پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جنوری 2024ء کی رپورٹ کے مطابق، ملک میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کرنے والوں کی تعداد تقریباً 7 کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
’’فیس بُک‘‘ صارفین کی تعداد 6 کروڑ 4 لاکھ، جن میں مرد صارفین 76 فی صد اور خواتین 24 فی صد ہیں۔
’’یوٹیوب‘‘ صارفین کی تعداد 7 کروڑ 17 لاکھ، جن میں مرد صارفین 72 فی صد اور خواتین 28 فی صد ہیں۔
’’ٹک ٹاک‘‘ صارفین کی تعداد 5 کروڑ 44 لاکھ ریکارڈ کی گئی، جن میں مرد صارفین 78 فی صد اور خواتین 22 فی صد ہیں۔
قارئین! آج کا دور، ڈیجیٹل دور ہے، جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ہر شعبۂ زندگی کو متاثر کیا ہے۔ یہ پلیٹ فارمز جہاں معلومات تک رسائی کو آسان بناتے ہیں، وہاں ان کے منفی پہلو بھی ہمارے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنا مشکل ہوچکا ہے اور اس کا سب سے بڑا شکار عوام کی رائے اور ذہنی صحت ہے۔
سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کا پھیلاو ایک عام مسئلہ بن چکا ہے۔ اکثر ہم ایسے جذباتی سرخیوں یا تصاویر کے ساتھ جھوٹی خبریں دیکھتے ہیں، جن کا مقصد لوگوں کے جذبات کو بھڑکانا یا کسی مخصوص ایجنڈے کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کی شیئر کی گئی ایک غیر مصدقہ خبر کے کتنے منفی اثرات ہو سکتے ہیں؟
مثال کے طور پر، حالیہ سالوں میں مذہبی یا سیاسی نوعیت کی جھوٹی خبروں نے معاشرے میں فرقہ واریت اور انتشار کو ہوا دی ہے۔ ایک جھوٹی خبر نہ صرف کسی فرد یا ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہے، بل کہ اس سے لوگوں کے درمیان نفرت اور عدم اعتماد کی فضا بھی پیدا ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ، جھوٹی خبروں کا ہماری ذہنی صحت پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔ وبائی امراض یا قدرتی آفات کے دوران میں جھوٹی خبریں لوگوں کو خوف اور بے چینی میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ خاص طور پر، حساس موضوعات جیسے صحت اور مذہب کے حوالے سے جھوٹے بیانات اور معلومات عوام کو غیر ضروری پریشانی میں ڈال سکتی ہیں۔
قارئین! کیا آپ جانتے ہیں کہ 2018ء میں "MIT” کی تحقیق کے مطابق، جھوٹی خبریں سچائی کے مقابلے میں 70 فی صد زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں؟ پاکستان میں بھی یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کرچکا ہے۔ "Digital Rights Foundation” کی ایک رپورٹ کے مطابق، 62 فی صد پاکستانی کسی بھی خبر کی تصدیق کیے بغیر اسے شیئر کر دیتے ہیں۔ یہ رجحان صرف عام عوام تک محدود نہیں، بل کہ تعلیم یافتہ افراد بھی اس کا شکار ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ سب سے پہلے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی بھی خبر کو آگے بڑھانے سے پہلے اس کی تصدیق کرنا ہماری ذمے داری ہے۔ معتبر ذرائع سے معلومات حاصل کریں اور خبر کے ماخذ کو چیک کریں۔ اگر کوئی غیر معمولی یا جذباتی، مذہبی یا صحت کے حوالے سے سنجیدہ معلومات ہوں، تو اس پر مزید تحقیق کریں۔
دوسری بات، تنقیدی سوچ کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر موصول ہونے والی ہر بات کو فوراً سچ نہ مانیں، بل کہ اس پر سوال اُٹھائیں۔ خاص طور پر دینی یا سیاسی موضوعات پر گفت گو کرتے وقت محتاط رہیں اور جب تک یہ کنفرم نہ ہوکہ جو مَیں نے پڑھا ہے اور جو مَیں آگے شیئر کررہاہوں، وہ مستند اور حقائق پر مبنی ہے؟ بغیر تصدیق کے کوئی بھی بات آگے بڑھانے سے گریز کریں۔ کیوں کہ غیر مصدقہ معلومات معاشرتی غلط فہمیوں اور تنازعات کو جنم دے سکتی ہیں۔
تیسری اور سب سے اہم بات، حکومت اور سماجی تنظیموں کو اس مسئلے کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے اور عوام کو ان کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے لیے مہمات چلائی جانی چاہئیں۔
قارئین سے گزارش ہے کہ جھوٹ اور افواہوں کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کو روکنے کے لیے اپنی ذمے داری کو سمجھیں۔ اگر ہم سب مل کر سچائی کو ترجیح دیں اور جھوٹی خبروں کے خلاف کھڑے ہوں، تو ہم نہ صرف خود کو، بل کہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اس زہر سے محفوظ رکھ سکیں گے۔
قارئین! یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی ڈیجیٹل زندگی میں توازن پیدا کریں اور سوشل میڈیا کے مثبت پہلوؤں سے استفادہ کریں۔ یہ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اس طاقت ور ذریعے کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں یا اپنے نقصان کے لیے……؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔