تصور کریں کہ ایک لمبا، تاریک اور سرد راستہ، جہاں روشنی کبھی کبھی جھپکتی ہے اور ہوا میں عجیب سا خوف محسوس ہوتا ہے، جیسے ہر کونے میں کوئی چھپی ہوئی کہانی ہو۔ یہ راستہ ایک ایسی جگہ کی طرف جاتا ہے جہاں دنیا کے سب سے خطرناک ذہنوں کو قید کیا گیا ہے اور وہاں، شیشے کی دیوار کے پیچھے، ایک ایسا شخص ہے جس کا نام سن کر دلاوروں کے بھی قدم ڈگمگا جائیں۔ اس کا نام ہے ’’ڈاکٹر ہانیبل لیکٹر‘‘۔
ایک دن، ایک جوان لڑکی، کلیریس اسٹارلنگ، جو ایف بی آئی کی تربیت حاصل کر رہی تھی، کو اس شخص سے ملنے بھیجا گیا۔ وہ گھبراہٹ سے بھری ہوئی تھی، اُس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، لیکن اُس نے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا۔ وہ اس لمبے اور خوف ناک راستے سے گزرتی رہی، اُن قیدیوں کے قریب سے، جو اُس کے بارے میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔ آخرِکار، وہ شیشے کی دیوار تک پہنچی اور وہ شخص وہاں تھا۔
’’ڈاکٹر لیکٹر‘‘ دوسروں کی طرح نہیں تھا۔ وہ چیختا تھا، نہ شور مچاتا تھا۔ وہ بالکل خاموش کھڑا تھا، ایک مجسمے کی طرح، اپنی تیز نظروں سے اُسے دیکھتا ہوا۔ وہ پُرسکون تھا، بہت زیادہ پُرسکون، جیسے جنگل میں گھات لگائے بیٹھا شیر۔ اور جب اُس نے بات کی، تو اُس کی آواز نرم اور ہم وار تھی، جیسے کوئی دوست بات کر رہا ہو۔ لیکن وہ دوستوں جیسی آواز نہیں تھی۔ اُس کی باتیں کلیریس کے دل میں عجیب سا خوف ڈال رہی تھیں۔
’’تم کون ہو؟‘‘ اُس نے سر جھکا کر پوچھا، اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں، جیسے وہ پہلے سے جانتا ہو۔ کلیریس نے اپنے آپ کو مضبوط رکھا اور جواب دیا۔ لیکن جیسے جیسے وہ بات کرتے گئے، کلیریس نے محسوس کیا کہ کچھ عجیب ہو رہا ہے۔ ایسا لگا جیسے ڈاکٹر لیکٹر اُس کی روح کے اندر جھانک رہا ہو، اُس کے سارے راز، خوف، خواب سب کچھ جان رہا ہو۔ اُس کے الفاظ نے اُس کا دل تیز دھڑکا دیا۔ کیوں کہ وہ چلاتا نہیں تھا، بل کہ اُس کی پُرسکون چالاکی تھی، جو خوف پیدا کر رہی تھی۔ اُس کی مسکراہٹ…… وہ مہربان مسکراہٹ نہیں تھی۔ وہ ایسی مسکراہٹ تھی، جو دیکھ کر بھاگنے کا دل کرے۔
جانے سے پہلے، اُس نے کچھ عجیب کہا، کچھ ایسا جو ایک پہیلی جیسا محسوس ہوا۔’’ایک سراغ‘‘۔ اُس نے کہا، جیسے کسی اندھیرے جنگل میں ایک ٹکڑا چھوڑا ہو۔ لیکن، چاہے اُس نے سراغ دیا ہو، کلیریس کو صاف معلوم ہوگیا تھا کہ یہ کھیل اُس کا نہیں، ڈاکٹر لیکٹر کا تھا۔ اور جب وہ وہاں سے نکلی، تو اُس نے محسوس کیا جیسے ہوا بھاری ہو گئی ہو، جیسے وہ کسی بہت خطرناک مگر بہت طاقت ور چیز کے قریب رہی ہو۔
ڈاکٹر لیکٹر صرف ایک انسان نہیں تھا۔ وہ شیشے کے پیچھے قید ایک طوفان کی طرح تھا، خاموش، لیکن اندر چھپی ہوئی گرج کو محسوس کیا جاسکتا تھا۔ اُس دن، کلیریس نے ایک اہم سبق سیکھا، کبھی کبھی سب سے ڈراؤنے ظالم وہ ہوتے ہیں، جو مسکراتے اور سرگوشیاں کرتے ہیں، نہ کہ وہ جو چیختے اور دھاڑتے ہیں۔
ادب ہمیشہ سے انسانی نفسیات کے پیچیدہ پہلوؤں کو بیان کرنے کا موثر ذریعہ رہا ہے۔ اس میں تخلیق کی جانے والی کہانیاں نہ صرف قارئین کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں، بل کہ ہمارے معاشرتی اور انفرادی رویوں کے آئینہ دار بھی بنتی ہیں۔ ایسے ہی ایک مشہور ناول ’’دی سائلنس آف دی لیمبز‘‘ (The Silence of the Lambs) نے سائیکالوجی کے ڈس آرڈر یعنی نفسیاتی خرابیوں کو نہایت باریکی سے پیش کیا ہے۔ یہ ناول نہ صرف سسپنس اور تھرلر کا شاہ کار ہے، بل کہ انسانی ذہن کے تاریک گوشوں اور اُن کے سماجی اثرات کا گہرا تجزیہ بھی پیش کرتا ہے۔
’’دی سائلنس آف دی لیمبز‘‘ تھامس ہیرس کی تخلیق ہے، جس کی کہانی دو مرکزی کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ پہلا کردار ڈاکٹر ہانیبل لیکٹر ہے، جو ایک ذہین لیکن خطرناک ’’سائیکوپیتھ‘‘ ہے، اور دوسرا کردار کلیریس اسٹارلنگ، ایک نوجوان ایف بی آئی ٹرینی، ہے جو ایک سیریل کلر ’’بفلو بل‘‘ کو پکڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ڈاکٹر ہانیبل لیکٹر، جو پہلے ایک ماہرِ نفسیات تھا، اپنی ذہانت اور چارم کا استعمال کرکے لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق قابو کرتا ہے۔ لیکٹر ایک انتہائی پیچیدہ کردار ہے، جو بہ یک وقت خوف ناک اور پُرکشش ہے۔ دوسری جانب، کلیریس اسٹارلنگ ایک پُرعزم اور نڈر خاتون ہے، جو نہ صرف مجرموں کو پکڑنے کی جد و جہد کرتی ہے، بل کہ اپنی ذاتی کم زوریوں پر بھی قابو پانے کی کوشش کرتی ہے۔
ڈاکٹر ہانیبل لیکٹر کا کردار سائیکوپیتھی (Psychopathy) کے ڈس آرڈر کی بہترین مثال ہے۔ یہ ڈس آرڈر اُن لوگوں میں پایا جاتا ہے، جو جذباتی ہم دردی سے عاری ہوتے ہیں۔ دوسروں کے جذبات یا حقوق کی پروا نہیں کرتے اور صرف اپنی خواہشات اور مفادات کے بارے میں سوچتے ہیں۔ لیکٹر کی پُرسکون شخصیت، غیر معمولی ذہانت اور لوگوں کی ذہنی کم زوریوں کو استعمال کرنے کی مہارت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ سائیکوپیتھی کا شکار فرد کس طرح خطرناک ہوسکتا ہے۔
ناول کا ایک اور اہم کردار ’’بفلو بل‘‘ بھی ذہنی بیماری کی علامت ہے۔ وہ ایک سیریل کلر ہے، جو اپنی شناخت کے مسائل اور اندرونی خلفشار کی وجہ سے دوسرے لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ کردار ذہنی دباو، جذباتی محرومی اور نفسیاتی مسائل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مجرمانہ رویے کو اُجاگر کرتا ہے۔
’’دی سائلنس آف دی لیمبز‘‘ میں پیش کی گئی کہانی آج کے معاشرے میں عام ذہنی مسائل کی عکاسی کرتی ہے۔ ہم اکثر ایسے افراد کو دیکھتے ہیں، جو اپنی طاقت، ذہانت یا عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے دوسروں کے جذبات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ سائیکوپیتھی اور نرگسیت (Narcissism) جیسے ڈس آرڈرز سیاست، کارپوریٹ دنیا اور دیگر شعبوں میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں بھی ایسے واقعات دیکھنے کو ملے ہیں۔ جاوید اقبال، جو پاکستان کا ایک بدنام سیریل کلر تھا، نے معصوم بچوں کو بہلا پھسلا کر اُنھیں قتل کیا اور اُن کے ساتھ وحشیانہ رویہ اپنایا۔ اُس کے جرائم اور اُس کی نفسیاتی حالت ناول کے بفلو بل کی شخصیت سے کافی مماثلت رکھتی ہے۔ جاوید اقبال نے بھی اپنے اعمال کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کی اور اپنی شناخت کے مسائل کو مجرمانہ رویے کی شکل میں ظاہر کیا۔
ناول کی کہانی ایک اور اہم موضوع کو اُجاگر کرتی ہے: ذہنی صحت کے مسائل اور اُن کے معاشرتی اثرات۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے واقعات میں بھی ایسے عناصر شامل ہوتے ہیں، جہاں افراد کی نفسیات کو نشانہ بنا کر اُنھیں خطرناک سرگرمیوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد تنظیمیں نوجوانوں کی ذہنی کم زوریوں کا فائدہ اٹھا کر اُنھیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ یہ عمل ناول میں ہانیبل لیکٹر کے اس انداز سے مماثل ہے، جہاں وہ دوسروں کی کم زوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنی مرضی مسلط کرتا ہے۔
ناول کا مثبت پہلو کلیریس اسٹارلنگ کا کردار ہے، جو مشکلات کے باوجود ہمت اور حوصلے کی علامت ہے۔ کلیریس، جو اپنے ماضی کے صدمے سے نبرد آزما ہے، ایک مضبوط اور ذہین خاتون کے طور پر ابھرتی ہے۔ اُس کا کردار واضح کرتا ہے کہ صحیح رہ نمائی اور تربیت کے ذریعے ذہنی دباو اور مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
’’دی سائلنس آف دی لیمبز‘‘ جیسے ناول ہمیں یہ سمجھنے کا موقع دیتے ہیں کہ ذہنی مسائل کو نظر انداز کرنا کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔ آج کے معاشرے میں ذہنی صحت کے مسائل عام ہوتے جا رہے ہیں، لیکن ان کے بارے میں شعور کی کمی ہے۔ ہمیں نہ صرف ان مسائل کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، بل کہ ایسے افراد کی مدد بھی کرنی چاہیے جو ان مشکلات کا شکار ہوں۔
یہ صرف ایک ناول نہیں، بل کہ انسانی نفسیات اور معاشرتی رویوں کے بارے میں ایک گہرا مطالعہ ہے۔ یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ذہنی مسائل کو سمجھنا اور اُن کا حل تلاش کرنا ہماری اجتماعی ذمے داری ہے۔ ڈاکٹر ہانیبل لیکٹر اور کلیریس اسٹارلنگ جیسے کرداروں کے ذریعے یہ ناول ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ ذہنی صحت کی دیکھ بھال اور مثبت رویوں کو فروغ دینا ایک محفوظ اور خوش حال معاشرے کے لیے ضروری ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔