(قارئینِ کرام! زیرِ نظر تحریر در اصل پشتو زبان میں شائع ہونے والے ماہ نامہ ’’لیکوال‘‘، دسمبر، جنوری 2023ء/ 2024ء میں ڈاکٹر سلطانِ روم کے مضمون ’’افغان، پٹھان اور پختون‘‘ کا اُردو ترجمہ ہے، کامریڈ امجد علی سحابؔ)
افغان، پٹھان اور پختون نام ایک مخصوص گروہ یا لوگوں کے لیے بولے اور استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان ناموں میں ’’افغان‘‘ سلطنتِ دہلی یا سلاطینِ دہلی کے دور کی لکھی گئی اور تاریخی کتب میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ باقی ماندہ دو نام (پٹھان اور پختون) اگر زیادہ پرانے دور سے نہ ہوں، تو کم از کم 17ویں صدی عیسوی سے بلا شک و شبہ استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ بعض لکھاریوں، محققین اوردانش وروں نے اس گتھی کو اتنا الجھایا ہے کہ اب اسے سلجھانا بہت مشکل اور مغز ماری کا کام ہے۔اب تو اِس میں ’’افغان پختون‘‘ اور ’’پختون افغان‘‘ کے نام کا اضافہ بھی سامنے آیا ہے،اور انھیں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
افغان، پٹھان اور پختون حسب نسب کے لحاظ سے کون ہیں؟ یہ گتھی بھی ایسی الجھائی گئی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ سلجھنے کے بہ جائے مزید الجھتی چلی جا رہی ہے اور اس کا سلجھانا مزید مشکل ہوتا جارہا ہے۔ زیرِ نظر سطور میں اس دوسرے نکتے یعنی افغان، پٹھان اور پختون کے حسب نسب کے حوالے سے بات نہیں کی جاتی، اس لیے کہ یہ ایک الگ اور وسیع موضوع ہے(خواہش مند حضرات، اس ضمن میں تین مشہور نظریات کی تفصیل کے لیے مصنف کی انگریزی کتاب ’’دی نارتھ ویسٹ فرنٹئیر (خیبر پختونخوا): ایسیز آن ہسٹری‘‘ کی سیکنڈ ریوائزڈ ایڈیشن، 2022ء کا باب 2 ملاحظہ کرسکتے ہیں)، لیکن یہاں افغان، پٹھان اور پختون کے ناموں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ افغان، پٹھان اور پختون کے ناموں پر روشنی ڈالنے کی اِس کوشش اور بحث سے پہلے اِس امر کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ ان ذکر شدہ ناموں سے یاد ہونے والا یہ گروہ یا لوگ موجودہ افغانستان کے علاوہ موجودہ پاکستان کے خیبر پختونخوا، بلوچستان، سندھ اور پنجاب صوبوں اور کشمیر میں بستے ہیں۔ علاوہ ازیں ،یہ ایک بڑی تعداد میں موجودہ ہندوستان اور دنیا کے ڈھیر سارے ملکوں میں بھی بستے ہیں۔
بات 17ویں صدی عیسوی سے شروع کرتے ہیں۔ اُس دور میں خواجہ نعمت اللہ ہروی نے ہندوستان میں پختونوں کی تاریخ کے حوالے سے خان جہان لودی کے کہنے یا خواہش پر ایک کتاب لکھی، جو 1612ء تا 1613ء کے دوران میں لکھی گئی۔ (اِس مضمون کے اصل پشتو میں یہ سال کسی دوسری ماخذ سے 1609ء تا 1612ء دیے گئے ہیں، لیکن نعمت اللہ ہروی کی اِس کتاب کے اردو ترجمہ کے مطابق یہ 1612ء تا 1613ء ہیں۔) مذکورہ کتاب ’’مخزنِ افغانی‘‘ اور ’’تاریخِ خان جہانی‘‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ اِس کتاب میں اُس نے پختونوں کی اصل نسل پر بھی بحث کی ہے اور ’’افغان‘‘ اور ’’پھتان‘‘ (پٹھان) کی وجۂ تسمیہ بھی بتائی ہے۔
اس حوالے سے نعمت اللہ ہروی کی تحریر کا نچوڑ مختصر الفاظ میں کچھ یوں ہے کہ طالوت کی موت کے بعد پیدا ہونے والے دو بیٹوں ’’برخیا‘‘ اور ’’ارمیا‘‘ کے ہاں ایک ایک بیٹے کی ولادت ہوئی۔ برخیا کے بیٹے کا نام ’’آصف‘‘ رکھا گیا جب کہ ارمیا کے بیٹے کا ’’افغنہ‘‘ (افغانا)۔ نعمت اللہ ہروی کے مطابق آصف کے ہاں 18 بیٹوں نے جنم لیا، جب کہ افغنہ کے ہاں 40 بیٹے پیدا ہوئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ دونوں کی اولاد بڑھتی چلی گئی۔ یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہونے کی وجہ سے انھیں بنی اسرائیل بھی کہا جاتاتھا۔ ان میں افغنہ کی اولاد تعداد کے لحاظ سے زیادہ تھی، اس لیے افغنہ (افغانا) کی وجہ سے ان سب کو ’’بنی افغان‘‘ بھی پکارا جاتاتھا۔ (اسی طرح یہ بعد میں افغنہ یا افغانا کے نام کی وجہ سے افغان مشہور ہوئے۔) انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتحِ مکہ میں شامل ہونے اور اسلام کے لیے خدمات ادا کرنے کے سبب ’’پتھان‘‘ خطاب دیا۔
نعمت اللہ ہروی کہتا ہے کہ دراصل یہ لفظ ’’بتان‘‘ ہے، لیکن زیادہ استعمال کی وجہ سے یہ ’’پتھان‘‘ مشہور ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ پتھان اس شہ تیر یا لکڑی کو کہتے ہیں جس پر سمندری جہاز اور کشتی کا ڈھانچا استوار ہوتا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ان پختونوں یا افغانوں کی مثال دینِ اسلام کے لیے ’’پتھان‘‘ کے اُس شہ تیر یا لکڑی جیسی ہوگی اور اس لیے یہ پتھان کے لقب یا نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، خواجہ نعمت اللہ ہروی، تاریخِ خان جہانی و مخزنِ افغانی، اُردو ترجمہ ڈاکٹر محمد بشیر حسین، مرکزی اُردو بورڈ، لاہور، 1978ء، صفحات 63 تا 120۔)
نعمت اللہ ہروی کی ان باتوں پر بعض پشتون لکھاریوں، محققین اور دانش وروں نے انگلی اٹھائی ہے اور جتنا ہوسکتا تھا کوشش کی ہے کہ افغان، پتھان یا پٹھان کے متعلق اِن باتوں کو رد کریں۔ مثال کے طور پر سید بہادر شاہ ظفر کاکا خیل نے لکھا ہے: (ذیل میں تحریر کا اُردو ترجمہ ملاحظہ ہو، مترجم)
’’الغرض جب پشتون کی قومی خصوصیات اور نسلی افتخار کے جذبے کی روشنی میں اس نظریے پر غور کیا جائے، تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ہر کڑی پختون کے حالات کے مطابق اور بڑے غورو فکر کے ساتھ وضع ہوئی ہے۔ لیکن اسے وضع کرنے والے وہ لوگ تھے جو یا تو ہند میں پیدا ہوئے اور وہاں پلے بڑے تھے، یا پھر اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ وہاں گزارا تھا۔ پشتونوں کے اصل مرکز اور وطن کے ساتھ اِن کا کوئی تعلق اورربط باقی نہیں رہا تھا۔یہ ویسے قوم یا نسلی طور پر تو پشتون تھے، مگر پشتونوں کی زندگی، خصلت اور پشتو زبان سے بالکل ناواقف تھے۔ پشتون قوم کو وہ پختون (پشتون) کے نام سے نہیں جانتے تھے اور نہ وہ ’پختون‘ کو اِس قوم کا اصل نام سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں ’پختون‘ پہلے ’افغان‘ تھا، اس لیے کہ اُس دور کے مؤرخین نے اس قوم کو افغان کے نام سے یاد کیا تھا اور بعد میں پٹھان کے نام سے۔ یہ اس لیے کہ پختون ہند میں پٹھان کے نام سے مشہور تھے۔ عرب مؤرخین نے بھی اس قوم کو افغان کے نام سے یاد کیا تھا۔ اس طرح ایرانی بھی انھیں افغان کہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اِن کے خیال میں اِس قوم کا اصل نام افغان تھا۔ پختون (پشتون) ان کے خیال میں ضمنی حیثیت کا حامل نام تھا، سو اس لیے بنی اسرائیل کے ساتھ نسلی اشتراک قائم کرنے کے بعد اِن کو پرانی تاریخ میں ایک ایسی بنیاد اور ریشے کی ضرورت تھی، جس کے ساتھ افغان کا رشتہ جوڑا جائے۔ اس لیے اس نظریہ میں ساؤل کے خاندان میں ’ارمیا‘ اور ’افغنا‘ کا افسانہ وضع کرنا بھی اس غرض سے تھا۔ اگر یہ لکھاری پشتونوں کو پختون (پشتون) کے نام سے جانتے اور پشتونوں کی تاریخ لکھ دیتے، تو ممکن تھا کہ یہ نظریہ ایسا نہ ہوتا۔‘‘ (سید بہادر شاہ ظفر کاکا خیل، پختانہ د تاریخ پہ رنڑا کے، یونیورسٹی بک ایجنسی، پشاور، سنہ اشاعت درج نہیں، صفحہ 50۔)
لیکن دوسری طرف بہادر شاہ ظفر کاکا خیل صاحب نے اپنی درجِ بالا کتاب ’’پختانہ د تاریخ پہ رنڑا کے‘‘ کے صفحہ 48 پر یہ لکھا ہے کہ ’’اس وجہ سے خان جہان لودی نے اپنے اُمرا جیسے قطب خان، سرمست خان ابدالی، ہمزہ خان توخی، عمر خان کاکڑ اور ظریف خان یوسف زے افغانستان بھیجے، اور یہ یقین مستحکم کی کہ افغان بنی اسرائیل ہیں اور ان کا سلسلۂ نسب یہودا…… ابنِ یعقوب سے آگے سام ابنِ نوح، جو یافث کے بڑے بھائی ہیں، تک جا پہنچتا ہے اور یہی یافث مغل قوم کے مورثِ اعلا ہیں۔ اگر چہ یہ تحقیقات کا حتمی نتیجہ تھا، لیکن غالب قوم (یعنی مغل) سے کب یہ بات ہضم ہوتی تھی کہ ان کا مغلوب حریف نسب کے لحاظ سے ان سے برتر ہو۔ اسی بنا پر اس تحقیق پر خودستائی کا الزام لگا دیا، جو اَب تک پتھر کی لکیر ہے۔‘‘
اس کے بعد فوراً دوسرے ہی پیراگراف میں ظفر کاکاخیل صاحب لکھتے ہیں کہ ’’جیسا کہ درجِ بالا اقتباس سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ خان جہان لودی نے پشتونوں کی نسل کو معلوم کرنے کی غرض سے اپنے اُمرا کا ایک وفد افغانستان بھیجا اور وفد کی تحقیق کے نتیجے میں یہ معلوم ہوگیا کہ پشتون بنی اسرائیل ہیں۔‘‘ (پختانہ د تاریخ پہ رنڑا کے، صفحات48، 49۔)
اسی طرح بہادر شاہ ظفر کاکاخیل صاحب یہ مانتے ہیں کہ یہ نظریہ ہند میں تو لکھا گیا ہے، لیکن گڑا وہاں نہیں گیا ہے۔ یہ ایک ایسی تحقیق کا نتیجہ ہے جس کے لیے ایک وفد افغانستان بھیجا گیا تھا اور یہ افغانستان میں کی گئی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ ظفر کاکاخیل صاحب کی یہ باتیں اُن کی کتاب سے درجِ بالا اقتباس میں اِن باتوں کی رد کرتی ہیں کہ:
’’ لیکن اسے وضع کرنے والے وہ لوگ تھے جو یا تو ہند میں پیدا ہوئے اور وہاں پلے بڑے تھے، یا پھر اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ وہاں گزارا تھا۔ پختو نوں کے اصل مرکز اور وطن کے ساتھ اِن کا کوئی تعلق اورربط باقی نہیں رہا تھا۔یہ ویسے قوم یا نسلی طور پر تو پشتون تھے، مگر پشتونوں کی زندگی، خصلت اور پشتو زبان سے بالکل ناواقف تھے۔ پشتون قوم کو یہ پختون (پشتون) کے نام سے نہیں جانتے تھے اور نہ وہ ’پختون‘ کو اِس قوم کا اصل نام سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں ’پختون‘ پہلے ’افغان‘ تھا، اس لیے کہ اُس دور کے مؤرخین نے اس قوم کو افغان کے نام سے یاد کیا تھا اور بعد میں پٹھان کے نام سے۔ یہ اس لیے کہ پختون (پشتون) ہند میں پٹھان کے نام سے مشہور تھے۔‘‘
بہادر شاہ ظفر کاکاخیل صاحب کی ذکر شدہ کتاب کے صفحہ50 پر درجِ بالا رقم شدہ باتیں اُن کی اِن ذکر شدہ باتوں کی رد اس لیے کرتی ہیں کہ افغانستان کے پشتون نہ تو ہند میں پیدا ہوئے تھے اور اپنی عمر کا بیش تر حصہ وہاں گزارا تھا اور نہ پشتونوں کی بود و باش اور زندگی کے ڈھنگ سے بالکل ناآشنا تھے۔ اُن کا پشتونوں کے اصل مرکز اور وطن سے تعلق اور ربط بھی نہیں ٹوٹا تھا۔ اس لیے کہ وہ پشتونوں کے اُس اصل مرکز اور وطن افغانستان میں اُس وقت بھی رہایش پذیر تھے۔
اس حوالے سے سعد اللہ جان برق صاحب، پریشان خٹک اور دیگر افراد نے بھی لکھا ہے، لیکن ان سب افراد کی وہ باتیں رقم کرنا ،ان کا پورہ جائزہ لیناا ور کھرا کھوٹا معلوم کرنا یہاں ممکن نہیں۔ اس وجہ سے یہاں اتنا کہنا کافی ہوگا کہ ان کی تحاریر اور دلائل کا اصل نکتہ بھی وہی ہے ، جو بہادر شاہ ظفر کاکا خیل صاحب کا ہے۔
یہاں اب بہادر شاہ ظفر کاکا خیل اور ان دوسرے پشتون لکھاریوں کے ذکر شدہ الزامات، باتوں اور دلائل کا تنقیدی جائزہ ایسے لکھاریوں کی تحاریر کی روشنی میں کریں گے، جن کا تعلق 17ویں صدی عیسوی سے ہے اور نہ صرف یہاں پختونخوا میں پیدا ہوئے ہیں، بل کہ پلے بڑھے بھی ہیں۔ ان کی زبان بھی پختو تھی اور پشتون بود و باش اور طور اطوار سے ناآشنا بھی نہ تھے۔ یہ افراد اخون درویزہ، اس کا بیٹا میاں کریم داد اور خوشحال خان خٹک ہیں۔
ان میں اخون درویزہ نے فارسی کے ساتھ ساتھ پشتو میں بھی لکھاہے ۔ اخون درویزہ کی فارسی زبان میں لکھی گئی مشہور کتاب ’’تذکرۃ الابرار و الاشرار‘‘ 1021 ہجری یا 1612ء میں مکمل ہوئی ہے۔ اس طرح یہ کتاب نعمت اللہ ہروی کی کتاب ’’تاریخِ خان جہانی‘‘ یا ’’مخزنِ افغانی‘‘ کی ہم عصر کتاب ہے۔ اس کتاب (تذکرۃ الابرار و الاشرار) میں پشتونوں کی اصل نسل کی بحث میں اخون درویزہ نے بھی طالوت کی اولاد میں ’’آصف‘‘ اور ’’افغان‘‘ کا ذکر کیا ہے اور پشتونوں کو افغانوں یعنی ’’افغانان‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو اخون درویزہ کی اس کتاب کا نسخہ جسے اسلامی کتب خانہ پشاور نے شائع کیا ہے، جس پر سنہ اشاعت درج نہیں۔) اگرچہ پشتونوں کی اصل نسل کے سلسلے میں نعمت اللہ ہروی اور اخون درویزہ کی تحاریر کی تفصیل میں اختلاف ہے، لیکن ان کا بنیادی نکتہ یا نچوڑ ایک ہی ہے۔
’’تذکرۃ الابرار و الاشرار‘‘ میں اخون درویزہ نے پشتونوں کے لیے افغانوں (افغانان) کا نام اور لفظ استعمال کیا ہے، لیکن اپنی ایک اور کتاب ’’مخزن‘‘ یا ’’مخزنِ اسلام‘‘ میں ’’افغان‘‘ اور ’’افغانان‘‘، ’’پختون‘‘، ’’پختونو‘‘ اور ’’پختانو‘‘ نام بھی انھی لوگوں کے لیے استعمال کیے ہیں۔ ان کے وطن کے لیے ’’پختونخا‘‘ (پختونخوا) کا نام استعمال کیا ہے اور ان کی زبان کے لیے جا بہ جا ’’افغانی‘‘ اور ’’پختو‘‘ دونوں نام استعمال کیے ہیں۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ اخون درویزہ نے ایک بار ’’افغانستان‘‘ کا نام بھی لکھا اور استعمال کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو اخون درویزہ، مخزن، پختو اکیڈمی، پشاور یونیورسٹی، دوسری اشاعت، 1987ء، صفحات 1، 2، 31، 32، 42، 43، 54، 58، 61، 62، 65، 75، 92، 96، 98، 102، 106، 108، 109، 119 تا 130، 132، 133، 135 تا 137۔) اخون درویزہ کی یہ کتاب پشتو کی نثر کی کتابوں میں اَب تک دوسری معلوم کتاب ہے۔ (پہلی کتاب بایزید انصاری کی ’’خیر البیان‘‘ مانی جاتی ہے۔)
اخوند درویزہ کی اس کتاب ’’مخزن‘‘کا اُس وقت کے حساب سے اہمیت کا اندازہ خوشحال خان خٹک کے کلیات میں اُس کے اِن اشعار سے لگتا ہے:
دوہ کارہ دی پہ سوات کی کہ خفی دی کہ جلی
مخزن د درویزہ دے یا دفتر د شیخ ملی
یعنی دو کام سوات میں قابلِ ستایش مانے جاتے ہیں۔ایک مخزن از اخون درویزہ اور دوسرا دفتر از شیخ ملی ہے۔
دوسرا شعر یہ کہ
مخزن د درویزہ د میاں نور شیخی پیری
الثالث بالخیر د حمزہ خانی میری
دا درے توکہ ڈیر قدر ڈیر عزت لری پہ سوات کی
و خدائے وتہ خکارہ دی وئیل نشی پہ زیری
یعنی اخون درویزہ کی مخزن، میاں نور کی شیخی و پیری اور حمزہ کی خانی و سرداری۔ یہ تینوں سوات میں بہت عزت و احترام رکھتے ہیں۔ یہ میں کسی عداوت کی وجہ سے نہیں کہتا، بل کہ خدائے تعالیٰ کو معلوم ہے کہ یہ حقیقت ہے۔
اخون درویزہ کے صاحب زادے میاں کریم داد نے بھی اس کتاب ’’مخزن‘‘ میں اپنی تحریر میں ’’پختو‘‘ اور ’’پختانہ‘‘ کے علاوہ پشتو زبان کے لیے ’’افغانی‘‘ نام بھی استعمال کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو اخون درویزہ، مخزن، ’’ملحقاتِ کریم داد‘‘، صفحات 140، 142، 145، 156، 183، 192، 195، 210۔)
یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ ’’پختون‘‘ یا ’’افغان‘‘ سرزمین کے لیے ’’پختونخوا‘‘ نام کا عام استعمال بعد کے دور یا موجودہ دور کی بات ہے، لیکن جیسا کہ سطورِ بالا میں ذکر کیا گیا ہے ’’پختونخوا‘‘ سب سے پہلے اخون درویزہ نے اپنی کتاب ’’مخزن‘‘ میں 17ویں صدی عیسوی میں استعمال کیا ہے۔ اُس کے بعد یہی نام خوشحال خان خٹک نے 17ویں صدی عیسوی میں اور اُس کے بعد احمد شاہ ابدالی نے 18ویں صدی عیسوی میں استعمال کیا ہے۔
علی محمد مخلص کی کتاب ’’حالنامہ د بایزید روخان‘‘ میں تو پشتونوں کے لیے زیادہ تر ’’افغانان‘‘ لفظ استعمال کیا گیا ہے، لیکن ’’پختانہ‘‘ لفظ بھی استعمال میں لایا گیا ہے۔ (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو، علی محمد مخلص، حالنامہ د بایزید روخان، سیڑنہ او پختو کوونکے ڈاکٹر عبد القدوس عاصمؔ، پختو اکیڈمی، پشاور یونیورسٹی، 2019ء، صفحہ 569۔)
پشتونوں کے لیے ’’پختون‘‘ کے علاوہ ’’افغان‘‘ اور ’’پٹھان‘‘ ناموں کے استعمال کا اہم ثبوت خوشحال خان خٹک کی تحاریر ہے۔ اس لیے کہ نعمت اللہ ہروی، اخون درویزہ اور میاں کریم داد پر بعض حلقوں اور لوگوں کی طرف سے جو اعتراضات ہوتے ہیں، اس کے برخلاف عام طور پر خوشحال خان خٹک کو مغلوں کا بڑا دشمن اور پشتونوں کے مفادات اور پشتو زبان کا ایک بڑا سپہ سالار اور ہیرو مانا جاتا ہے۔
اپنی کتاب ’’دستار نامہ‘‘ میں پشتونوں کے حسب نسب کے حوالے سے بحث میں خوشحال خان خٹک تحریر کرتے ہیں کہ: ’’ان کا نسب پیغمبر دانیالؑ سے منسوب ہے۔ انھوں نے بنی امیہ کے عہدِ خلافت میں اسلام قبول کیا۔ حضرت دانیال، ملک طالوت کی نسل سے ہے۔ملک طالوت پیغمبر ابراہیم (علیہ السلام) کے بھائی کی اولاد میں سے ہے۔ پشتونوں میں شجاعت، دلاوری اُس شیرنی (جو خوشحال خان خٹک کے مطابق پیغمبر دانیال کو کم سنی میں ماں سے گم ہونے کی وجہ سے اپنے غار میں لے گئی تھی اور وہاں اُسے اپنا دودھ دیا اور اُسے پالا پوسا) کے دودھ کا اثر ہے۔ ملک کا خطاب ملک طالوت کی نسبت سے ہے۔ عرب جب خراسان آئے، اِن(یعنی پشتونوں) کے نسب کے حوالے سے آگاہ تھے۔ جب (یہ پشتون) مشرف بہ اسلام ہوئے،تو اُنھوں نے اِنھیں کہا کہ آپ ملک طالوت کی اولاد ہیں۔ اسلام میں آپ کا خطاب بھی ملک ہے۔ پٹھان کا خطاب آلِ سبکتگین، جو شاہانِ غزنی تھے، اُنھوں نے دیا ہے۔ سلطان محمود جو جنگِ سومنات کے لیے گجرات آیا تھا۔ پشتونوں نے بہادری کے جوہر دکھائے۔ سلطان نے اِنھیں کہا کہ یہ میری لشکر کے پٹان ہیں۔ پٹان ایک لکڑی (شہ تیر) ہے، جس پر سمندری جہاز بنایا یا استوار کیا جاتا ہے۔ افغان کا خطاب پیغمبر سلیمان ؑ کے دور میں ملک طالوت کے بیٹے ارخیا کو ملا تھا۔ اف عبرانی زبان میں پکڑنے کو کہا جاتا ہے۔ غان ایک دیو کا نام تھا جسے ارخیا نے پکڑا تھا لہٰذا افغان کے معنی ہیں دیو کو پکڑنے والا۔(دیکھیں خوشحال خان خٹک، دستار نامہ، پختو اکیڈمی، پشاور یونیورسٹی، 1991ء، صفحات 155تا 157۔)اس طرح خوشحال خان خٹک نے بھی پشتونوں کے لیے ’’افغان‘‘ اور ’’پٹان‘‘ (جس سے پٹھان بنایا گیا ہے) کے ناموں اور القابات کا رد نہیں، بل کہ توثیق کی ہے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ پشتون لکھاریوں، دانش وروں اور محققین نے پشتونوں کی اصل نسل کے سلسلے میں خوشحال خان خٹک کی کتاب ’’دستار نامہ‘‘ اور اس میں ’’پٹان‘‘(پٹھان) اور ’’افغان‘‘ کے ناموں یا القابات کے اِس ذکر پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور آنکھیں موندلی ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کاکاخیل نے اپنی اُردو میں لکھی گئی کتاب ’’پشتون اپنی نسل کے آئینے میں‘‘ (یونیورسٹی بک ایجنسی، پشاور، 1994ء، صفحہ 9) اور پریشان خٹک نے اپنی کتاب ’’پشتون کون؟:( تاریخ، تحقیق، تنقید)‘‘، پختو اکیڈمی، پشاور یونیورسٹی، دوسری اشاعت، 2005ء، صفحہ 111 نوٹ 1) میں اِس طرف خفیف سا اشارہ کیا ہے، لیکن نعمت اللہ ہروی اور اس نقطۂ نظر کے دیگر لکھاریوں کی تحاریر اور دلائل پر جس طرح اعتراض کیا ہے، اُس طرح کا اعتراض اس پر نہیں کیا ہے۔
خوشحال خان خٹک کی شاعری میں بھی ’’پختون‘‘ اور ’’پختنو‘‘(پشتونوں) کے ساتھ ساتھ ’’افغان‘‘ نام بار بار استعمال ہوا ہے۔ نمونے کے طور پر ان کے کلیات سے ذیل میں دیے گئے اشعار پیش کرنا کافی ہوگا:
چی پہ خپلہ افغانئی ژبہ نادان دے
پہ ترکی خبرے سہ وائے افغان تہ
یعنی جب افغان اپنی افغانی زبان ہی سے نابلد ہے تو اُس کے ساتھ ترکی میں باتیں کرنے کا کیا فائدہ……!
کہ پہ نور خلقو کی خہ سڑے موندل شی
ولی خہ سڑی بہ لگ وی افغانان
یعنی دوسری اقوام میں اچھے لوگ مل جایا کرتے ہیں، لیکن افغانوں میں کم ہی ہاتھ آتے ہیں۔
دا ھم زائے د تعجب دے کہ ئے وینے
چہ مغل کاندِ بازیٔ پہ افغان
یعنی یہ تعجب کا مقام ہے کہ مغل، افغانوں کے ساتھ کسی کھلونے کی طرح کھیل رہے ہیں۔
زہ خوشحال خٹک ھغہ یم قدر نشتہ
دا مے واڑہ لہ افغانو نہ افغان شی
یعنی میں وہی خوشحال خٹک ہی ہوں لیکن افغانوں میں میری کوئی قدرومنزلت نہیں۔افغانوں سے یہی میری فریاد یا شکوہ ہے۔
چہ مغلو سرہ کیناستے مغل شے
د افغان سرہ چہ کینی نور افغان شی
یعنی مغلوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے کی وجہ سے آپ بھی مغل بن جاتے ہیں اور افغان کے ساتھ بیٹھنے سے سکہ بند افغان۔
نام و ننگ ناموس کہ دا د افغانی وی
چی خکارہ یے شو پہ دا دور احوال
یعنی اس پر کف افسوس ہی ملا جاسکتا ہے اگر افغانون کا نام، غیرت و حمیت ایسی ہو جیسی کہ اِس دور میں ظاہر ہوئی۔
لکہ زہ وم پہ راستئی پہ درستئی کے
د مغل پہ خدمت نہ وو بل افغان
یعنی جس دل جمعی کے ساتھ مَیں نے مغل کی خدمت کی ہے، اِس طرح تو کسی اور افغان نے نہیں کی۔
ہنگامہ دہ لا پہ مینز کی
د مغل او د افغان
یعنی اب تک مغل اور افغان کے مابین ہنگامہ جاری ہے۔
د گٹنے وخت تیریگی
واویلا افغان افغان
یعنی فتح کا وقت گزرتا جارہا ہے۔ اس لیے کہ افغان ماتم کناں ہے۔
دا نادرہ عقیدہ لکہ زما دہ
لا عجب کہ بل پیدا ھسے افغان شی
یعنی ایسا نادر عقیدہ بس صرف میرا ہے۔ عجیب بات ہوگی اگر میرے جیسا دوسرا افغان پیدا ہو۔
خوشحال کہ نبی نہ دے نصیحت خو ئے خوار مہ کڑہ
الہام دے چی ئے وائی دا کلام پہ افغانی
یعنی خوشحال اگر نبی نہیں، تو اُس کی نصیحت کو حقیر مت سمجھو۔ اس لیے کہ جو کچھ وہ افغانی زبان میں کہتا ہے، وہ الہام ہی ہے۔
کہ سوک پہ ملک کے یو شاہ زلمے دے
تورہ تر ملا کا وخت د افغان شہ
یعنی اگر اِس ملک میں کوئی ایک بہادر نوجوان ہے، تو اُسے تلوار اٹھانی چاہیے۔ اس لیے کہ افغان کی بہادری کا وقت آچکا ہے۔
خٹک لا پریگدہ پہ درست افغان کے
عجب کہ ھسے فرہنگیالے راشی
یعنی خٹک تو رکھ چھوڑیں، تمام افغانوں میں مجھ جیسا فہیم یا دانش ور پیدا نہیں ہوگا۔
لنگر کوٹ مغلو ساز کڑ
زہ پہ ننگہ د افغان شوم
یعنی مغلوں نے لنگر کوٹ کا قلعہ تعمیر کیا جس کی وجہ سے میں افغانوں کی حمیت پر کمر بستہ ہو گیا۔
پہ دا کال چی شاہ عالم راغے لہ ہندہ
صلح وشوہ د مغلو د افغان
یعنی جس سال شاہ عالم ہند سے آیا، تو مغلوں اور افغانوں کے درمیان صلح ہوگئی۔
درست جہان پہ ناپوھانو سرہ ڈک دے
ولے زیات کہ پہ کے وگورے افغان دی
یعنی دنیا نا سمجھو سے بھری پڑی ہے، لیکن اگر جائزہ لیا جائے، توافغان اس حوالے سے تعداد میں زیادہ ہوں گے۔
لکہ خوند د ہریڑے پہ ہریڑہ کی
ھسے کار دے د افغان د جہالت
یعنی جیسا کہ ہلیلہ (ہرڑ) کا ذائقہ ہلیلہ میں ہوتا ہے، ایسی ہی مثال افغان کی جہالت کی ہے۔
دواڑہ توکہ مسلم دی کہ ئے گورے
پہ دا ملک کے پہ افغان پہ تورانیو
یعنی اگر آپ سمجھ سکتے ہیں، تو دونوں ہی اقسام اِس ملک میں افغانوں اور تورانیوں میں بے شک موجود ہیں۔
مونگہ د بادشاہ یو قدیمی دولتخواہان
یو می نام بدیگی بل سٹیگی افغانان
یعنی ہم مغل بادشاہ کے قدیم خیر خواہ ہیں، لہٰذا اُس کا مخالف ہونے پر ایک تو میرا نام بدنام ہوگا اور دوسرا افغان برباد ہوجائیں گے۔
اور ان سب سے زیادہ خوشحال خان خٹک کا یہ مشہور شعر کہ
د افغان پہ ننگ می وتڑلہ تورہ
ننگیالے د زمانے خوشحال خٹک یم
یعنی مَیں نے غیرتِ افغان کے نام پر تلوار اٹھائی ہے۔ مَیں خوشحال خٹک اس زمانے کا غیرت مند شخص ہوں۔
وہ اپنا یہ شعر اس طرح بھی کَہ سکتے تھے کہ
د پختون پہ ننگ می وتڑلہ تورہ
ننگیالے د زمانے خوشحال خٹک یم
یعنی مَیں نے غیرتِ پشتون کے نام پر تلوار اٹھائی ہے۔ مَیں خوشحال خٹک اس زمانے کا غیرت مند شخص ہوں۔
لیکن اُس نے پختون (پشتون) کی جگہ یہاں بھی افغان کا نام استعمال کیا ہے۔
خوشحال خان خٹک نے اپنی کتاب ’’فراق نامہ‘‘ (خوشحال خان خٹک، فراق نامہ، مقدمہ، حاشیہ او لٹون د ہمیش خلیل، قامی مکتبہ، پشاور، جون 1983ء) میں صفحہ نمبر 138 میں بھی کہتے ہیں کہ
یوسف زی میر افغان دی
ھم د تورے ھم د خوان دی
یعنی یوسف زی افغانوں کے سردار ہیں۔ اس لیے کہ یہ صاحبِ سیف بھی ہیں اور مہمان نواز بھی۔
خوشحال خان خٹک کے بیٹے عبدالقادر خٹک نے پختون اور پختانہ کے ساتھ ساتھ افغان نام بھی استعمال کیا ہے، جس کا ثبوت اُسی کی کتاب ’’حدیقۂ خٹک (دیوان د عبدالقادر خان خٹک)‘‘ سید انوا ر الحق کی مدون و مرتب کردہ اور یونیورسٹی بک ایجنسی، پشاور، سے دوسری بار شائع شدہ (جس پر سنہ اشاعت درج نہیں) سے درجِ ذیل اشعار میں ملتا ہے:
چہ نن شپہ مہمندو ووھلے تورے
چہ وھلی نہ افغان نہ تورانی دی
ہمیشہ پختون مہمندو دے دروند کڑے
کہ سبب ئے د خفت میر افغانی دی
یعنی جس طرح آج کی رات مہمند بے جگری سے لڑے ہیں، اس طرح نہ تو افغان لڑے ہیں، نہ تورانی۔ ہمیشہ مہمندوں نے پشتونوں کی لاج رکھی ہے، کوئی بات نہیں اگر میر افغانی (یوسف زی؟) ان کی خفت کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
عبدالقادر خان خٹک اپنے والد خوشحال خٹک کو داد اور دعا دیتے ہوئے کہتا ہے:
افغان دہ غند چی وزیگی بل بویہ
آزاد وو، ھیث ئے نہ وڑہ مال منال
یعنی مجھے یقین نہیں کہ اُس جیسا کوئی دوسرا افغان پیدا ہوگا۔ وہ آزاد تھا اور کوئی دھن دولت نہیں رکھتا تھا۔
عبدالرحمان، جو رحمان بابا کے نام سے مشہور ہیں، نے بھی اپنے شعر میں افغانوں کا نام استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ پشاور یونیورسٹی کی پشتو اکیڈمی کے سال 1987ء میں دوسری بار شائع کردہ نسخے میں صفحہ 94 پر ذیل میں دیے گئے اِس شعر میں استعمال کیا ہے:
چی کشور د افغانانو معطر شی
د ہر بیت مصرع مے زلفے د خوبان کڑ
یعنی اے پروردگار! میرے ہر شعر کا مصرع میرے محبوب کی زلف کا تار ہوجائے، جس سے افغانوں کی سلطنت معطر ہوجائے۔
خوشحال خان خٹک کے پوتے افضل خان خٹک اپنی کتاب ’’تاریخِ مرصع‘‘ (مقابلہ، تصحیح اور نوٹس از دوست محمد خان کامل مومند، یونیورسٹی بک ایجنسی، پشاور، مئی 2004ء) میں خان جہان لودی کی مغل بادشاہ، شاہ جہان کے خلاف بغاوت کے سلسلے میں صفحات 257 اور 258 پر ’’پختانہ‘‘، ’’پختنو‘‘ (پختونوں) اور ’’پختونوالی‘‘ کی بات کرتا ہے، لیکن پھر اسی صفحہ 258 پر ’’ننگِ افغانی‘‘ مرکب بھی استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح صفحہ308 پر کرلانڑیوں کے نسب کے سلسلے میں بھی ’’افغان‘‘ کا نام اس جملے میں اس طرح استعمال کیا ہے کہ ’’چار لڑکیاں افغان قبیلے کے صحرا کی طرف نکلی تھیں ،کہ ایک دوسرے پر وارد ہوئے۔‘‘
اسی ’’تاریخِ مرصع‘‘ کے صفحہ 350 پر خوشحال خان خٹک کی فارسی زبان کی رباعی میں بھی ’’افغان‘‘ اور ’’افغانم‘‘ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اسی کتاب کے صفحہ 370 پر خوشحال کی زبانی یہ بات بھی تحریر شدہ ہے ’’کہ افغانیت کی حمیت نہیں رکھتے ہوں گے۔‘‘ اور صفحہ 375 پر یہ بات کہ ’’زبانی وہ ہمارے ساتھ ننگِ افغانی کی باتیں کرتے تھے۔‘‘
پیر معظم شاہ کی ’’تواریخ حافظ رحمت خانی‘‘ میں بھی پشتو کے لیے ’’زبان افغانی‘‘ اور ’’پختون‘‘، ’’پختونوں‘‘ اور ’’پختانہ‘‘ کے ساتھ ساتھ ان کے لیے ’’افغان‘‘، ’’قوم افغان‘‘، اہلِ افغان‘‘، ’’افغان خیل‘‘، ’’مریدانِ افاغنہ‘‘، ’’افغانانو‘‘، اور ’’اہلِ افغان‘‘ کے الفاظ اور نام بھی استعمال کیے ہیں۔
(ملاحظہ ہو پیر معظم شاہ، تواریخِ حافظ رحمت خانی، پختو اکیڈمی، پشاور یونیورسٹی، دوسری اشاعت، 1987ء، صفحات2، 3، 13، 33، 35، 84، 102، 119، 120، 138، 140، 145، 164، 151۔)
19 ویں صدی عیسوی میں محمد حیات خان نے اپنی کتاب ’’حیاتِ افغانی‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ اِسی 19ویں صدی عیسوی میں شیر محمد خان گنڈا پور نے فارسی میں لکھی گئی اپنی کتاب ’’تاریخِ خورشید جہان‘‘ (جس کا اُردو ترجمہ ’’تاریخِ پشتون‘‘ کے نام سے 20 ویں صدی عیسوی میں کیا گیا اور شائع کیا جاچکا ہے) میں بھی ’’افغان‘‘ کا نام استعمال کیا ہے۔ شیر محمد خان گنڈا پور کی اس کتاب میں افغان کے ساتھ ساتھ پٹھان اور پشتون (پختون) نام بھی استعمال ہوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اُس نے اس میں عمومیت اور خصوصیت کے فرق کی بات بھی کی ہے۔ (ملاحظہ ہو شیر محمد خان گنڈا پور کی کتاب ’’تاریخِ خورشید جہان‘‘ سراج احمد علوی کا کیا گیا اُردو ترجمہ’’ تاریخِ پشتون‘‘، کراچی سے شیخ شوکت علی اینڈ سنز کا شائع کردہ نسخہ، سنہ اشاعت درج نہیں۔)
گوپال داس کے زیرِ اہتمام تحریر شدہ کتاب ’’تاریخِ پشاور‘‘ (گلوب پبلشرز، لاہور، سنہ اشاعت درج نہیں) میں بھی ’’پشتو‘‘ زبان (پختو) کے علاوہ پشتون (پختون) اور پٹھان کا ذکر موجود ہے، لیکن زیادہ تر افغان اور قوم افغان، اور افغانان اور اقوامِ افغانان نام استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں پرانے ضلع ہزارہ اور موجودہ ہزارہ ڈویژن میں بھی ’’قومِ افغان‘‘ کی رہایش کا ذکر کیا گیا ہے۔
نہ صرف موجودہ خیبر پختونخوا کے 17ویں صدی عیسوی کے پشتونوں اور پشتو زبان کے لکھاریوں نے پشتونوں کے لیے افغان نام استعمال کیا ہے، لیکن اس کے بعد کی صدیوں کے پشتون لکھاریوں اور شاعروں نے بھی پشتونوں کے لیے افغان نام اور لفظ استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر 20ویں صدی عیسوی کے مشہور شاعر امیر حمزہ خان شنواری کو اپنے پشتون ہونے اور پشتو زبان پر اتنا غرور ہے (ملاحظہ ہو حمزہ اکیڈمی سے 2010ء میں شائع شدہ اس کی کتاب ’’غزونے‘‘) کہ کہتا ہے:
وائی اغیار چی د دوزخ ژبہ دہ
زہ بہ جنت د پختو سرہ زم
حمزہ سفر کۂ د حجاز وی نو ھم
زۂ د پختون د قافلو سرہ زم
یعنی اغیار کہتے ہیں کہ پشتو دوزخ کی زبان ہے، لیکن مَیں جنت میں اسی پشتو کے ساتھ جاؤں گا۔ ( پشتو میں’’پختو‘‘کے کئی معنی ہیں، لیکن یہاں یہ لفظ ’’پشتو زبان‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، مترجم) حمزہؔ اگر سفر حجاز کا بھی ہو، تو مَیں پشتونوں کے قافلوں کے ساتھ جاؤں گا۔
لیکن اس کے باوجود اُس نے پشتونوں کے لیے افغان کا نام اور لفظ بھی استعمال کیا ہے، جیسا کہ کہتے ہیں:
نور ھمہ غمونہ زہ زغملے شم چہ سہ وی
بس خو یو غمونہ د افغان مہ راکوہ
اے پرورودگار! باقی جتنے بھی غم ہوں، سہ سکتا ہوں، لیکن بس مجھے افغانوں کے غم میں مبتلا نہ کر!
حق لرے سر ٹیٹ چی زما غواڑے خو
سہ کڑمہ آشنا چی زۂ افغان یمہ
تم مجھے خمیدہ سر دیکھنا چاہتے ہو، یہ تمھارا حق ہے، لیکن اے آشنا! میرے لیے ایسا کرنا اس لیے مشکل ہے کہ مَیں افغان ہوں۔
کوم نسیم وو چی پہ باغ د افغان راغے
چہ ہر گل لکہ بلبل پہ بیان راغے
شو خوارہ وارہ را جمع یو قالب شو
جوڑ مسیح پہ ادیرہ د افغان راغے
وہ کون سی بادِ نسیم تھی، جو افغان کے باغ پر آئی کہ ہر پھول بلبل کی طرح ایک بیان کے ساتھ آیا۔ اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے گویا خود ہی یک جا و یک قالب ہوگئے، جیسے مسیح افغان کے قبرستان پر آگیا ہو۔
اپنی نظم ’’د زلمی افغان سندرہ‘‘ (جوان افغان کا گیت) میں اس کے بند کا آخری مصرع ہے:
زۂ زلمے افغان یم، زہ زلمے افغان یم
یعنی مَیں افغان جوان ہوں، مَیں افغان جوان ہوں۔
اسی گیت میں آگے جاکر وہ کہتے ہیں:
زہ لکہ مزریٔ یمہ پیشہ دہ شجاعت زما
زہ حمزہؔ افغان یمہ پیشہ دہ شجاعت زما
یعنی مَیں شیر جیسا ہوں میرا پیشہ شجاعت ہے۔ مَیں حمزہ افغان ہوں، میرا پیشہ شجاعت ہے۔
اسی طرح ’’خپلہ ژبہ‘‘ (اپنی زبان) کے زیرِ عنوان وہ کہتا ہے:
مخ نمر تہ د عرفان کڑہ، افغان ہمہ روخان کڑہ
حیرانہ ویخ اودہ دے، ارمانونہ رابیدار کڑہ
یعنی اپنا چہرہ عرفان کے سورج کی طرف کر کے سارے افغانوں کو روشن کر دو۔حیرانی کے عالم میں جاگتا ہوا سویا ہے، اُس کے ارمانوں کو بیدار کرو۔
’’د جمرود پہ دشت کی‘‘ (جمرود کے دشت میں) کے زیرِ عنوان کہتے ہیں:
ھم پختون دے پرے قابض وی دا مریٔ د ہندوستان دہ
دا عزت د پختنو دی، دغہ پوزہ د افغان دہ
کہ مریٔ د ہندوستان دہ، د افغان د اوخ مہار دے
پہ ورمیگ د ہندوستان کی ھم دغہ د شہ رگ تار دے
چہ فرنگ پرے قبضہ وکڑہ کل افغان زنے پہ ڈار دے
چی ئی دا ورتہ مورچہ کڑہ افغان خپل کور کے حصار دے
یعنی پختون ہی اس (جمرود) پر قابض ہو، یہ ہندوستان کی شہ رگ ہے۔ یہ پختونوں کی عزت ہے، یہ افغانوں کی ناک ہے۔ یہ اگر ہندوستان کی شہ رگ ہے، تو افغان کے اونٹ کی مہار ہے۔ ہندوستان کی گردن میں یہی شہ رگ کا تار ہے۔ جب فرنگ نے اس پر قبضہ کرلیا، تو تمام افغان خوف زدہ ہوگئے۔ جب فرنگ نے اس (جمرود) کو مورچہ بنالیا، تو افغان اپنے ہی گھر میں ایک طرح سے محصور ہوکر رہ گئے۔
’’پختنہ فقیرہ‘‘ (پشتون فقیرنی) کے زیرِ عنوان کچھ اس طرح کہتا ہے:
یو مرکز د افغان نشتہ، خو د نظام د مینزہ ورک دی
د غلجی پہ دخمنئی دی، کہ شنواری کہ خٹک دی
یعنی افغانوں کا ایک مرکز نہیں اس لیے نظام ہی غائب ہے۔ شنواری اور خٹک سب غلجیوں کے دشمن ہیں۔
’’ننگیالی خوشحال خان خٹک‘‘ (بہادر خوشحال خان خٹک) کے زیرِ عنوان کہتا ہے:
تہذیب ئی زلیدۂ پہ ہر عمل کے د افغان
مڑدیٔ او لوڑ ہمت تہ یٔ میدان وو کل جہان
یعنی اُس کے ہر عمل میں افغان تہذیب آشکار تھی۔اُس کی بہادری اور ہمت کے لیے سارا جہان میدانِ عمل تھا۔
’’د آزادیٔ جذبہ‘‘ (آزادی کا جذبہ) کے زیرِ عنوان کہتے ہیں:
پہ افغان ھم وو یو چپاؤ د استعمار راغلے
وو د مغرب نہ ستمگر پہ لاس کے دار راغلے
یعنی افغان پر بھی استعمار کی ایک لہر آئی تھی۔ مغرب سے وہ ستم گر اپنی موت کا سامان خود اپنے ہی ہاتھ لایا تھا۔
انسانیت بہ کاندی فخر د افغان پہ تورہ
بیا بہ تل ناز کوی افغان د نادر خان پہ تورہ
یعنی انسانیت افغان کی تلوار کی وجہ سے فخر کرے گی۔ اس کے بعد ہمیشہ افغان، نادر خان (بعد کے افغان بادشاہ نادر شاہ)کی تلوار پر ناز کریں گے۔
رباعیات میں کہتے ہیں:
ہر گز بہ فنا نہ کڑمہ قامی امتیاز
ژوندون بہ مے پہ دے وی چہ افغان یمہ زہ
یعنی ہر گز مَیں اپنے قومی امتیاز کو فنا نہیں ہونے دوں گا۔ میری زندگی اس بات پر قائم رہے گی کہ مَیں افغان ہوں۔
ان سب سے اہم اس کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
ما کوز ورتہ لیمہ کڑو زما سر نہ ٹیٹیڈہ
شاید چہ پہ الفت کی ھم افغان پاتے کیدم
یعنی مَیں نے پلکیں جھکالیں، لیکن میرا سر نہیں جھک رہا تھا۔ شاید کہ محبت میں بھی مَیں افغان ہی رہ پانا چاہتا تھا۔
20ویں صدی کے ایک اور مشہور پشتون قوم پرست شاعر اور لکھاری غنی خان نے ’’پختون‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’افغان‘‘ نام بھی استعمال کیا ہے۔ 1985ء میں افغانستان سے شائع شدہ ’’د غنی کلیات‘‘میں وہ اپنی مشہور نظم ’’دَ بچو ترانہ‘‘ (بچوں کا ترانہ) کے ایک شعر میں کہتے ہیں:
سر بہ خکتہ نہ کڑم کہ زرگونہ کشالے لرم
ربہ خکتہ مہ کڑے چاتہ سر تہ د افغان
یعنی ہزاروں مسائل کے باوجود جھکنے کا نام نہیں لوں گا۔ اے رب! میری دعا ہے کہ کبھی افغان کا سر کسی کے آگے نہ جھکے۔
مذکورہ کلیات میں غنی خان ’’لیونتوب‘‘ (دیوانگی) کے زیرِ عنوان اپنے ہی ایک شعر میں کہتے ہیں:
زما ملک کی دولت نشتہ خوشحالی دہ
دی زمزم زما شراب سر افغانے
یعنی میرے ملک میں دولت نہیں، لیکن خوش حالی ہے۔ میرا زم زم میری شراب ہے اور سر افغانی ہے۔
غنی خان نے نثر میں بھی اپنے ’’گڈو وڈو‘‘ (اُلٹی پلٹی باتیں) میں پختون تہذیب کی جگہ ’’افغانی تہذیب‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ (ملاحظہ ہو’’لیونے فلسفی‘‘، مقدمہ، حاشیہ او لٹون د سید افتخار حسین، پاکستان سٹڈی سنٹر، پشاور یونیورسٹی، صفحہ 34۔)
یاد رہے کہ غنی خان ’’پختون‘‘ رسالے میں ’’د غنی گڈے وڈے‘‘ (غنی کی الٹی پلٹی باتیں) کے زیرِ عنوان لکھا کرتے تھے، جسے اَب کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔
اجمل خٹک، جسے اپنے وقت کا پشتون قوم پرست اور انقلابی شاعر مانا جاتا تھا، نے بھی اس شعر میں افغان کا لفظ استعمال کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو اجمل خٹک، د غیرت چغہ، مہتاب ضمیر اینڈ برادرز بک سیلرز، سٹیشنرز، بخشالی، 1972ء، صفحہ 244۔)
چی نشہ د استبداد لری پہ سر کی
ما تہ یو دے کہ مغل دے کہ افغان
یعنی جس کے سر پر استبداد کا نشہ سوار رہتا ہے، میرے لیے برابر ہے چاہے وہ مغل ہو، یا افغان۔
جب تحریکِ ہجرت کے نتیجے میں باچا خان (عبد الغفار خان) افغانستان گیا اور کابل میں رہایش پذیر ہوا، تو اُس نے کابل میں حبیبیے کالج (حبیبیہ کالج) کا دورہ بھی کیا تھا۔ اُس دورے کا حال بیان کرنے میں اُس نے اُس کالج کے طالب علموں سے اپنی بات چیت کے ضمن میں پختون (پشتون) کی جگہ افغان اور پختو (پشتو) زبان کی جگہ افغانی (افغانئی) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
اس طرح باچا خان یہ بھی کہتا ہے کہ جب افغانستان کے خارجہ امور کے وزیر محمود طرزی نے مہاجروں کے لیے ضیافت کا انتظام کیا، تو اس موقع پر زبان کے حوالے سے بات چیت کے دوران میں ایک مہاجر نے محمود طرزی کو سوالیہ انداز سے مخاطب کیا کہ یہ کیسے افغانستان ہے کہ اِس میں افغانی نہیں۔اُس کا مطلب یہ تھا کہ وہ پختو (پشتو) زبان میں بات نہیں کرتے، بل کہ ’’دری‘‘ یا ’’فارسی‘‘ بولتے ہیں۔ اسی طرح موجودہ پختونخوا کے 20ویں صدی کے ایک قوم پرست راہ نما باچا خان نے ’’پختون‘‘ کے لیے ’’افغان‘‘ اور پختو زبان کے لیے ’’افغانی‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ (ملاحظہ ہو عبدالغفار، زما ژوند او جد و جہد، دولتی مطبع، کابل، 1983ء، صفحات 176، 177، اور خان عبدالغفار خان، آپ بیتی، فکشن ہاؤس، لاہور، 2004ء، صفحات 44، 45۔)
اور جب باچا خان اور اس کے ساتھیوں نے پشتونوں کی اصلاح کے لیے ایک تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا، تو اسے ’’انجمنِ اصلاح الپختون‘‘ کے نام سے نہیں، بل کہ ’’انجمنِ اصلاح الافاغنہ‘‘ کے نام سے بنایا۔ اس کے علاوہ اس ’’انجمنِ اصلاح الافاغنہ‘‘ کی طرف سے باچا خان کو ’’فخرِ افغان‘‘ کا خطاب دیا گیا، نہ کہ ’’فخرِ پختون‘‘کا۔
یہ سب کچھ اسی موجودہ خیبر پختونخوا میں 1920ء کی دہائی میں اسی صوبے کے لوگوں یا پشتونوں نے کیا، نہ کہ ہند یا افغانستان میں، اور نہ عربوں، ایرانیوں یا ہند زدہ پختونوں، اور نہ موجودہ افغانستان کے باسیوں نے اور نہ ماضیِ بعید میں۔
ریاستِ سوات (1915ء تا 1969ء) کے سرکاری یا دفتری ریکارڈ میں بھی پشتونوں کے لیے افغان نام استعمال میں لایا گیا پایا جاتا ہے اور بندوبستِ اراضی یا پٹوار کے ریکارڈ میں بھی افغان نام استعمال کیا گیا ہے۔
2004ء میں اسلام آباد میں بنائی گئی ایک ادبی تنظیم ’’نڑیوالہ پختو ٹولنہ‘‘ بھی ’’فخرِ افغان ایوارڈ‘‘ کے نام سے ایک ایوارڈ دینے کا اہتمام کرتی ہے۔
یہی فخرِ افغان ایوارڈ ’’انجمنِ اصلاح الافاغنہ‘‘ کی طرف سے باچا خان کو دیے گئے خطاب ’’فخرِ افغان‘‘ کی نسبت سے مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والے مشہور افراد کو دیا جاتا ہے۔
ہارون الرشید کے، جس نے پشتونوں کی تاریخ پر ’’ہسٹری آف دی پٹھانز‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب تصنیف کی ہے، 27 مئی 2003ء کو مذکورہ کتاب کی تقریبِ رونمائی کے وقت اس دعوے کی بھی کوئی تُک نہیں بنتی کہ ’’پختون‘‘ نام صرف نظم یا شاعری میں استعمال ہوا ہے اور ایسا اولف کیرو کی کتاب ’’دی پٹھانز‘‘ کے شائع ہونے کے بعد پٹھان نام کا راستہ روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ پختون نام نہ صرف نظم یا شاعری میں استعمال کیا گیا ہے، بل کہ نثر میں بھی 17 ویں صدی عیسوی اور اُس کے بعد تواتر کے ساتھ استعمال کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح ’’پختون‘‘ کا استعمال اولف کیرو کے استعمال کردہ ’’پٹھان‘‘ کا راستہ روکنے کے لیے نہیں، لیکن جیسا کہ ذکر کیا گیا، کم از کم 17 ویں صدی عیسوی سے استعمال ہوتا چلا آ رہا ہے۔
ڈاکٹر سید وقار علی شاہ صاحب کی یہ بات یا دعوا بھی وزن نہیں رکھتا کہ پشتون لکھاریوں نے ’’پٹھان‘‘ نام استعمال نہیں کیا ہے اور یہ کہ اولف کیرو نے پٹھان نام پشتونوں کی دشمنی میں یا پشتونوں سے نفرت کی وجہ سے استعمال کیا ہے۔ ڈاکٹر وقار علی شاہ صاحب نے یہ دعوا 27 مئی 2003ء کو پشاور میں ایریا سٹڈی سنٹر میں ہارون الرشید کی مذکورہ کتاب کی تقریب رونمائی کے وقت بھی کیا تھا اور اس کے 20 برس بعد 25 جولائی 2023ء کو اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی میں ملک احمد کے حوالے سے ایک سیمینار کے موقع پر بھی کیا۔
یہ اپنی نوعیت کا ایک الگ اور اہم سوال ہے کہ اولف کیرو نے اپنی یہ کتاب کس کے ایما پر اور کیوں لکھی؟ اور یہ بھی کہ اولف کیرو کی مذکورہ کتاب کتنی مستند ہے اور اس میں کیا کچھ درست نہیں؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے ایک الگ لمبی تحریر درکار ہے۔ لیکن ’’پٹھان‘‘ لفظ یا نام اکیلے اولف کیرو نے استعمال نہیں کیا ہے، بل کہ اُس سے بہت پہلے دوسرے افراد نے بھی استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر ایڈورڈ ای اولیور کی کتاب ’’اکراس دی بارڈر آر پٹھان اینڈ بلوچ‘‘ پہلی بار 1890ء میں شائع ہوئی ہے۔ اسی طرح ایچ سی ویلی کی کتاب ’’دی بارڈر لینڈ: دی کنٹری آف دی پٹھانز ‘‘ پہلی بار سنہ 1912ء کو شائع ہوئی ہے۔
یہ لفظ یا نام اُن افراد نے بھی اولف کیرو سے بہت پہلے استعمال کیا ہے، جنھوں نے پشتونوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہے اور سخت پشتون قوم پرستوں نے بھی استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر قیوم خان (جو اُس وقت اس صوبے سے کانگرس اور خدائی خدمت گاروں کی طرف سے ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے ممبر اور پشتونوں کے حقوق کے علم بردار تھے) نے 1945ء میں شائع شدہ اپنی مشہور کتاب کا نام ’’گولڈ اینڈ گنز آن دی پٹھان فرنٹیئر‘‘ رکھا ہے۔ اور غنی خان نے اپنی مشہور کتاب 1947ء میں ’’دی پٹھانز: اے سکیچ‘‘ کے نام سے شائع کی ہے۔ اولف کیرو کی کتاب ’’دی پٹھانز‘‘ 1958ء میں شائع کی گئی ہے، یعنی قیوم خان کی کتاب سے 13 سال بعد اور غنی خان کی کتاب سے 11 سال بعد۔غور طلب بات یہ ہے کہ بعض پشتون لکھاری، محقق اور دانش ور اولف کیرو کی کتاب کے نام پر اور اس طرح ہندوستان میں رہایش پذیر پشتونوں کے لیے ’’پٹھان‘‘ نام کے استعمال پر بھنویں تو سکیڑتے ہیں اوراِس پر اعتراض کرتے ہیں، لیکن خوشحال خان خٹک، قیوم خان اور غنی خان کے ایسا کرنے پر کبھی بھولے سے بھی اعتراض نہیں کیا۔
پشاور یونیورسٹی کے پختو اکیڈمی کے پرانے ڈائریکٹر عبدالقادر، جسے عام طور پر مولانا عبدالقادر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور پہچانا جاتا ہے،نے بھی اولف کیرو کی کتاب کے اردو ترجمے (پٹھان، اردو ترجمہ سید محبوب علی، ترجمہ اختتامیہ ڈاکٹر اشرف عدیل، پختو اکیڈمی، پشاور یونیورسٹی، تیسری اشاعت، 2000ء) پر اپنے لکھے گئے ’’مقدمہ‘‘ میں اولف کیرو کی اس کتاب کے نام پر اعتراض کیا ہے اور کہتا ہے کہ ’’پٹھان، افغان اور پشتون کو ایک سمجھنا یا پشتون کے لئے پٹھان اور افغان کا نام استعمال کرنا سہو ہی نہیں بلکہ ایک بڑی غلطی ہے۔ یقین ہے کہ ناظرین اب اس مغالطہ میں نہیں پڑیں گے۔‘‘ (مولانا عبدالقادر کی اِس بات کے لیے اُس کے مذکورہ’’ مقدمہ ‘‘کا صفحہ 16 ملاحظہ ہو۔)
ڈاکٹر رفیع اللہ خان کے کہنے کے مطابق (جس نے مولانا عبدالقادر کے اس ’’مقدمہ‘‘ میں اولف کیرو کی اِس کتاب میں بعض باتوں پر اُس کے اعتراض پر اولف کیرو کے جوابات کے وہ نوٹس دیکھے ہیں) اولف کیرو نے اپنی اِس کتاب کے لیے ’’دی پٹھانز‘‘ کا نام دو وجوہات کی بنا پر رکھا تھا۔ پہلی وجہ یہ کہ وہ اپنی کتاب کی طرف پوری دنیا کی سطح پر زیادہ سے زیادہ قارئین کی توجہ حاصل کرے، اس لیے کہ ’’پٹھانز‘‘ نام بین الاقوامی طور پرزیادہ پہچانا جاتا تھا۔ دوسری وجہ، دانستہ یا شعوری طور پر یہ کوشش کرنا تھی کہ اپنی کتاب کو ’’پختونستان‘‘ کے اُس مسئلے اور مشکل کے ساتھ باندھ نہ لے اور پھنسا نہ لے، جو افغانستان کی حکومت نے پیدا کی تھی اورجسے وہ آگے لے جارہی تھی۔
اگر پشتونوں کے لیے پٹھان یا افغان نام استعمال کرنا ایک بڑی غلطی ہے، تو جیسے اس سے پہلے ذکر شدہ باتوں اور بحث سے ظاہر ہے یہ غلطی تو اولف کیرو کی کتاب کے لکھنے سے پہلے ان افرادنے بھی نظم اور نثر دونوں میں کی ہے، جو پشتون ہیروز اور پشتونوں کے حقوق کے لیے کام کرنے کے حوالے سے سرخیل مانے جاتے ہیں۔ عبدالقادر کے اس ’’مقدمہ‘‘ میں یہ بات بھی وزن نہیں رکھتی کہ حقیقت یہ ہے کہ پشتونوں نے اپنے لیے نہ تو کبھی پرانے زمانے میں پٹھان اور افغان کا نام استعمال کیا ہے اور نہ اب ایسا کرتے ہیں۔( مولانا عبدالقادر کی اِس بات کے لیے اُس کے اِس مقدمے کا صفحہ 8 ملاحظہ ہو۔)
اگر چہ مولانا عبدالقادر کو تو ہم نسل پرست نہیں گردان سکیں گے، لیکن پھر بھی وہ اپنے اس ’’مقدمے‘‘میں غیر پختونوں (غیر پشتونوں) یا عام پٹھانوں پر یہ تہمت لگاتے ہیں کہ اُنھوں نے اباسین سے ہند کی طرف کی زمین پر پشتونوں کی شکل بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ اِس بات کو نظر میں رکھنے کے ساتھ اُس کی یہ تحریر اس لیے احتیاط کے ساتھ پڑھنا پڑتی ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ پختون لفظ کے استعمال میں وہ کس کی طرف اشارہ کرتا ہے یا اِس سے اُس کی مراد کون ہے؟
یہاں اس بات کی نشان دہی بھی ضروری ہے کہ بہادر شاہ ظفر کاکاخیل نے اپنی اوپر ذکر شدہ کتب میں پشتونوں اور پختونخوا دونوں کو موجودہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی زمین کے اس خاص اور چھوٹے ٹکڑے تک محدود کر دیا ہے۔ اُس نے نہ صرف یہ بات نظر انداز کی ہے، بل کہ اس کے ساتھ ساتھ اُس نے موجودہ افغانستان اور بلوچستان کی زمین اور اُدھر رہایش پذیر پشتونوں کو اپنے پختونخوا اور پشتون قوم سے نکال باہر کیا ہے۔ وہ ان پشتونوں کو بھی پشتونوں اور پشتون قوم کا حصہ نہیں مانتے اور ان سے نکال باہر کیا ہے، جو پاکستان یا برصغیر کے دوسرے علاقوں میں بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
پشتونوں کے لیے افغان نام یا لفظ تو اب بھی ایک اور اضافے کے ساتھ استعمال کیا اور بولا جاتا ہے یعنی ’’افغان پختون‘‘ (افغان پشتون) اور ’’پختون افغان‘‘ (پشتون افغان)۔ افغان کے ساتھ پختون (پشتون) کا یہ لفظ یا نام اور یا پختون کے ساتھ افغان کا لفظ یا نام باندھنا نئے دور کی سیاسی تبدیلی کا نتیجہ اور اثر ہے۔ اس نئے منظر نامہ میں افغان، افغانستان کے تمام افراد یا لوگوں کے لیے افغانستان کی شہریت کی وجہ سے استعمال میں لایا یا بولا جاتا ہے، جن میں پشتونوں کے علاوہ ازبک، تاجک، ہزارہ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اسی وجہ سے پشتونوں کی تخصیص کے لیے افغانستان کے پشتونوں کے لیے ’’افغان پختون‘‘ (افغان پشتون) اور پاکستان کے پشتونوں کے لیے ’’پختون افغان‘‘ (پشتون افغان) کے نام معرضِ وجود میں آئے، تاکہ یہ واضح رہے کہ اس سے مطلب افغانستان سے تعلق رکھنے والے یا پاکستان سے تعلق رکھنے والے پختون (پشتون) یا افغان ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ’’پختو‘‘ یا ’’پشتو‘‘ (زبان) کے دو منفرد لہجے ہیں۔ ایک کو سخت اور دوسرے کو نرم لہجہ کہتے ہیں۔ سخت لہجے میں ’’خ‘‘ حرف استعمال میں لایا جاتا ہے اور نرم لہجے میں ’’ش‘‘ حرف۔ سخت لہجے میں پٹھان اور افغان کی جگہ ’’پختون‘‘ اور ’’پختن‘‘ (جمع پختانہ) اور نرم لہجے میں ’’پشتون‘‘ اور ’’پشتین‘‘ (جمع پشتانہ) بولے اور استعمال میں لائے جاتے ہیں۔
جیسا کہ تحریر کے آغاز میں ذکر کیا گیا ہے اور جیسا کہ محولہ بالا تمام حوالہ جات سے واضح ہے کہ کم از کم 17ویں صدی عیسوی سے ان لوگوں کے لیے افغان، پٹھان اور پختون/ پشتون الفاظ اور نام استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ یہاں اس تحریر میں اس بات کا صحیح تعین مشکل ہے (اس لیے کہ اس کے لیے ایک الگ تفصیلی تحقیق اور تحریر درکار ہے) کہ وہ کون سے سماجی، سیاسی، ثقافتی پس منظر، سوچوں اور ذہنوں کی تبدیلی یا تغیر، ذاتی ادراک یا وجدان اور معروضی حالات ہیں کہ جنھوں نے یہ مختلف نام ان لوگوں کے لیے استعمال میں لائے ہیں۔
اگرچہ اول اول ان کے لیے ہند میں بھی زیادہ تر افغان نام استعمال میں لایا جاتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ محمد عبدالرحیم نے اپنی کتاب کا نام ’’ہسٹری آف دی افغانز اِن انڈیا،1545ء تا 1631ء :وِد سپیشل ریفرنس ٹو دئیر ریلیشنز وِد دی مغلز‘‘ رکھا ہے، لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کے لیے پٹھان نام آنے والے دور میں زیادہ تر ہند اور اردو اور انگریزی زبانوں میں استعمال ہوا ہے۔ اور موجودہ افغانستان اور پاکستان کے علاقوں میں جہاں وہ اکثریت میں رہے ہیں، تو اپنے لیے افغان اور پختون/ پشتون نام استعمال کیے ہیں۔ البتہ ان کا اپنے لیے پختون اور پختن/ پشتون اور پشتین (جمع پختانہ/ پشتانہ) نام کا عام طور پر کثرت سے استعمال نئے دور اور 20ویں صدی عیسوی میں سیاسی حالات، قوم پرستی یا قومی تحریکوں اور دوڑ دھوپ کی ایک شعوری کوشش ہے۔
آخر میں، مَیں ڈاکٹر رفیع اللہ خان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جنھوں نے اس تحریر کے مسودے پر تنقیدی نظر ڈالی اور اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کیا۔ (ڈاکٹر سلطانِ روم)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

One Response
It’s indeed an amazing article based on thorough research. The origin of Pukhtana and Afghans have been proven in a logical and pragmatic manner. The writer Amjad Khan deserves candid appreciation and commendation for his pains taking efforts.