اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے تاریخ ساز جلسہ نے اس اجڑی اور مرجھائی ہوئی پارٹی میں ایک نئی جل ترنگ پیدا کردی۔ کامیاب جلسے نے پنجاب اور بالخصوص خطہ پوٹھوار میں پارٹی کے لیے امکانات کا ایک نیا باب کھولا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی راہنمائی نے پارٹی کے اندر ولولۂ تازہ پیدا کر دیا ہے۔ اسلام آباد پریڈ گراؤنڈ کے جلسے میں گرد و نواح ہی سے نہیں بلکہ خیبر پختون خوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی لوگ شریک ہوئے۔ بلاول بھٹو کی تقریر میں ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی جادوئی شخصیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہ کارکنوں کو ہی نہیں عام لوگوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو کی شخصیت اور گفتگو سے عاجزی اور اخلاص چھلکتا ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتاہے کہ ایک عرصے بعد پاکستان کے مطلعِ سیاست پر ایک طلسماتی شخصیت کے مالک نوجوان سیاست کا ظہور ہو رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ میں ایک خاص طرح کا تعصب اور بغض پایا جاتا تھا۔ نون لیگ اور خاص طور پر میاں محمد نواز شریف کے حالیہ اندازِ سیاست اور سلامتی سے متعلقہ اداروں کو چیلنج کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کو مقتدر حلقوں نے قومی سیاست میں ’’کم تر بُرائی‘‘ کے طور پر قبول کرلیا ہے۔ اس کے راستے میں کھڑی کی گئی مشکلات بتدریج کم ہورہی ہیں۔ مقدمات ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ پی پی پی کے خلاف قائم منفی پروپیگنڈہ کرنے والے دفاتر کو تالے لگ چکے ہیں۔ شدت پسند تنظیموں کی طرف سے بھی پی پی پی کے خلاف فتوے بازی کا سلسلہ رک چکاہے۔ طویل عرصہ بعد پارٹی کو سیاست کیلئے سازگار ماحول دستیاب ہوا۔
پیپلز پارٹی ایک قومی جماعت ہے۔ اس کی جڑیں عوام میں گہری اور مضبوط ہیں۔ اسے غیر سیاسی طریقوں سے ختم کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ پاکستان کو مضبوط، مؤثر اور ملک گیر سطح پر منظم سیاسی جماعتوں کی اشد ضرورت ہے جو شہریوں کو ایک دوسرے سے جوڑ ر سکیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پی پی پی کے علاوہ دوسری بڑی قومی جماعتیں نون لیگ اور تحریک انصاف ملک گیر سطح پر مقبولیت نہیں رکھتیں۔ تمام تر کمزوریوں اور نااہلیوں کے باوجود یہ پارٹی ایک قومی اثاثہ ہے۔ اقلیتوں، عورتوں اور ملک کے محروم طبقات کے دل اس پارٹی کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ موجودہ ماحول میں پی پی پی ایک متبادل بیانیہ پیش کرتی ہے جواکثر کرپشن اور نااہلی کے الزامات کی دبیز گردمیں کھو جاتا ہے۔
پارٹی کی پانچ دہائیوں پر مشتمل سیاسی جدوجہد بہت ہنگامہ خیز اور نشیب و فراز سے بھرپور ہے۔ مملکت پاکستان اور پیپلز پارٹی دونوں نے اس دوران میں بہت دکھ اٹھائے۔ گہرے زخم کھائے۔ پیپلز پارٹی کے قیام کے مابعد ملک دولخت ہوگیا۔ یہ علیحدگی جنگ و جدل کے بعد ہوئی۔ دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کو زبردست حزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ سقوطِ ڈھاکہ نے قوم کو مایوسی کے ایک سمندر میں غرق کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کرچی کرچی قوم جمع کی، اسے حوصلہ دیا۔ فوج کو اعتماد دیا۔ ایٹمی پروگرام شروع کیا۔ مزدوروں اور کسانوں کو عزت اور احترام کا مقام دیا۔ کامیاب خارجہ پالیسی کے ذریعے دنیا میں پاکستان کا ایک مقام بنایا۔ بتدریج پاکستان دوبارہ سر اٹھانے کے قابل ہوگیا، لیکن داخلی سیاست میں وہ اپنے آمرانہ طرزِحکومت کے باعث بری طرح ناکام ہوئے۔ نوکرشاہی ان کی آنکھ اورکان بن گئی۔ بھٹو اسی کی آنکھ سے سیاست کو دیکھتے۔ غلط مشاورت اور خوشامدی ٹولے نے بھٹو کو راولپنڈی جیل کی کال کوٹھڑی میں پہنچا کردم لیا۔ تازہ دم جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ امریکہ بہادر ان کی پشت پر کھڑا ہوگیا۔ کیمونسٹ سوویت یونین کی افغانستان کے خلاف جارحیت نے ضیاء الحق کو مغرب کی آنکھ کا تارہ بنادیا۔ انہوں نے پیپلزپارٹی اور جمہوریت پسندوں پر جم کر کوڑے برسائے۔ دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں کی سرپرستی کی۔ پیپلزپارٹی نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ایک مقبول اور ہردلعزیز لیڈر کے طور پر خیبر تا کراچی پاکستان کی زنجیر بن گئی۔ فضائی حادثے میں ضیاء الحق جاں بحق ہوئے۔ان کی تربیت یافتہ نوکرشاہی اور اسٹیبلشمنٹ کو عوامی پارٹی اور مقبول لیڈرشپ قبول نہ تھی، چناچہ مسلم لیگ اور شریف خاندان کے نام سے متبادل قیادت ابھاری گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بے لچک سیاستدان نہ تھیں۔ انہوں نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتا کرنے کے لیے ان کے نعرے اور نظریات بھی اپنائے۔ مقدمۂ کشمیر ڈٹ کر لڑا۔بھارت کے خلاف سخت گیرمؤقف اختیار کیا۔ میزائیل ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے خطرات مول لیے۔ طالبان کی حکومت تسلیم کی۔ ملاعمر کی حکومت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بھی تسلیم کرائی۔ اتنی مدارتوں کے باوجود پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں اجنبی ہی ٹھہری۔
پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں بھی پی پی پی نے بھرپور سیاسی جدوجہد کی۔ محترمہ بے نظیر نے مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ مشرف مذاکرات کے جال میں پھنس گئے۔ محترمہ پاکستان آگئی۔ ان کی آمد سے قومی سیاست کی جہت ہی بدل گئی۔ بی بی کی شہادت نے پارٹی کی ساری غلطیوں اورکوتاہیوں کو صاف کر دیا۔ یہ اتنی بڑی قربانی تھی کہ اس نے پورے ملک میں پارٹی کے لیے نرم گوشہ پیدا کیا۔ چاردانگ عالم میں ان کی شہادت پر ماتم کیا گیا۔کروڑوں پاکستانیوں نے انہیں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ رب العالمین کے سپردکیا۔ وہ شہید بی بی کہلائیں۔ آج بھی دوست دشمن جو بھی ان کا ذکر کرتاہے اس کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔ کٹر حریف بھی ان کی ایسی موت نہیں چاہتے تھے۔ وہ جواں عزم تھی اور ایک بدلی ہوئی لیڈر کے طور پاکستان کی قیادت کے لیے موزوں بھی تھی لیکن ظالموں نے انہیں موت کی گھاٹی میں اتاردیا۔ اللہ جانے اب بے نظیر بھٹو کے خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد؟ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے مابعد پی پی پی برسرِاقتدارآگئی۔ یہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کی مالا گلے میں ڈالنے کے مترادف عمل تھا۔ اس کے باوجود پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ نے ملک میں اختیارات اور طاقت کی تقسیم میں صوبوں کو شراکت دار بنا کر صوبائی عصبیت کا خاتمہ کیا۔ صوبہ سرحد کو خیبر پختون خوا کا نام دے کراسے قومی دھارے سے مزید مضبوطی سے جوڑا۔ اب سندھ میں علیحدگی پسندوں کا کوئی نام لیوا نہیں۔ صوبوں کے پاس مالیاتی وسائل کی کمی نہیں۔ کمی ہے، تو استعداد اور کارکردگی کی۔ صوبائی خودمختاری گلگت بلتستان کو بھی دی گئی اور قبائلی علاقہ جات کو بااختیار بنانے پر بھی بحث شروع کی گئی۔ بدقسمتی سے آصف علی زرداری سے آزادکشمیر کی سیاسی قیادت فائدہ نہ اٹھاسکی۔ آج بھی وہ اختیارات اور وسائل کے لیے کشکول گدائی اٹھائے اسلام آباد میں اقتدار کی راہداریوں میں گردش پر مجبور ہے۔ اسی کو کہتے ہیں:
’’لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی‘‘
پی پی پی کا سب سے کمزور پہلو اس کی حکومتوں کی ناقص کارکردگی رہا۔ وفاقی حکومت ہو یا سندھ، آزاد کشمیر ہو یا گلگت بلتستان، پارٹی کی صفوں میں مفاد پرستوں کا ایک ٹولا گھس آتا رہا جو لوٹ کھسوٹ سے پارٹی کا نام بدنام کر دیتا۔ یہ کام پارٹی کی مرکزی قیادت کو حصہ دار بنا کر یا پھر یہ تاثر قائم کرکے کیا جاتا۔ پارٹی لیڈر شپ یہ جانتی بھی تھی لیکن اس نے سدھار کی کوئی کوشش نہیں کی۔ چنانچہ معاشرے میں پی پی پی کا نام ہی لوٹ سیل کے مترادف بن گیا۔ سنجیدہ فکر لوگ اس کے ساتھ وابستہ ہونے سے کترانے لگے۔ پارٹی کا تاثر میڈیا نے بھی بہت خراب بنایا۔ میڈیا کے ساتھ دوستانہ روابطہ پیدا کرنے، پارٹی قیادت اور منشور کے بارے میں آگہی فراہم کرنے کیلئے پارٹی نے کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کی۔نتیجہ یہ نکلا کہ اب اس ملک کے دانشور طبقہ اور خاص کر صحافیوں کے ہاں پی پی پی کیلئے کم ہی نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔ حالاں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی طاقت ہی ملک کا دانشور اور اعتدال پسند طبقہ تھا۔
اب پارٹی کے ازسرنو ابھار کے لیے ضروری ہے کہ آصف زرداری اور فریال تالپور پس منظر میں چلے جائیں۔ پارٹی کی قیادت کے لیے بلاول بھٹو اور قمر زمان کائرہ، شیریں رحمان، چودھری لطیف اکبر اور مراد علی شاہ کی طرح کے لوگوں کو موقع دیا جائے۔ صاف ستھری اور متحرک ٹیم پارٹی میں نئی روح پھونک سکتی ہے۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔