سوشل میڈیا نے ہمارا سکون غارت کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ ہماری زندگی میں اس حد تک دخیل ہوگیا ہے کہ اس نے تمام تر پرائیویسی کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ ماحول، حالات اور اقدار تک سوشل میڈیا نے تبدیل کر دی ہیں۔ ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں۔ کل تک جن چیزوں، باتوں اور اعمال کو چھپایا جاتا تھا، آج اُن کی تشہیر کرکے ذہنی تسکین حاصل کی جاتی ہے۔
ابھی چند سال پہلے تک شاپنگ بیگ کے استعمال کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لوگ بازار میں خریداری کے لیے جاتے وقت کپڑے کا تھیلا ساتھ رکھتے تھے۔ خصوصاً کھانے پینے کی چیزیں لاتے وقت اس بات کا خیال رکھتے کہ لوگوں کی نظر ان اشیا پر نہ پڑے۔ اس احتیاط کے دو مقاصد ہوا کرتے تھے۔ پہلا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کی بدنظری سے چیز محفوظ رہے۔ دوسرا مقصد یہ ہوتا تھا کہ جو لوگ وہ چیز خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، اُنھیں احساسِ کم تری سے بچایا جاسکے۔
وقت بدلا، تو یہ اقدار اور ہماری عادتیں بھی بدل گئیں۔ اَب ہم میں سے اکثریت نمود و نمایش کی عادی ہوچکی ہے۔ ہم برانڈڈ اشیا کی خریداری کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ چیز خرید کر گھر کی طرف روانہ ہوں، تو کوشش ہوتی ہے کہ برانڈڈ لوگو کی پیکنگ یا شاپنگ بیگ پر سب کی نظر پڑے، تاکہ دوسروں کو ہماری پسند کے معیار کا پتا چل سکے۔ ہم پیزا، برگر، شوارما یا کھانا کھانے کے لیے باہر جائیں، تو بڑے فخر سے اپنی خور و نوش کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرکے ساتھ کیپشن لگانا بھی نہیں بھولتے۔ سفر میں ہوں، تو اس کی ویڈیوز اور تصاویر ساتھ ساتھ شیئر کرتے جاتے ہیں۔ کسی پُرفضا یا تاریخی مقام کی سیر کو جائیں، تو اُس کی لمحہ بہ لمحہ دستاویزی روداد سے سب کو آگاہ رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ قربانی کے جانوروں کی خریداری سے لے کر ذبح کرنے تک اور پھر اُس سے بنی ہوئی مختلف ڈشز سے دوسروں کو باخبر رکھنے کی عادت ہماری جبلت میں رچ بس چکی ہے۔ سینما یا تھیٹر دیکھنے جائیں، تو تب تک دوسرے ہمارے دعوے پر یقین نہیں کرتے، جب تک ہم تصویری ثبوت سامنے نہیں رکھتے۔
ہم نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ غیر محسوس انداز میں ہم نے اپنی پرائیویسی کو پرائیویسی نہیں رہنے دیا۔ اپنی ذاتی زندگی کی مصروفیات کی تشہیر کرکے ہم دوسروں کو اپنی نجی زندگی میں دخل اندازی کا موقع دے رہے ہیں۔ ہم فخریہ انداز میں اپنی مہنگی خریداریوں کی تشہیر کرکے اپنے سٹیٹس اور حالات سے دوستوں اور واقف کاروں ہی کو ہی نہیں، بل کہ جرائم پیشہ افراد کو بھی آگاہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں احساس ہی نہیں کہ اپنی خوش گوار ازدواجی زندگی کے اشتہار شائع کرکے ہم بدخواہوں کو سازشیں کرنے کے مواقع دے کر اپنی زندگی میں کیسے زہر گھول رہے ہیں۔ کیسے ہم اپنے بچوں کو لگژری سٹائل میں دکھا کر اِغوا کاروں کی توجہ اپنے گھر کی طرف مبذول کر رہے ہیں۔ اس پر ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا۔ اپنی نقل و حمل کو سوشل میڈیا پر شیئر کرکے ہم وارداتیوں کو گھر میں اپنی عدم موجودگی کی خود ہی مخبری کرتے ہیں اور واردات ہونے کے بعد جب یہ تبصرہ سنتے ہیں کہ اس میں کسی گھر کے بھیدی کا ہاتھ لگتا ہے، تو تب بھی ہمیں یہ خیال نہیں آتا کہ گھر کا وہ بھیدی ہم خود ہی ہیں، جس نے جرائم پیشہ افراد کو اپنے گھر میں واردات کرنے کے لیے راغب کیا ہے۔
یاد رکھیے! آپ کی کام یابیوں پر ہر کوئی خوش نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا پر لائیکس، ویوز اور اچھے تبصرے زیادہ تر جعلی ہوتے ہیں۔ آپ صرف اپنی طرف بری نظروں کا رُخ کر رہے ہیں۔ آپ کو نہیں علم کہ آپ کی تصاویر، ویڈیوز اور شیئر کیے گئے حقائق کو کون کون محفوظ کر رہا ہے؟ کون کون آپ کی اَپ ڈیٹس کی جانچ پڑتال کر رہا ہے؟ آپ کو سوشل میڈیا پر اپنا ذاتی کچھ بھی شیئر کرتے وقت انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ یہ آپ کی زندگی، خاندان، شادی اور کیریئر کو تباہ کرسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کو محض تفریح یا وقت گزاری نہ سمجھیں۔ یہ شیطانوں کی آنکھ، کان اور منھ بن چکا ہے۔ یہ دلدل ہے، اس میں دھنسنے سے گریز کریں۔ سوشل میڈیا شیطانوں کا جال ہے، اس میں نہ پھنسیں۔ اپنی نجی زندگی کو نجی زندگی ہی رہنے دیں۔
کہتے ہیں کہ ایک گھر میں 3 ڈاکو گھس گئے۔ انھوں نے گھر کی خواتین کو باندھا اور لوٹ مار شروع کر دی۔ اُن میں سے ایک نے اپنے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا۔ وہ اُن کا لیڈر لگ رہا تھا۔ لیڈر نظر آنے والا ڈاکو ہاتھ میں پستول پکڑ کراطمینان سے کرسی پر بیٹھ گیا اور اپنے ساتھیوں کو ہدایات دینے لگا۔ اُس نے ایک ساتھی کو اوپری کمرے میں بھیجتے ہوئے بتایا کہ دروازے کے دائیں جانب الماری ہے۔ اُس کی نچلی دراز سے زیور نکال لائے۔ دوسرے سے کہا کہ سامنے والی خواب گاہ کے بیڈ کے سرہانے والی سائیڈ پر ایک دراز ہے۔ اُس میں سے کرنسی نوٹ نکال لائے۔ وہ اسی طرح اپنے ساتھیوں کو ہدایات دیتا رہا اور وہ بتائی ہوئی جگہوں سے زیور، کرنسی نوٹ اور دوسری قیمتی اشیا لاتے رہے۔ خاتونِ خانہ اور ان کی بیٹیاں حیران تھیں کہ گھر اور اس میں پڑی اشیا کے بارے میں اس قدر مکمل معلومات ڈاکوؤں تک کیسے پہنچیں؟ اُن کی حیرانی میں اُس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب لیڈر نے لوٹا ہوا مال ایک تھیلے میں ڈالنے کے بعد گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ابھی ہمارے پاس سوا گھنٹا باقی ہے۔ کیوں نہ کچھ کھا پی لیا جائے۔ پھر اُس نے جواب سنے بغیر اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ آج دوپہر کو اس گھر میں کھیر بنی تھی، جو انھوں نے رات دس بجے کھانی تھی۔ فریج سے وہی کھیر نکال لاؤ، یہ لوگ دوبارہ بنا لیں گے۔ خاتونِ خانہ کی آنکھیں پھٹنے کے قریب تھیں۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ کہیں اُن کا شوہر ہی تو ڈکیتی میں ملوث نہیں، جس نے اس قدر جامع مخبری کی ہے اور موقع سے غائب ہونے کے لیے خود گھر کے دوسرے مردوں کے ساتھ فلم دیکھنے چلا گیا ہے۔ ڈاکوؤں نے اطمینان سے کھیر کھائی۔ لوٹا ہوا سامان اُٹھایا اور گھر سے باہر جانے کے لیے دروازے کی طرف بڑھے۔ دروازے پر پہنچ کر ڈاکوؤں کے لیڈر نے مڑ کر دیکھا اور خاتونِ خانہ سے مخاطب ہو کر بولا، ’’محترمہ! آپ ہماری ایکیوریٹ معلومات پر حیران تو ہو رہی ہوں گی۔ مَیں آپ کی حیرانی دور کیے دیتا ہوں۔ دراصل آپ اور مَیں فیس بک فرینڈز ہیں۔ یہ معلومات سٹیٹس، ویڈیوز اور پوسٹوں کے ذریعے آپ نے خود ہم تک پہنچائی ہیں۔ آج آپ نے یہ پوسٹ لگا کر ہمارا کام آسان کردیا کہ گھر کے سب مرد سینما ہال میں فلم دیکھنے جا رہے ہیں۔‘‘ یہ کَہ کر اُس نے دروازہ کھولا اور اطمینان سے چلا گیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
