سرکاری ملازمین کا استحصال کیوں؟

Blogger Hilal Danish

پاکستان میں سرکاری ملازمین کی زندگی پہلے ہی مہنگائی، کم تنخواہوں اور غیر یقینی معاشی حالات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے، لیکن اب حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں نے ان کے لیے مزید پریشانیوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔ پنشن میں کٹوتی اور سروس کے دوران میں انتقال پر سرکاری ملازمت کی سہولت کا خاتمہ ان ظالمانہ اقدامات میں سرِفہرست ہیں۔
٭ احتجاج کی وجہ، پنشن میں غیر منصفانہ کٹوتی:۔ پاکستان بھر کے سرکاری ملازمین اس وقت سراپا احتجاج ہیں۔ ’’آگیگا‘‘ (All Government Employees Grand Alliance) کے زیرِ اہتمام، پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ہزاروں سرکاری ملازمین اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ اس مظاہرے کی بنیادی وجہ خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت کی طرف سے پنشن میں کی جانے والی بھاری کٹوتیاں ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت پہلے ہی سرکاری ملازمین کی پنشن میں 30 فی صد کٹوتی کا نوٹیفکیشن جاری کرچکی ہے۔ اب وفاقی حکومت نے مزید 30 فی صد کمی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے سرکاری ملازمین کو اپنی جائز پنشن کا صرف 40 فی صد ہی ملے گا، جب کہ 60 فی صد حکومت ضبط کرلے گی۔ یہ فیصلہ نہ صرف غیر منصفانہ ہے، بل کہ لاکھوں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین اور ان کے خاندانوں کو فاقہ کشی پر مجبور کرنے کے مترادف ہے۔
٭ ریٹائرمنٹ کے بعد کا غیر یقینی مستقبل:۔ سرکاری ملازمین اپنی پوری زندگی ملک کی خدمت میں گزارتے ہیں، لیکن جب وہ ریٹائر ہوتے ہیں، تو ان کے بڑھاپے کا واحد سہارا پنشن ہوتی ہے۔ پہلے ہی افراطِ زر اور مہنگائی کی بلند ترین شرح نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ اب حکومت پنشن میں بھاری کٹوتیاں کر کے انھیں مزید مشکلات میں دھکیل رہی ہے۔
اس فیصلے کے نتیجے میں لاکھوں سبک دوش ملازمین، خاص طور پر وہ جو صرف اپنی پنشن پر گزارا کرتے ہیں، شدید مالی بحران کا شکار ہوجائیں گے۔ ان میں سے کئی افراد ایسے ہیں، جو مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں، جنھیں اپنی دوائیوں اور علاج کے لیے ہر ماہ معقول رقم درکار ہوتی ہے۔ حکومت کے اس اقدام سے نہ صرف ان کی صحت متاثر ہوگی، بل کہ ان کے اہلِ خانہ کی روزمرہ زندگی بھی اجیرن ہو جائے گی۔
٭ دورانِ سروس انتقال پر ملازمت کی سہولت کا خاتمہ:۔ پنشن میں کٹوتی کے ساتھ ساتھ حکومت نے ایک اور ظالمانہ فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت اگر کوئی سرکاری ملازم سروس کے دوران میں انتقال کر جائے، تو اس کے خاندان کے کسی فرد کو سرکاری ملازمت نہیں دی جائے گی۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی بنیاد پر کیا گیا ہے، لیکن اس کے معاشرتی اور معاشی اثرات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
یہ سہولت اُن خاندانوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی، جن کے واحد کفیل کا انتقال ہوجاتا تھا۔ اس پالیسی کے ختم ہونے سے ہزاروں خاندان بے آسرا ہو جائیں گے اور انھیں معاشی بدحالی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے فیصلے کرتے وقت ان کے ممکنہ اثرات پر غور کرے اور کم از کم کسی مناسب متبادل پالیسی کا اعلان کرے، تاکہ یتیم بچوں اور بیواؤں کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔
٭ حکومت کی غیر سنجیدگی اور سرکاری ملازمین کا ردِ عمل:۔ سرکاری ملازمین کا احتجاج محض ایک وقتی ردِعمل نہیں، بل کہ مسلسل ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف مزاحمت ہے۔ اگر حکومت نے اپنا رویہ نہ بدلا، تو یہ مظاہرہ دھرنے میں تبدیل ہو سکتا ہے اور کئی دنوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ ایسے حالات میں سرکاری دفاتر کی کارکردگی بھی متاثر ہوگی اور عوامی امور میں تاخیر بھی پیدا ہوگی، جس کا نقصان بالآخر عوام ہی کو ہوگا۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ سرکاری ملازمین کے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرے اور ان کی جائز شکایات کا اِزالہ کرے۔ پنشن میں کٹوتی جیسے فیصلے نہ صرف غیر منصفانہ ہیں، بل کہ یہ سرکاری ملازمین کو مزید پریشانیوں میں دھکیل رہے ہیں۔
٭ کیا حکومت سرکاری ملازمین کے مسائل کو سمجھے گی؟:۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں سرکاری ملازمین کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ہے۔ حکومتوں نے ہمیشہ اپنی پالیسیوں میں ان کے حقوق کو پسِ پشت ڈالا ہے، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ سرکاری ملازمین اپنی طاقت کا احساس دلائیں اور اپنے حقوق کے لیے منظم جد و جہد کریں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر پنشن میں کٹوتی کے فیصلے کو واپس لے ، اور سروس کے دوران میں انتقال پر ملازمت کی سہولت بہ حال کرے، تاکہ ہزاروں خاندان مزید معاشی بدحالی کا شکار نہ ہوں۔ اگر حکومت نے اپنے فیصلوں پر نظرِثانی نہ کی، تو ملک بھر کے سرکاری ملازمین مزید شدید احتجاج پر مجبور ہو سکتے ہیں، جو حکومتی معاملات کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
٭ سرکاری ملازمین کا استحصال بند کرو!:۔ یہ وقت حکومت کے لیے سنجیدہ فیصلے کرنے کا ہے۔ معاشی بحران کے حل کے لیے سرکاری ملازمین کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں۔ پنشن کسی بھی سبک دوش سرکاری ملازم کا بنیادی حق ہے اور اس میں کٹوتی کا مطلب ان کی زندگی کو مزید مشکلات میں دھکیلنا ہے۔
اگر حکومت واقعی عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ سرکاری ملازمین کی مشکلات کا ادراک کرے اور فوری طور پر اپنے فیصلوں پر نظرِ ثانی کرے۔ بہ صورتِ دیگر، احتجاج کی شدت میں اضافہ ہوگا، جو حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
٭ احتجاج 20 فروری تک ملتوی، حکومت کا ردِ عمل:۔ پہلے سے طے شدہ احتجاج اب 20 فروری تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس مسئلے کے حل کے لیے ایک اعلا سطحی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ ’’آگیگا‘‘ نے واضح کر دیا ہے کہ اگر 20 فروری تک حکومت نے اپنا فیصلہ واپس نہ لیا، تو وہ اپنے احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
حکومت ہوش کے ناخن لے اور سرکاری ملازمین کا معاشی قتل بند کرے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے