کبھی خواب نہ دیکھنا (پنتالیس ویں قسط)

Blogger Riaz Masood

ابھی شانگلہ کو ضلع قرار نہیں دیا گیا تھا اور وہ اب بھی سوات کا ایک سب ڈویژن تھا۔ چناں چہ 1989/90ء میں ہمارے بلڈنگ پروجیکٹ ڈویژن سیدو شریف کو الپورئی منتقل کرنے اور وہاں ہائی وے سب ڈویژن قائم کرنے کا حکم دیا گیا۔ چناں چہ ایس ڈی اُو شیر شاہ خان، سب انجینئرز عبدالرؤف طوطا، ایس ایم طارق اور مَیں، ایس ڈی اے جنگریز کے ساتھ الپورئی پہنچ گئے۔ وہاں رہایش کی سہولت تھی اور نہ دفتر کی۔ ہم نے پہلے سے موجود بلڈنگ سب ڈویژن کے ایک کمرے میں دفتر کھولا۔ ایس ڈی اُو اسی دن سیدو واپس آیا جہاں گل کدہ نمبر 2 میں اس کا گھر تھا۔
ہم نے رات ایس ڈی اُو بلڈنگ محمد نظر خان کی رہایش گاہ پر گزاری۔ نظر خان کا تعلق آغل گاؤں سے تھا اور بہت سادہ طبیعت کے، سیدھے سادھے اور ایمان دار شخص تھے۔ کسی سرکاری ادارے میں ایمان داری اور کارکردگی بدترین خرابیاں ہیں، جو ترقی اور قدر دانی کے تمام دروازے بند کر دیتی ہیں۔ بس آپ کو کمانا چاہیے اور اپنی بالائی آمدنی کا کافی حصہ اپنے اعلا افسران کو دینا چاہیے، چاہے آپ کے پاس اتنا ہی رہ جائے کہ آپ زندہ رہیں۔ کمائی نہ کرنے والا عملہ پروموشن کے لیے نااہل سمجھا جاتا ہے۔ نظر خان ایک قابل انجینئر تھے، لیکن اپنے اعلا افسران کو خوش کرنے کے حربے نہیں جانتے تھے۔ اس لیے اعلا افسران کے دوروں میں ان کے ساتھ ہمیشہ بدتمیزی کی جاتی تھی اور اکثر اپنے ماتحتوں کے سامنے اُن کا مذاق اُڑایا جاتا تھا۔ خیر، مَیں یہ کَہ رہا تھا کہ ہم الپورئی میں خاصی ناگفتہ بہ حالت میں کام کر رہے تھے۔
اُس وقت ایک پراجیکٹ، کروڑہ تا چکیسر روڈ کی بہ حالی اور بلیک ٹاپنگ پر کام جاری تھا۔ ہمیں اس منصوبے کا کچھ بھی علم نہیں تھا۔ اخراجات ہو رہے تھے، مگر سائٹ پر کام نظر نہیں آ رہا تھا۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ پراجیکٹ "ACE”، سوات میں زیرِ تفتیش ہے، لیکن سب انجینئر انچارج ایک انسپکٹر کو رشوت دے کر ایف آئی آر کے اندراج کو روک رہا ہے۔ سب سے پہلے ہم تین "musketeers” نے سڑک کی لمبائی کی جانچ کی۔ سڑک 30 کلومیٹر سے زیادہ تھی، جب کہ تکنیکی طور پر منظور شدہ تخمینہ اور ڈرائنگ میں اسے 28 کلومیٹر دکھایا گیا تھا۔ اب اگر ہم تخمینہ پر نظرِ ثانی کرتے، تو اس کا نتیجہ یقینی طور پر تمام سابقہ عملے کے خلاف انکوائری اور تنزلی کی صورت میں نکلتا۔ ہمیں افسران کو بھی بچانا تھا اور منظور شدہ بجٹ میں اضافی دو کلومیٹر کو بھی ایڈجسٹ کرنا تھا۔ مَیں نے مشورہ دیا کہ ہم کٹائی کے کام میں کافی رقم بچاسکتے ہیں جوکہ مبالغہ آمیز حد تک زیادہ تھا۔ اسی پر اتفاق ہوا۔
در حقیقت، پہاڑی سڑکوں میں زمین کی کٹائی ایک بہت منافع بخش کام ہے اور ٹھیکہ دار اکثر طے شدہ مقدار سے زیادہ کام کرتے ہیں، تاکہ حکومت سے زیادہ پیسے اینٹھ سکے۔ لہٰذا مَیں نے چکیسر کے لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے طور پر سارے پروجیکٹ کو بہ ذاتِ خود دیکھنا اپنا فرض سمجھا۔ کیوں کہ انھوں نے نہ صرف ریاستی دور میں، بل کہ 1974ء کے زلزلہ کے بعد میرے ہنگامی دورے کے دوران میں میری بہت مدد کی تھی۔ مجھے اپنے دو ساتھیوں عبدالرؤف اور ایس ایم طارق پر یقین تھا کہ ہماری مشترکہ کاوشیں اس منصوبے کو نہ صرف مقررہ وقت میں، بل کہ منظور شدہ تخمینے کے اندر مکمل کرلیں گی۔
دریں اثنا، اسی سال جون سے پہلے عبدالرؤف نے اپنا تبادلہ سیدو کروا لیا۔ کیوں کہ وہ بہت سے افسروں کے پسندیدہ تھے۔ 30 جون کو، (مَیں اس سال کے بارے میں الجھن میں ہوں، ہوسکتا ہے کہ یہ 1993ء ہو)، مجھے ایکس ای این امیر کمال نے اپنے دفتر میں بلایا اور فنڈ کی پوزیشن کے بارے میں پوچھا۔ مَیں نے اسے بتایا کہ ہمارے پاس دس لاکھ سے زیادہ رقم ابھی بھی بیلنس میں ہے، لیکن سائٹ پر کوئی کام نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ فنڈز ختم ہونے دیں، لیکن مسٹر ایکس کو کوئی ادائی نہ کریں۔ مَیں نے اسے بتایا کہ مذکورہ ٹھیکہ دار میرے سیکشن میں نہیں ہے، لیکن میں ایس ایم طارق کو احکامات پہنچا دوں گا۔ ایک گھنٹے کے بعد مسٹر ایکس میرے دفتر کے کمرے میں داخل ہوئے اور مجھ سے تمام رقم کا بل اپنے نام تیار کرنے کو کہا۔ مَیں نے "XEN” کے حکم کے مطابق انکار کر دیا۔ اس نے طنزیہ انداز میں کہا کہ جو وہ چاہے گا، جلد ہوجائے گا۔
چند منٹوں کے بعد، مجھے "XEN” نے بلایا اور اس نے مجھے مسٹر ایکس کو تمام بیلنس رقم جاری کرنے کی ہدایت دی۔ مقامی ایم پی اے ایکس ای این کے ساتھ موجود تھا۔ ایم پی اے اپنی آنکھوں میں شرارت بھری چمک لیے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ مَیں نے انکار کر دیا اور چند منٹ پہلے ایکس ای این کو ان کی ہدایات یاد دلائیں۔ وہ بہت غصے میں آیا اور کہا کہ اس کے حکم پر عمل کیا جانا چاہیے۔ مَیں نے جواب دیا کہ مَیں بل تیار کر لوں گا، لیکن اس پر دستخط نہیں کروں گا۔
مجھے علم نہیں کہ میرے دستخط کے بغیر ادائی کیسے کی گئی اور…… اس کے نتیجے میں میرا تبادلہ چترال ہوگیا۔
یہ مسٹر ایکس ایک نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا، جس کا اپنے علاقے میں کوئی نمایاں مقام نہیں تھا۔ لیکن اس کی سرپرستی اسی سیاسی شخصیت نے کی اور چند ہی دنوں میں اس نے تصور سے بھی زیادہ دولت جمع کرلی۔
نوٹ از مترجم:۔ الیگزینڈر ڈوما کے 1844ء کے ناول "The Three Musketeers” میں، تین کردار ایتھوس، پورتھوس اور آرامس اپنے ساتھی ڈی ارتانیان کے ساتھ ایک مہم پر روانہ ہوتے ہیں۔ یہ ناول ان کی وفاداری، بہادری اور دوستی پر مشتمل ہے۔ اس تناظر میں، لفظ ’’مسکیٹیئر‘‘ بھائی چارے، عزت اور وفاداری کے اصول کی علامت بن گیا ہے، جسے ان کے مشہور قول ’’سب ایک کے لیے، اور ایک سب کے لیے!‘‘ میں بیان کیا گیا ہے۔
(جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے