تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدیؐ اور جمہوریت کی مخالفت

Blogger Doctor Gohar Ali

تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدیؐ (ٹی این ایس ایم) کا جمہوریت کے خلاف موقف ہمیشہ سے سخت رہا ہے۔ تحریک کے سربراہ صوفی محمد جمہوریت کو کفر اور اسلامی اُصولوں کے منافی قرار دیتے تھے۔ ان کے نزدیک جمہوریت کا تصور مغرب سے آیا، جہاں مذہب کو دنیاوی معاملات سے الگ کر دیا گیا۔ اس کے برعکس، اسلام میں سیاست اور مذہب کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ صوفی محمد کا موقف تھا کہ جمہوریت میں اکثریتی رائے کو فوقیت دی جاتی ہے، جب کہ اسلامی نظام میں حاکمیت صرف اللہ کی ہوتی ہے۔
صوفی محمد نے اپنی دلیل کے حق میں قرآن کی متعدد آیات پیش کیں، جن میں ’’ان الحکم الا للہ‘‘ اور ’’قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین‘‘ شامل ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ جمہوریت انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو تسلیم کرتی ہے، جو شرک کے مترادف ہے۔ انھوں نے مغربی جمہوریت کے بالغ رائے دہی کے اُصول کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جہاں عالم اور جاہل، مسلمان اور غیرمسلمان، مرد اور عورت سب کو برابر تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ اصول اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
صوفی محمد کے ان بیانات نے جمہوریت اور جمہوری نظام کے حوالے سے ان کے سخت گیر موقف کو واضح کیا۔ انھوں نے جمہوری سیاست کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ جمہوریت کے نظام کا حصہ ہیں، ان سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ حتیٰ کہ انھوں نے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام جیسی مذہبی جماعتوں کو بھی جمہوریت کا حامی قرار دے کر ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کیا۔
تاہم، اس سخت موقف کے باوجود، 2002ء کے جنرل انتخابات کے دوران میں ’’ٹی این ایس ایم‘‘ پر متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے حق میں مہم چلانے کا الزام لگا۔ یہ ایک حیران کن امر تھا، کیوں کہ ’’ایم ایم اے‘‘ بھی جمہوری نظام کے ذریعے شریعت کے نفاذ کی بات کرتی تھی، جو ٹی این ایس ایم کے موقف کے خلاف تھا۔ اس الزام نے صوفی محمد کی پوزیشن پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے۔ اگرچہ صوفی محمد اور ان کے حامیوں نے ہمیشہ جمہوریت کو کفر قرار دیا، لیکن ایم ایم اے کے لیے حمایت کا الزام تحریک کے اندر تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔
اس تضاد کی ممکنہ وجوہات میں عملی مصلحت پسندی یا سیاسی دباو شامل ہوسکتے ہیں۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ٹی این ایس ایم نے اپنے نظریاتی موقف کو وقتی طور پر نظرانداز کرتے ہوئے ایم ایم اے کی حمایت کی۔ کیوں کہ دونوں جماعتیں شریعت کے نفاذ کے لیے کام کر رہی تھیں۔ اگرچہ ان کے طریقے مختلف تھے۔ دوسری طرف، اس بات کی بھی گنجایش ہے کہ یہ الزام محض مخالفین کی جانب سے ٹی این ایس ایم کو بدنام کرنے کے لیے لگایا گیا ہو۔
اس تمام صورتِ حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدیؐ کا جمہوریت کے خلاف سخت موقف ایک واضح نظریاتی بنیاد رکھتا تھا، لیکن عملی سیاست میں بعض اوقات یہ نظریہ تضاد کا شکار ہو سکتا تھا۔ ایم ایم اے کے حق میں مہم کے الزامات اس تضاد کی مثال ہیں، جن کی وضاحت یا تصدیق خود ٹی این ایس ایم کی قیادت نے کبھی واضح طور پر نہیں کی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے