سوات میں خواتین کے اولین تعلیمی ادارے

Blogger Riaz Masood

جہاں تک مجھے یاد ہے ، ہمارے سکول میں کسی حد تک مخلوط طرزِ تعلیم تھی۔ جب ہم شگئی، سیدو شریف میں ایک سکول میں داخل ہوئے، تو تقریباً ہر کلاس میں لڑکیاں پڑھ رہی تھیں۔ وہاں سوات ریاست کے اعلا افسران کی بھی کچھ لڑکیاں آٹھویں سے دسویں جماعت میں داخل تھیں۔ چند لڑکیاں پشاور کے ’’لیڈی گریفتھ ہائی سکول‘‘ میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور وہاں ہوسٹل میں رہتی تھیں۔ ان میں سے ایک نے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور بعد میں مسکن انسٹی ٹیوٹ اور سنٹرل ہسپتال کے پچھلی طرف ایک ذیلی روڈ پر نئے تعمیر شدہ سکول میں ہیڈ مسٹریس کے طور پر خدمات انجام دیں۔
یہ سیدو اور مینگورہ کے جڑواں شہروں کے بیچ میں واقع لڑکیوں کے لیے پہلا ہائی سکول تھا۔ اس کے بعد مینگورہ میں حاجی بابا روڈ پر لڑکیوں کے لیے ایک بڑا سکول قائم کیا گیا۔ گرلز ہائی سکول، سیدو شریف میں بورڈنگ کی سہولت بھی موجود تھی۔ یہ سکول اب بھی اچھی حالت میں ہے، حالاں کہ اسے بنے 62 سال ہوچکے ہیں۔ اس کی دو منزلہ عمارت ہے۔ پہلی منزل پر کلاس رومز، دفتر اور سٹاف روم ہیں۔ دوسری منزل پر بورڈنگ کے لیے رہایشی کمرے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آیا اب بھی یہ رہایشی کمرے وہاں ہیں کہ نہیں؟ مشرقی جانب ایک باورچی خانہ تھا، جو ہاسٹل کے ساتھ ایک اوور ہیڈ راستے کے ذریعے جڑا ہوا تھا، جو گول ستونوں پر کھڑا تھا۔
مزید برآں، عملے کے لیے دس یا زیادہ رہایشیں بھی تھیں۔ اس سکول کو والی صاحب کی طرف سے 40 سیٹوں والی ایک بس فراہم کی گئی تھی، جو طالبات کو بلوگرام اور آس پاس کے دیہاتوں تک لے آتی اور واپس لے جاتی تھی۔ یہ عمارت منفرد طرز کی تھی، جو طلبہ کو گھریلو احساس فراہم کرتی تھی۔
اب افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ متعلقہ حکام اسے مسمار کرنے والے ہیں۔ کیوں کہ طلبہ کو دوسرے سکول میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ براہِ کرم اس سکول کا موازنہ تقریباً 20 سال بعد تعمیر کردہ پرنسپل کی رہایش سے کریں۔ معیار خود ہی بولے گا۔
خدارا! سوات ریاست کے قابلِ استعمال آثار کو تو محفوظ رکھیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے