ہم ہفتہ اور اتوار کو اکثر فارغ ہوتے تھے، جس میں ہر فیلو اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی سرگرمی میں مشغول ہوسکتا تھا۔ اس لئے میں اور ویتنامی فیلو ’’دُک‘‘ نے جاپانی فیلو ’’آیاکو‘‘ کو درخواست کی کہ ہمیں الیکٹرانک سامان کی مارکیٹ لے جایا جائے۔ ہماری درخواست کے جواب میں انہوں نے کہا: ’’بسر و چشم۔‘‘ ہم تمام فیلوز نے ٹوکیو شہر کے ’’اکیہابارہ‘‘ نامی جگہ جانے کا پروگرام بنایا جو کہ ٹوکیو میں الیکٹرانک سامان کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
آج بھی صبح سے بارش برس رہی تھی، ہم روپونگی سب وے سٹیشن (جاپان میں زیرزمین ریلوے لائن) گئے اور وہاں سے ہم حیبیا لائن میں بیٹھ گئے۔ حسین ’’ایاکو ‘‘ میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گئی اور بیٹھتے ہی یوں ہلنے لگی جیسے کہ وہ کسی میوزک کے ساتھ رقص کر رہی ہو۔ میں کبھی اس متحرک ہرنی اور کبھی ریل گاڑی میں دوسرے افراد پر سرسری سی نظر ڈالتا۔ جاپانی لوگ چاہے مرد ہوں یا خواتین، کبھی کسی کو دیکھتے نہیں۔ ریل گاڑی کے ایک ڈبے میں آمنے سامنے سیٹوں پر بیٹھ کر بھی کوئی سامنے بیٹھے شخص کی طرف نظر نہیں اٹھاتا۔ بس ہر کوئی نیچے دیکھتا ہے، اپنے موبائل فون پر نظریں گاڑے اور یا پھر آنکھیں بند کرکے آرام فرما رہا ہوتا ہے۔ یہاں سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں بھی انتہائی خاموشی ہوتی ہے جبکہ بعض لوگ تو کھڑے کھڑے بھی اونگھتے رہتے ہیں۔ یہاں لوگ پبلک ٹرانسپورٹ میں فون پر بات نہیں کرتے۔ کیوں کہ یہ عمل ان کے ہاں غیر تہذب یافتہ سمجھا جاتا ہے۔ اہلِ جاپان کے بقول اس سے دوسرے مسافروں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ میں نے سوچا کہ ہمارے ملک میں تو لوگ پبلک ٹرانسپورٹ میں نہ صرف اونچی آواز میں باتیں کرتے ہیں بلکہ کئی بار دیکھا گیا ہے کہ زوردار قہقہے بھی لگاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ماشاءاللہ بعض لوگ سگریٹ پینے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ اس موقع پر میں داد دئیے بنا نہ رہ سکا کہ اہلِ جاپان کیوں آگے ہیں؟ جاپان میں لوکل ریل گاڑیاں ہر منٹ بعد آتی اور جاتی رہتی ہیں، مگر پھر بھی ان سٹیشنوں میں بھیڑ لگی رہتی ہے۔ اکثر تو لوگ جانے والی ٹرین کے پیچھے دوڑیں لگاتے ہیں۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ یہ دوڑیں ویسے ہی نہیں لگائی جاتیں، اہلِ جاپان کے لئے ہر لمحہ جو قیمتی ہوتا ہے۔ آمدم برسر مطلب، تقریبا آدھے گھنٹے اور دس بارہ سٹیشن چھوڑنے کے بعد ’’ایاکو‘‘ نے ہمیں اشارہ دیا کہ اگلی سٹیشن پر اتریں گے۔ نتیجتاً ہم سب دروازے کے قریب گئے اور اگلی سٹیشن پر اتر گئے۔
یہ وسطی ٹوکیو میں قائم پُررونق جگہ ہے جہاں ہر وقت سیاحوں اور جاپان کے دوسرے حصوں سے آئے ہوئے لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ آنے والوں میں زیادہ تر الیکٹرانک اشیا میں دلچسپی لینے والے لوگ ہوتے ہیں۔ یہاں ایک طرف اگر نئی اشیا کے بڑے بڑے پلازے ہیں، تو دوسری طرف ’’سیکنڈ ہینڈ‘‘ یعنی استعمال شدہ سامان کی بھی سیکڑوں دوکانیں ہیں۔جاپان میں استعمال شدہ اشیا کی خریدو فروخت کا رواج دوسرے ممالک سے زیادہ نظر آتا ہے۔ ایسی جگہیں عام طور پر مقامی اور غیر مقامی لوگوں سے کھچا کھچ بھری پڑی رہتی ہیں۔ یہاں کی خاص بات یہاں قائم ’’شینٹو شرائن‘‘ ہے جو کہ ذہانت کے دیوتا کے لئے مشہور ہے۔ یہاں زیادہ تر طالب علم نوجوان امتحان سے پہلے اپنی ذہانت تیز کرنے کے لئے دعائیں مانگنے آتے ہیں۔ اس لئے ’’ایاکو‘‘ ہمیں یہ شرائن دکھانے کیلئے لے گئی۔ جب ہم اندر داخل ہوئے، تو ہم نے کئی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو دعائیں مانگتے ہوئے پایا۔ میری نظر سامنے ایک بڑے درخت کے اردگرد کاغذ اور ایک دیوار پر لٹکتے ہوئے لکڑی کے ہزاروں ٹکڑوں پر پڑی جو بڑی ترتیب اور سلیقہ سے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ منظر میری آنکھوں کو بھاگیا۔ میں اس کے قریب گیا، تو ہر ٹکڑے پر جاپانی میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ اس حوالہ سے’’ایاکو ‘‘نے بتایا کہ یہ وہ خواہشات اور دعائیں ہیں جو لوگ یہاں چھوڑ کر واپس گئے ہیں۔
میں نے جب ان کے سلیقہ سے لگائے ہوئے یہ کاغذ اور لکڑی کے ٹکڑے دیکھے، تو مجھے اپنے ملک کی درگاہوں اورمقدس مقامات پر لگے ہوئے رنگ برنگے کپڑوں کے لٹکے ہوئے چیتھڑے یاد آئے جو اکثر اتنے بے ڈھنگے انداز میں لگے ہوتے ہیں کہ پورے منظر کو خراب کر دیتے ہیں یا اتنے گندے ہوجاتے ہیں کہ ان سے بدبو آنے لگتی ہے۔
چوں کہ میں اور ’’دُک ‘‘ دونوں فوٹو گرافی کے شوقین تھے، اس لئے ہم دونوں ڈی ایس ایل آر کیمروں کی مارکیٹ دیکھنا چاہتے تھے۔ ’’ایاکو‘‘ ہمیں یہاں کی سب سے بڑی مارکیٹ ’’یوداباشی اکیبہ‘‘ لے آئی۔ یہ تقریبا پانچ منزلہ بڑی عمارت ہے جس کی ہر منزل ایک ہال پر مشتمل ہے۔ یہاں سیکڑوں کی تعداد میں الیکٹرانکس اشیا کے سٹالز لگے ہوئے ہیں۔ ہر منزل مختلف اشیا کے لئے مختص ہے۔ یہاں پہلی منزل موبائل فونز جبکہ تیسری منزل کیمروں کے لئے مختص ہے۔ ہم نے یہاں جدید کیمرے دیکھے جن کی قیمت بیس ہزار سے شروع ہوکر بیس لاکھ روپیہ سے بھی زیادہ تک تھی۔ ہر سٹال کے سامنے مستعد لڑکے لڑکیا ں کھڑے گاہکوں کی رہنمائی کے لئے دست بستہ موجود تھے۔ ہم نے کچھ وقت یہاں گزارا اور ’’ایاکو‘‘کو استعمال شدہ کیمروں کی دوکان جانے کو کہا۔ ہم باہر نکلے اور ساتھ ہی دوسری عمارت کی چوتھی منزل پر گئے۔ یہ ایک بہت بڑی دوکان تھی جہاں سیکڑوں کی تعداد میں استعمال شدہ کیمرے، لنز اور دوسری اشیا الماریوں میں سلیقے سے رکھی گئی تھیں۔ ہر کیمرے اور لنز کے ساتھ قیمت اور ہدایات چسپاں تھیں۔ میں اور ’’دُک‘‘ دونوں یہاں دلچسپی لینے لگے۔ کیونکہ یہاں قیمتیں ہمارے برداشت کے قابل تھیں۔ میں نے اپنے موبائل فون سے بہت سارے کیمروں اور لنزوں کی تصویریں لیں اور واپس نیچے آکر یہاں کے پُرہجوم بازارو ں اور سڑکوں کا جائزہ لینے لگا۔ میں نے دیکھا کہ تقریباً ہر دوسری دوکان کے سامنے آدھے کپڑوں میں ملبوس لڑکیا ں لوگوں کو مختلف پراڈکٹ کے نمونے پیش کر رہی تھیں۔ بعض لڑکیاں ہاتھوں میں پمفلٹ لئے راہ گیروں کو دوکانوں کے اندر لے جانے کے لئے راغب کر رہی تھیں۔ یہ لڑکیاں کافی کم عمر دکھائی دیتی تھیں۔ ان میں زیادہ تر خوبصورت اور دلکش جسموں والی ہوتی تھیں۔ وہ بڑے معصوم انداز سے لوگوں کو راغب کرنے میں مصروف تھیں۔ (جاری ہے)
………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔