(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
گذشتہ تقریباً 40 سالوں میں، ایک رجحان بڑھا ہے، جہاں بہت سے ڈاکٹر، انجینئر اور مسلح افواج کے افسران نے ’’سی ایس ایس‘‘ کے امتحانات پاس کرنے کے بعد سول اور پولیس سروسز میں شمولیت اختیار کی ہے۔ نتیجے کے طور پر، آپ کو پولیس سپرنٹنڈنٹ یا ڈپٹی کمشنر کے طور پر خدمات انجام دینے والے ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ سول سروسز میں عہدوں پر فائز ریٹائرڈ فوجی افسران مل سکتے ہیں۔ وہ اکثر اپنے ناموں کے ساتھ ’’ریٹائرڈ کیپٹن‘‘ جیسے اپنے فوجی القاب کو برقرار رکھتے ہیں…… لیکن ریاستِ سوات میں، افسران کی کسی بھی محکمہ یا افواج میں تقرری کا اختیار والی صاحب کے پاس تھا، جہاں وہ مناسب سمجھتے، ٹرانسفر یا تعیناتی کر دیتے۔ لیکن صحت اور تعلیم کے شعبے کے کسی بھی افسر کو ان کی پیشہ ورانہ ملازمت کے علاوہ تعینات نہیں کیا گیا۔ سوات کی تاریخ میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے صورتِ حال کو واضح کرنے کے لیے مَیں چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔
1964ء میں، مجھے اور بہادر زمان، جو کہ سوات "P.W.D” میں، میرے کولیگ تھے، کو دو کمروں کی ڈسپنسری کی تعمیر کے لیے دوبیر (انڈس کوہستان) بھیجا گیا، جو رانولیا سے تقریباً 15 میل دور ہے۔ ہمیں دوبیر کے تحصیل دار، محمد زبیر خان نے خوش آمدید کہا۔ وہ غوریجہ گاؤں کے معروف خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جو فضاگٹ کے بالکل سامنے، دریائے سوات کے دائیں کنارے پر واقع ہے۔ انھوں نے ہمارے ساتھ مشفقانہ برتاو کیا۔ کیوں کہ وہ میرے والد کو ذاتی طور پر جانتے تھے اور اُس شام ہمیں ایک شان دار ضیافت دی۔ ایک رات گزارنے کے بعد، ہم اپنی ذمے داری مکمل کرکے واپس لوٹے۔ چند ماہ بعد، مَیں غوریجہ گاؤں میں ریاستی ’’منصف‘‘ یا ثالث، کپتان شیرین کے ساتھ ایک تنازعے کے سلسلے میں گیا۔ وہاں ہمیں اسی زبیر خان نے اپنے حجرے میں خوش آمدید کہا۔ انھیں ریاستی افواج میں صوبیدار میجر کے طور پر دوبارہ نام زد کیا گیا تھا۔ اس عہدے پر وہ پہلے بھی تحصیل دار کے عہدے سے پہلے تعینات تھے۔
ایک اور ملتا جلتا معاملہ مینگورہ کے سرفراز خان کا تھا۔ انھیں تحصیل داری سے ہٹا کر فوج میں کپتان بنایا گیا۔ بعد میں انھیں کمانڈر روڈز کے طور پر ترقی دی گئی۔ انضمام کے بعد صوبائی پولیس سروس سے ڈی ایس پی کے طور پر ریٹائر ہوئے۔
ریاستِ سوات کے مالیاتی/ عدالتی نظام سے منسلک ایک اور ممتاز افسر فصیح اللسان مشیر صاحب تھے۔ وہ پہلے ریاستی پولیس میں تھانے دار تھے۔ پھر ان کو تحصیل دار بنایا گیا اور ترقی کرتے کرتے مشیرِ بابوزئی بن گئے۔ ریاست کے انضمام کے بعد، انھوں نے صوبائی سروس میں شمولیت اختیار کی اور پولی ٹیکل ایجنٹ کے طور پر ریٹائر ہوئے۔
محمد شیرین، جس کا پہلے ذکر ہوچکا ہے، ریاستی گھڑ سوار دستے کے کپتان کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ انھیں بعد میں مختلف گاوؤں یا معززین کے درمیان انتہائی اہم نوعیت کے تنازعات کا فیصلہ کرنے کے لیے ’’منصف‘‘ بنایا گیا۔
امیر سید، وزیرِ ملک صاحب نے صوبے دار کے طور پر اپنی خدمات کا آغاز کیا اور اپنی خوبیوں اور سیاسی تدبر کی بنا پر ریاست میں سب سے اعلا عہدے پر پہنچ گئے۔
باجکٹہ، بونیر کے سید کریم خان نے کئی سال تک تحصیل دار کے طور پر خدمات انجام دیں، انھیں دوبارہ صوبے دار میجر کے طور پر نام زد کیا گیا اور اگرچہ وہ ریاستی دور میں ریٹائر ہوئے، لیکن بونیر کے لوگوں انھیں صوبے دار میجر صاحب کے طور پر بلاتے۔
نوٹ از مترجم: ان چند مثالوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ خدمات پر مبنی یا باوقار پیشہ ور افراد یعنی ڈاکٹر اور اساتذہ کو ریاستِ سوات میں کبھی بھی سول عہدوں پر فائز نہیں کیا گیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
