر سے کوئی نقص نہیں بچ پاتا تھا۔
مختصر یہ کہ مَیں بریکوٹ پہنچا۔ مقامی سپاہیوں کی مدد سے سکول کا احاطہ اور خاص طور پر سکول تک جانے والا راستہ صاف کروایا۔ مَیں بڑی بے چینی اور تشویش کے عالم میں ان کے پہنچنے کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک ایک بھینس کہیں سے آ کر ٹھیک اسی جگہ گند ڈال گئی جہاں والی صاحب کی گاڑی رُکنے والی تھی۔ عین اسی وقت والی صاحب کی سفید جیپسٹر نمودار ہوئی اور بھینس کے فضلے سے چند انچ کے فاصلے پر رُک گئی۔ گارڈز کی ایک کھلی لینڈ روور بھی وہاں پہنچی اور سیکورٹی سٹاف نے چند سیکنڈز میں ارد گرد کے علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
اب میری ڈیوٹی تھی کہ میں ان کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولوں، لیکن مَیں بے حس وہیں کھڑا رہ گیا اور ذرا بھی ہل نہ سکا۔ والی صاحب نے کہنی سے دروازے کا ہینڈل کھٹکھٹایا اور جیسے ہی انھوں نے سڑک پر قدم رکھنا چاہا، ان کی نظر اس گندگی پر پڑی۔ انھوں نے ڈرائیور کو گاڑی تھوڑی آگے بڑھانے کا حکم دیا۔ ان کے ماتے پر بَل دیکھ کر میں کسی بھی ناخوش گوار نتیجے کے لیے تیار ہوگیا۔
وہ سکول کی طرف بڑھے۔ میرے آفیسر اور اے ڈی سی ان کے ساتھ تھے۔ وہ ہیڈ ماسٹر کے دفتر میں داخل ہوئے۔ اپنی لکڑی کی ہتھوڑی سے فرش کو چیک کیا اور اٹیچ باتھ روم کا بھی جائزہ لیا۔ انھوں نے سیش کاڈ بلاک کو کھینچا، تو وہ دیوار سے نکل کر ان کے ہاتھ میں آگیا۔ انھوں نے مڑ کر مجھے دیکھا اور پوچھا کہ میں نے ایسی تنصیب کی اجازت کیسے دی؟ مَیں نے جواب دیا: ’’سر، اس سکول کی تعمیر ایک ماہ قبل مکمل ہوئی ہے اور آج میرا اس جگہ پر پہلا دن ہے۔‘‘ وہ تھوڑے پُر سکون ہوئے اور مجھے، نہ کہ میرے افسر کو جو خاموش کھڑا تھا، حکم دیا کہ ٹھیکے دار سے آخری بل میں پانچ سو روپے جرمانہ وصول کیا جائے۔
والی صاحب نے مزید ہدایت دی کہ سکول میں کلاسیں اگلے دن سے شروع کی جائیں۔
شاہی گاڑیاں پارک کرلی گئی تھیں اور واپسی کے لیے تیار تھیں۔ جیسے ہی وہ روانہ ہوئے، مَیں نے سکون کا سانس لیا۔ مَیں خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے