پاک امریکہ تعلقات اور بدلتا دور

Blogger Tariq Hussain Butt

امریکہ کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس کا منتخب صدر پوری دنیا کے معاملات پر نظر رکھتا ہے۔ قومی مفادات کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی اقوام کے مفادات کو بھی بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ امریکی معاونت اور امداد سے ڈھیر ساری کم زور اقوام اپنے قدموں پر کھڑی ہوجاتی ہیں۔ چوہدری دستِ شفقت رکھے، تو سفرِ زندگی آسان ہوجاتا ہے۔
پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کو امریکی امداد نے اپنے مالی، معاشی اور صنعتی معاملات میں ترقی کی جانب محوِ سفر ہونے میں انتہائی ممد و معاون بنایا۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح کی دلی خواہش تھی کہ پاکستان امریکہ کا اتحادی بنے اور وزیرِ خارجہ سر ظفر اللہ نے جس طرح اس خواہش کو حقیقت کا جامہ پہنایا، قائدِ اعظم نے اس پر ان کی ستایش کی۔ بھارت روس دوستی کے معاہدے کے بعد پاکستان کے پاس امریکہ سے تعلقات استوار کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ چین اُس زمانے میں خود غلامی کا طوق پہنے ہوئے تھا۔ لہٰذا اس سے معاونت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ امریکہ اُس دور میں سپر پاؤر تھا۔ لہٰذا بھارت روس اتحاد کی سازشوں سے محفوظ رہنے کے لیے امریکہ کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا گیا تھا۔ جو کچھ دسمبر 1971 ء کو وقوع پذیر ہوا، اُسے روکنے ہی کے لیے امریکی کیمپ کا انتخاب کیا گیا، لیکن بدقسمتی سے بھارت روس اتحاد نے پاکستان کے حصے بخرے کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا۔ جس بات کا خدشہ تھا، وہی ہوکر رہا۔ روس کے توسیع پسندانہ عزائم سے بچنا ضروری تھا اور ایسا امریکی کیمپ میں جانے سے ممکن ہوسکتا تھا۔
بھارت کی جارحیت پسندی نے پاکستان کے خلاف جس طرح ستمبر 1965ء میں جنگی ماحول پیدا کیا، امریکہ کی معاونت نے پاکستان کو ایک منی سپر پاؤر کے سامنے کھڑا ہونے کے مواقع فراہم کیے اور پھر فوج اور قوم نے جس طرح جرات و بسالت کی تاریخ رقم کی، وہ دنیا بھر کے لیے حیران کن تھا۔
امریکی پشت پناہی نہ ہوتی، تو پاکستان کو انتہائی نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہ ملک جس کے پاس دفتر ی معاملات چلانے کے لیے کرسی اور میز تک دست یاب نہ تھا، وہ ستمبر 1965ء میں بھارت جیسی بڑی طاقت سے ٹکرا کر اسے شکست سے ہم کنار کرے گا، تو دنیا ششدر تو ہوگی۔ امریکہ اگر پاکستان کو اسلحہ اور فوجی سازو سامان مہیا نہ کرتا، تو پھر ہمارا جو حشر ہوتا، وہ کسی سے مخفی نہیں۔
دسمبر 1971ء میں روس اور بھارت کے گٹھ جوڑھ نے پاکستان کی علاقائی سالمیت کے خلاف جس طرح سازش کی، امریکی سرپرستی نے بھارتی عزائم کو قابو میں رکھنے کے لیے مثبت کردار ادا کیا۔ ’’کنگ آف ڈپلومیسی‘‘ ہنجری کسنجر کی شہرہ آفاق کتاب ’’ہنری کسنجر کی یادداشتیں‘‘ میں پاک امریکی تعلقات پر بڑی تفصیلی گفت گو کی ہے۔ چھٹا بحری بیڑا مشرقی پاکستان کے لیے نہیں، بل کہ مغربی پاکستان کو بھارتی تسلط میں جانے سے روکنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اس کتاب میں اس امریکی دھمکی کا بھی ذکر ہے، جو امریکی صدر نکسن نے بھارتی وزیرِ اعظم مسز اندرا گاندھی کو دی تھی کہ وہ مغربی پاکستان پر حملہ سے دور رہے، وگرنہ بھارتی سلامتی کی کوئی گارنٹی نہیں۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اندرا گاندھی کے سر پر مغربی پاکستان کو فتح کرنے کا بھوت سوار تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس وقت پاکستان انتہائی مایوسی اور کم زوری کی حالت میں ہے، لہٰذا اسے فتح کرنا بہت آسان ہے۔ امریکی دھمکی نے بھارت کو اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنچانے سے روکا۔ یہی پاک امریکی تعلقات کی بنیاد ہے اور جسے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ساؤتھ ایشیا میں پاکستان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور یہی نقطۂ امریکی پالیسی سازوں کی نظروں میں تھا۔ ایران کے بعد پاکستان ہی ان کے لیے ایک اہم ملک ہے جسے وہ کھونا نہیں چاہتے اورجس کا مظاہرہ افغانستان سے امریکی افواج کے محفوظ انخلا سے سمجھا جا سکتا ہے۔
روس کی افغانستان میں شکست اور اس کی علاقائی شکست و ریخت کے بعد دنیا نے ایک نئی صورت اختیار کی اور ’’نئے ورلڈ آرڈر‘‘ میں امریکہ سپر پاؤر بن کر ابھرا، تو امریکہ اور بھارت میں نئی دوستی کا آغاز ہوا، جس سے پاک امریکی تعلقات کو کافی زک پہنچی۔ کیوں کہ امریکہ اب بھارتی منڈی کی وجہ سے بھارت کو علاقے میں لیڈنگ کردار دینا چاہتا تھا۔ اسے چین سے بھی دھڑکا لگا رہتا ہے۔ لہٰذا چین کو حدود میں رکھنا بھی ضروری ہے اور وہ بھارتی معاونت کے بغیر ممکن نہیں۔اس وقت پاکستان دو کشتیوں میں سوار ہے۔ اسے بیک وقت امریکہ اور چین کے ساتھ چلنا ہے، جب کہ دونوں میں بعد المشرقین ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ پاکستان اس وقت تنے ہوئے رسے پر چل رہا ہے، جس کی وجہ سے سی پیک متاثر ہو رہا ہے اور پاکستان میں بڑے پراجیکٹ تعطل کا شکار ہوچکے ہیں۔ افغانستان کی وہ جنگ جو 1979ء میں روسی جارحیت کے خلاف تھی، اُس میں امریکہ اور پاکستان ایک صفحہ پر تھے۔ امریکی امداد نے جنرل ضیاء الحق جیسے سفاک حکم ران پر ڈالروں کی بارش کی۔ کیوں کہ دونوں کا مدعا روس کو زک پہنچانا تھا۔ روس ہمارے لیے خطرہ تھا، تو اس کا سوشل ازم امریکہ اور یورپ کے لیے بہت بڑا آسیب تھا، جس سے جان چھڑانی ضرور ی تھی اور وہ پاکستان کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
روس کے حصے بخرے ہوئے، تو امریکہ کو صبرو قرار نصیب ہوا۔ کیوں کہ روس کا زوال اس کی پالیسی کا نقطۂ ماسکہ تھا، جس نے امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاؤر بنا دیا۔ اس مسند تک پہنچنے کے لیے امریکی ڈالروں نے ہر جگہ اپنا کرشمہ دکھایا۔
مجاہدین کی جرات و جواں مردی کے ساتھ ساتھ امریکی اسلحہ، مالی امداد اور پاکستانی معاونت روسی پسپائی کے بنیادی عناصر ہیں۔ دنیا بھر کو اپنے ساتھ نتھی کرنے کے لیے امریکہ نے غیرملکی امداد کی بے تحاشا تقسیم کی، جس نے امریکہ کی معاشی اور مالی حیثیت کم زور کردی۔ اس بات کا احساس ڈولنڈ ٹرمپ کو ہے۔ لہٰذا وہ ایسی امداد سے ہاتھ کھینچ لینا چاہتے ہیں۔ ستمبر 2001ء میں نائن الیون وقوع پذیر ہوا، تو امریکہ اور پاکستان ایک دفعہ پھر ایک صفحہ پر تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی طرح جنرل پرویز مشرف کی سیاسی بقا بھی امریکی امداد سے نتھی تھی۔ جنرل کولن پاول کا فون تاریخی اہمیت کا حامل ہے، جس کے بعد جنرل پرویز مشرف کی حکومت امریکہ کے سامنے لیٹ گئی اور پاکستان کو افغانستان پر یو ٹرن لینا پڑگیا تھا اور دہشت گردی کی نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہو گئی تھی، جس سے پاکستان دہشت گردی کا مرکز بن گیا تھا۔ اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور جنرل پرویز مشرف کی قربتیں کوئی سر بستہ راز نہیں۔امریکی صدر کا مقصد افغانستان کے مسئلہ پر پاکستان کی حمایت تھا، جو انھیں مہیا کی گئی۔ اس حمایت کے بدلے جس طرح پاکستان پر ڈالروں کی بارش کی گئی، وہ سب کے سامنے ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت ایک فوجی حکومت میں ہوئی، جب کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت بھی فوجی حکومت کے دور میں وقوع پذیر ہوئی، لیکن امریکہ لب بہ مہر رہا۔
اور تو اور امریکہ نے تو انسانی حقوق کی پامالی پر بھی اپنی آنکھیں بند رکھیں، جسے پاکستانی عوام نے انتہائی حقارت کی نظر سے دیکھا۔ میاں محمد نواز شریف کو اگر امریکی مداخلت پر دس سالہ معاہدے کے بعد سعودی عرب جَلا وطن کیا جاسکتا تھا، تو قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جھوٹے مقدمے کی بنیاد پر دی گئی سزا کو بھی معطل کیا جا سکتا تھا، لیکن ایسا نہ کیا گیا، جس نے پاک امریکی تعلقات کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے