ضلعی انتظامیہ اور برائب سنڈیکیٹ

Blogger Tauseef Ahmad Khan

قارئین پچھلی تحریر میں ہم نے رشوت ستانی اور اُن عناصر پر روشنی ڈالی تھی، جو اس بدعنوانی کے جمودی نظام کو تقویت دیتے ہیں۔ اس تحریر میں ہم اس بات کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ کرپشن، خاص طور پر رشوت ستانی، کس طرح اس نظام کی بنیاد ہے اور یہ پورا ڈھانچا کیسے کام کرتا ہے؟ ہم یہ بھی واضح کریں گے کہ عوام کو کس طرح ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت رشوت کے جال میں پھنسایا جاتا ہے۔
جو افراد ان اداروں میں موجود کرپٹ افسران اور سیاسی رہ نما جو حکومت کا حصہ ہوتے ہیں، کے وفادار یا چاپلوس ایسی باتوں کو محض خیالی کہانیاں قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایسا کچھ ہوتا ہی نہیں۔ وہ عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ فُلاں افسر یا سیاسی رہ نما انتہائی دیانت دار ہیں، ان کی ایمان داری کے قصے سناتے ہیں اور انھیں ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں۔ درحقیقت، ان کے اپنے مفادات اس نظام سے جڑے ہوتے ہیں اور وہ خود بھی اس کا حصہ بنتے ہیں۔
اصل میں ’’برائب سنڈیکیٹ‘‘ (Bribe Syndicate) میں صرف سرکاری اہل کار شامل نہیں ہوتے، بلکہ پرائیویٹ افراد بھی اس نیٹ ورک کا حصہ ہوتے ہیں۔ سیاسی رہ نما اپنے قریبی رشتہ داروں، جیسے: بیٹے، بھائی یا بھتیجوں کے ذریعے اس نیٹ ورک کو متحرک رکھتے ہیں اور کبھی کبھی اپنے چاپلوسوں کو بھی اسی کام پر لگا دیتے ہیں۔
مجھے یہ اندازہ تھا کہ کرپشن کے اس منظم نیٹ ورک میں سیاسی رہ نما اپنے قریبی رشتہ داروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں، لیکن یہ انکشاف میرے لیے حیران کن تھا کہ سول ایڈمنسٹریشن کے اعلا افسران بھی اپنے خاندان کے افراد یا دیگر ہم راز لوگوں کو بھی اس نظام کا حصہ بنالیتے ہیں۔
یہ حقیقت مجھے سوات کے سینئر صحافی فیاض ظفر صاحب کی ایک ویڈیو سے معلوم ہوئی، جس میں اُنھوں نے انکشاف کیا کہ کیسے ایک اعلا سرکاری افسر نے اپنے ماموں کو ’’برائب سنڈیکیٹ نیٹ ورک‘‘ میں شامل کیا، تاکہ ماتحت اہل کار رشوت کے تمام پیسے خود نہ ہڑپ کرسکیں۔
یہ انکشاف یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری مقامی سطح میں بھی بدعنوانی کس حد تک منظم اور گہرائی تک جڑیں پکڑ چکی ہے۔ لہٰذا ہم بھی ان کی جڑوں میں گھس کر اس نظام کو عوام کے سامنے بے نقاب کریں گے۔
فیاض ظفر صاحب واحد صحافی ہیں، جو اس نظام کی گہرائیوں اور اس کے کرپٹ پیچیدہ ڈھانچے سے بہ خوبی واقف ہیں۔ ان کی بصیرت ہمیں اس نیٹ ورک کی حقیقت کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’برائب سنڈیکیٹ‘‘ کیا ہے؟
برائب سنڈیکیٹ سرکاری اور نجی اداروں میں موجود بدعنوان عناصر اور سیاسی شخصیات جو حکومت وقت کا حصہ ہوتے ہیں، پر مشتمل ایک منظم نیٹ ورک ہوتا ہے، جو رشوت کے ذریعے عوام کو لوٹتا ہے اور اُن کو اپنے قانونی حق سے محروم کرتا ہے، نیز ’’ریڈ ٹیپ ازم‘‘ (Red Tapism) کو فروغ دیتا ہے۔ یہ نیٹ ورک ایک جانب سول انتظامیہ کی ادارہ جاتی نظام کو کم زور کرکے شفافیت کو ختم کرتے ہوئے عوام کے بنیادی حقوق کو پامال کرتا ہے، تو دوسری جانب سیاسی شخصیات کے لیے عوامی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کرتا ہے۔
’’برائب سنڈیکیٹ‘‘ کا آغاز عموماً سیاسی شخصیات سے ہوتا ہے، جو اپنے قریبی افراد یا وفادار ساتھیوں کو اہم سرکاری یا نیم سرکاری عہدوں پر تعینات کرتی ہیں۔ یہ نیٹ ورک سول انتظامیہ سے لے کر مختلف اداروں تک پھیلا ہوا ہے، جن میں محکمۂ صحت، تعلیم، جنگلات، مواصلات و تعمیرات (C&W)، لینڈ اینڈ ریونیو، پاسپورٹ دفاتر، پولیس، عدلیہ، کسٹمز، ٹیکس ڈیپارٹمنٹ، واپڈا، بلدیاتی ادارے، بینکنگ سیکٹر اور ہاؤسنگ سوسائٹیز وغیرہ شامل ہیں۔
وہ سیاسی شخصیات جو حکومت کا حصہ ہوتی ہیں، یا تو خود بہ راہِ راست رشوت لیتی ہیں، یا اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے سرکاری افسران اور عملے کو بدعنوانی میں ملوث کرتی ہیں۔ یہ لوگ اپنے حلقوں میں ایسے بدعنوان افسران کو جان بوجھ کر تعینات کرتے ہیں، جو اُن کے ذاتی مفادات کو آگے بڑھائیں۔ ترقیاتی فنڈز کا بے جا استعمال، میرٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے بھرتیوں میں من پسند افراد کی تعیناتی اور قومی وسائل کا غلط استعمال ان کی عام روش ہے۔ جعلی ٹینڈرنگ، غیر معیاری منصوبے اور ناجائز ٹھیکے دینے کے ذریعے قومی خزانے کو شدید نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ پسندیدہ افراد یا کمپنیوں کو نواز کر ان سے ذاتی کمیشن یا رشوت وصول کی جاتی ہے، جس کا نتیجہ ناقص منصوبوں اور عوامی حقوق کی پامالی کی صورت میں نکلتا ہے۔
اگر ہم مقامی سطح پر نظر ڈالیں، تو واضح ہوتا ہے کہ اکثر سیاسی شخصیات سرکاری ٹھیکے اپنے من پسند افراد کو دلواتی ہیں۔ پچھلے 10 سالوں میں شاید ہی کوئی ایسا منصوبہ پایۂ تکمیل تک پہنچا ہو، جو معیار پر پورا اُترا ہو۔ ان سیاسی لوگوں کی توجہ ترقیاتی منصوبوں کی جانچ پڑتال یا ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ پر نہیں ہوتی، بل کہ صرف فنڈز پر مرکوز ہوتی ہے۔ اکثر ان کے پاس یہ اہلیت ہی نہیں ہوتی کہ یہ طے کر سکیں کہ آیا یہ منصوبہ مختص فنڈز میں مکمل ہو سکتا ہے یا نہیں۔ ان کا واحد مقصد کمیشن اور رشوت کے ذریعے اپنی جیبیں گرم کرنا ہوتا ہے۔
زیادہ تر سرکاری ٹھیکے رشوت کے عوض دیے جاتے ہیں اور ان منصوبوں کو ناقص میٹریل کے استعمال ہی سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک مَیں نے کسی بھی سیاسی یا حکومتی اہل کار کو ترقیاتی منصوبوں کا خود جائزہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ٹینڈرنگ کا پورا عمل شفافیت سے خالی ہوتا ہے، جو رشوت اور کمیشن کے گھناؤنے چکر میں پھنسا ہوا ہے۔
سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ ناقص کام کرنے والے ٹھیکے دار کو نہ صرف قانونی اور اخلاقی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، بل کہ اُسے مزید ٹھیکے بھی دیے جاتے ہیں، جو ان سیاست دانوں کی بدعنوانی کا واضح ثبوت ہے۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف عوامی وسائل کے ضیاع کا باعث بنتا ہے، بل کہ عوام کے اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ اس نظام نے ترقیاتی منصوبوں کو عوامی خدمت اور ملک کے ترقی کے بہ جائے ذاتی مفاد کی تکمیل کا ذریعہ بنا دیا ہے۔
یہ واضح حقیقت ہے کہ سرکاری ٹھیکے دینا بہ راہِ راست کسی ایم پی اے یا ایم این اے (ممبر صوبائی یا قومی اسمبلی) کی ذمے داری نہیں۔ یہ عمل سرکاری محکموں، انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹس یا دیگر متعلقہ اداروں کے ذریعے قانونی اور شفاف طریقۂ کار کے تحت انجام پاتا ہے، جیسا کہ ٹینڈرنگ کا عمل ہوتا ہے۔ ایم پی اے یا ایم این اے کا کردار صرف ترقیاتی منصوبوں کی ضرورت کی نشان دہی اور فنڈز کی منظوری کے لیے سفارش کرنے تک محدود ہے۔ ٹینڈرنگ کے عمل میں بہ راہِ راست مداخلت ان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔
اصل میں ایم پی اے یا ایم این اے کا بنیادی کام قانون سازی، عوامی مسائل کی نشان دہی اور ان کے حل کے لیے پالیسی سازی ہے، نہ کہ ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکے تقسیم کرنا۔
اُصولی طور پر، ٹینڈرنگ اور ٹھیکوں کا عمل متعلقہ اداروں کی ذمے داری ہے، جب کہ سیاسی نمایندوں کا کام ان منصوبوں کی نگرانی اور چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔
تاہم، بدقسمتی سے، ہمارے ہاں یہ پراسس اُلٹ ہوچکا ہے۔ ٹینڈرنگ کے فیصلے اکثر ایم پی اے کے بند کمروں میں کیے جاتے ہیں، جہاں رشوت اور ذاتی مفادات کی بنیاد پر ٹھیکے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقیاتی منصوبے تاخیر کا شکار ہوجاتے ہیں اور ناقص میٹریل کے استعمال کی وجہ سے جلد ہی ناکارہ ہو جاتے ہیں۔
اب ہم اس حقیقت پر روشنی ڈالیں گے کہ یہی سیاسی افراد کس طرح سول انتظامیہ کو سبوتاژ کرتے ہیں اور مختلف محکموں میں یا تو اپنے من پسند افسران کا تبادلہ کرواتے ہیں، یا بھرتی کے عمل میں میرٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے وفادار افراد کو نوکریاں دلواتے ہیں…… لیکن اس نظام کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ سیاسی لوگ کلاس فور یا نچلے درجے کی نوکریوں میں اتنی دل چسپی کیوں رکھتے ہیں؟
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر حلقے کا ایم پی اے، ایم این اے، یہاں تک کہ وزیرِ اعلا بھی کلاس فور نوکریاں اپنے وفاداروں اور چاپلوس افراد کو دیتے ہیں۔ حالاں کہ سیاسی رہ نماؤں کی بنیادی ذمے داری نوکریاں دینا ہر گز نہیں۔ اس کے باوجود، یہ لوگ سرکاری ملازمتوں کو اپنی سیاسی طاقت کو بڑھانے اور مستحکم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ کلاس فور اور نچلے درجے کی ملازمتوں کی اہمیت اس بات سے جڑی ہوئی ہے کہ سیاسی افراد اپنے حلقے میں اپنا ووٹ بینک مضبوط رکھ سکیں۔ اگر ووٹ بینک کم ہوجائے، تو وہ سیاسی منظرنامے سے باہر ہوجاتے ہیں اور سیاست میں ان کا اثر و رسوخ ختم ہوجاتا ہے۔ اپنے ووٹ بینک کو مضبوط رکھنے کے لیے سیاسی رہ نما اپنے قریبی وفاداروں کو مختلف سرکاری محکموں میں بھرتی کرواتے ہیں، خاص طور پر کلاس فور اور دیگر نچلے درجے کی نوکریوں پر ایک منظم جال کا حصہ ہوتی ہیں، جس کا ہم نے ذکر کیا۔ یہی افراد سیاسی جلسے ، ریلیاں اور مہمات میں ان سیاسی رہ نماؤں کے لیے غیرقانونی خدمات سرانجام دیتے ہیں اور رشوت کے نظام کو مستحکم کرتے ہیں۔ یہ افراد ہر محکمے میں بدعنوانی کے سلسلے کو جاری رکھتے ہیں اور برائب سنڈیکیٹ کو تقویت بخشتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر تحصیل کی سطح پر اکٹھے ہونے والے رشوت کے بڑے حصے مخصوص سیاسی جماعتوں اور ان کے رہ نماؤں تک پہنچتے ہیں، جو اس بدعنوان نظام کو مزید تقویت دیتے ہیں۔ یوں یہ سیاسی نظام عوامی مفادات کے بہ جائے ذاتی مفادات کے گرد گھومنے لگتا ہے، اور بدعنوانی کا ایک وسیع نیٹ ورک تشکیل پاتا ہے، جو عوام کے وسائل اور اعتماد دونوں کو ختم کر دیتا ہے۔
سب سے پہلے جب بھی کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع ہوتا ہے، تو متعلقہ تحصیل میں ایسے افسران کا تبادلہ کیا جاتا ہے، جو سیاسی شخصیات کے اشاروں پر کام کرتے ہیں۔ یہ افسران ہر جائز و ناجائز کام پر سیاسی لوگوں کی حمایت کرتے ہیں اور بدلے میں سیاسی شخصیات انھیں حصہ دار بناتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کا ذاتی خرچہ بھی سیاسی لوگ اٹھاتے ہیں، تاکہ افسران ان کی مرضی کے مطابق فیصلے کریں اور منصوبوں میں رشوت کا سلسلہ جاری رہے۔
سیاسی لوگ سب سے پہلے ٹینڈرنگ کے عمل میں لوٹ مار کرتے ہیں، جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا۔ اس کے علاوہ، جب کسی منصوبے کے لیے پرائیویٹ زمینوں پر سیکشن فور لگتا ہے، تو ان زمینوں کے مالکان کو کچھ حد تک معاوضہ ملتا ہے۔ تاہم، جب یہ لوگ متعلقہ دفتر جاتے ہیں، تو وہاں کے افسران اور اہل کار جان بوجھ کر انھیں غیر ضروری مسائل اور دفتری پیچیدگیوں میں الجھا دیتے ہیں اور بعد میں کمیشن لے کر مالکانِ زمین کو معاوضہ دیتے ہیں۔ اس عمل میں رشوت کا ایک بڑا حصہ بٹورا جاتا ہے۔
مقامی سطح پر نظر ڈالیں، تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ پچھلے 10 سالوں میں کچھ ایسے افسران اور پٹواری موجود ہیں، جن کا تبادلہ نہیں ہوا۔ حالاں کہ ان میں سے کئی کو سیکڑوں بار شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے متعلقہ حلقوں ہی میں تعینات رہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ افسران سیاسی شخصیات کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں اور ان کی سرپرستی میں رہتے ہیں۔
یہ سیاسی شخصیات اپنے مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے ان افسران کو تحفظ فراہم کرتی ہیں اور ان کا تبادلہ ہونے نہیں دیتیں۔ یہ صورتِ حال اتنی سنگین ہے کہ کبھی کبھار سیاسی شخصیات کے درمیان کھینچا تھانی بھی شروع ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ ہر ایک اپنے من پسند اور کرپٹ افسر کو تعیناتی کی کوشش کرتا ہے۔ یوں، ان افسران کی بدعنوانی نہ صرف برقرار رہتی ہے، بل کہ سیاسی سرپرستی کی بہ دولت انھیں مزید ترقی ملتی ہے۔
سول انتظامیہ کی کرپشن اور لوٹ مار پر مزید بات کرنے سے پہلے، ہمیں ان کی ذمے داریوں کا جائزہ لینا ضروری ہے، تاکہ قارئین کو یہ سمجھنے میں مدد ملے کہ اتنی بڑی تنخواہیں لینے والے افسران اپنے اصل کام سے کیسے غفلت برت رہے ہیں۔ سول انتظامیہ کی ذمے داریوں میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا، جرائم پر قابو پانا اور شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا شامل ہے، جیسے تعلیم، صحت، پانی، صفائی اور انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال۔
اس کے علاوہ، قدرتی آفات جیسے زلزلہ یا سیلاب کی صورت میں فوری اقدامات کرنا، ریلیف اور ریسکیو کاموں کی نگرانی کرنا، سڑکوں، اسکولوں، اسپتالوں اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کرنا، حکومتی منصوبوں اور پالیسیوں کو نافذ کرنا، زمینوں کے معاملات اور جائیداد کی تقسیم، عدالتی احکامات کی تعمیل کرانا، صاف اور شفاف انتخابات کی نگرانی، ووٹنگ مراکز کا انتظام اور عملے کی تعیناتی، سرکاری ٹیکسوں اور ریونیو کی وصولی اور مالیاتی امور کی دیکھ بھال ان کی ذمے داریوں میں شامل ہے…… لیکن حقیقت یہ ہے کہ سول انتظامیہ کے افسران ان ذمے داریوں میں سے صرف دو فی صد کام اپنی مرضی سے سرانجام دیتے ہیں، جب کہ باقی تمام اُمور رشوت، گٹھ جوڑ، اقربا پروری اور دیگر غیر قانونی طریقوں پر مبنی ہوتے ہیں۔
جو سول انتظامیہ ہمیں نظر آتی ہے، اُسے ہم ’’سول انتظامیہ نما‘‘ کَہ سکتے ہیں۔ کیوں کہ اس کا اصل مقصد اور روح تقریباً مردہ ہوچکی ہے۔ اس پر اندھیروں کا غلبہ ہوچکا ہے۔ سول انتظامیہ کا کام عوام اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا ہے اور اس کی وسیع ذمے داریاں ہیں، جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا…… لیکن یہاں حقیقت میں حکومت اور سول انتظامیہ کے درمیان ایک گٹھ جوڑ (Collusion) پایا جاتا ہے، جسے "Maladministration” کہا جاتا ہے۔
سول انتظامیہ میں اہم عہدے پر فائز افراد میں ڈپٹی کمشنر (DC)، اسسٹنٹ کمشنر (AC)، تحصیل دار، پٹواری، پولیس افسران وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب مل کر ایک ایسا پیچیدہ اور جال بچھا چکے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس میں پھنس جائے، تو اس کے لیے نکلنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ یہ لوگ اوپر سے لے کر نیچے تک عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں، اور ان کی بدعنوانی کی چالاکیوں کے سامنے عوام بے بس ہو جاتے ہیں۔
مَیں آپ کو ایک مثال کے ذریعے سمجھاتا ہوں۔ فرض کریں کہ آپ کو زمین کے ریونیو یا کسی متعلقہ محکمہ سے کوئی مسئلہ درپیش آتا ہے، تو اس کا ایک واضع قانونی طریقۂ کار موجود ہے، لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ عمل حقیقت میں کیسے کام کرتا ہے اور سول انتظامیہ ہمارے مسائل کے حل میں ناکام کیوں ہے؟
جب آپ کسی دفتر میں درخواست جمع کرواتے ہیں، تو درخواست ایک مخصوص قانونی طریقۂ کار کے تحت رجسٹر کی جاتی ہے۔ اس عمل کو ’’ڈسپیچ ڈائری‘‘ کہتے ہیں۔ سب سے پہلے، آپ نے درخواست لکھ کر ضروری دستاویزات کی کاپیاں منسلک کرکے متعلقہ دفتر کے ریسیپشن یا متعلقہ برانچ (عام طور پر ’’ڈاک سیکشن‘‘) کے چپڑاسی کو حوالہ کرتے ہیں۔ درخواست جمع کرتے وقت، آپ کو ایک رسید دینا ہوتا ہے، جس پر آپ کی درخواست کا نمبر اور تاریخ درج ہوتی ہے۔ دفتر کا عملہ آپ کی درخواست کو ’’ڈسپیچ رجسٹر‘‘ میں درج کرتا ہے۔
اس رجسٹر میں درخواست کے وصول کنندہ (DC یا کسی اور افسر) کا نام، درخواست دہندہ کا نام، درخواست کا موضوع اور وصولی کی تاریخ لکھی جاتی ہے۔ درخواست کو ایک ڈائری نمبر دیا جاتا ہے، جو بعد میں آپ کی درخواست کی شناخت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے بعد درخواست کو ڈائری نمبر کے ساتھ متعلقہ افسر یا برانچ کو بھیجا جاتا ہے۔ یہ عمل ڈاکیا یا دفتر کے اندرونی عملے کے ذریعے سر انجام دیا جاتا ہے۔
اس کے بعد متعلقہ افسر درخواست کا جائزہ لیتا ہے اور اس پر کارروائی شروع کی جاتی ہے۔ یہ عمل تمام سرکاری دفاتر میں تقریباً یک ساں ہوتا ہے اور اس کا مقصد درخواستوں کو محفوظ طریقے سے ریکارڈ کرنا اور ان پر موثر کارروائی کرنا ہوتا ہے…… لیکن یہ ’’پراسس‘‘ ہمارے ہاں کبھی میرٹ کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ سو، ان مَیں سے ایک درخواست بھی اس قانونی طریقۂ کار سے نہیں گزرتا ۔ رشوت کی ابتدا بھی یہیں سے ہوتی ہے۔ جب کوئی درخواست کنندہ جاتا ہے، تو ان چپڑاسیوں کی نظر میں وہ ایک گاہگ کی مانند حیثیت رکھتا ہے۔
ڈسپیچ ڈائری کا عمل بہ ظاہر ایک سیدھا اور شفاف طریقۂ کار ہے، لیکن عملی طور پر اکثر دفاتر میں یہ رشوت ستانی اور کرپشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ عملہ درخواست کو ڈسپیچ رجسٹر میں درج کرنے میں جان بوجھ کر تاخیر کرتا ہے، تاکہ سائل کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ ’’خرچہ پانی‘‘ دے۔ سائل کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جب تک رشوت نہ دی جائے، اُس کی درخواست پر کارروائی ممکن نہیں۔
اگر کوئی سائل رشوت دینے سے انکار کر دے، تو اُس کی درخواست کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے، یا اُسے کم اہمیت دی جاتی ہے۔
بعض اوقات درخواست پر غیر ضروری اعتراضات لگا دیے جاتے ہیں، مثلاً کہا جاتا ہے کہ ’’دستاویزات مکمل نہیں‘‘یا ’’درخواست کا متن درست نہیں۔‘‘ ایسے اعتراضات کو دور کرنے کے بہانے رشوت طلب کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ یہ درخواست متعلقہ افسر سے متعلق نہیں، یا یہ معاملہ کورٹ کا ہے۔ جو لوگ اپنی درخواست پر فوری کارروائی چاہتے ہیں، اُن سے ’’ارجنٹ فیس‘‘ کے نام پر رشوت لی جاتی ہے۔ سائل کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ درخواست متعلقہ افسر تک پہنچانے کے لیے رشوت دے۔
مزید یہ کہ درخواست کو جان بوجھ کر متعلقہ افسر تک نہیں بھیجا جاتا، بل کہ کسی ایسے افسر کے پاس درخواست بھیج دی جاتی ہے، جو مزید رشوت طلب کرے۔ سائل کو درخواست کے اسٹیٹس کے بارے میں غلط معلومات دی جاتی ہیں، مثلاً ’’فائل گم ہوگئی ہے‘‘ یا ’’کارروائی زیرِ التوا ہے۔‘‘
سیاسی یا سماجی اثر و رسوخ رکھنے والے یا زیادہ رشوت دینے والے افراد کی درخواستوں پر فوری کارروائی ہوتی ہے، جب کہ دیگر سائلین کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ رشوت کے لیے بعض اوقات جعلی ڈائری نمبر جاری کر دیا جاتا ہے اور درخواست کو جان بوجھ کر روک دیا جاتا ہے، جب تک کہ سائل مزید رشوت نہ دے۔
ڈسپیچ سیکشن اور افسران کے درمیان اکثر اندرونی گٹھ جوڑ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں درخواست پر کارروائی کے ہر مرحلے پر رشوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ رشوت نہ دینے والے سائل کی درخواست یا تو غائب کر دی جاتی ہے، یا ایسی جگہ رکھ دی جاتی ہے جہاں سے اسے تلاش کرنا مشکل ہو۔ بعد میں درخواست کو نکالنے اورکاروائی شروع کرنے کے لیے سائل کو مجبوراً رشوت دینا پڑتی ہے۔
اگر آپ کی درخواست ڈسپیچ ڈائری سے نکل بھی جائے، تو جب یہ متعلقہ افسر کے پاس پہنچتی ہے، تو وہ عموماً درخواست کو دیکھے بغیر اسے کسی اور محکمے یا افسر کو ’’چھٹی‘‘ لگا کر مارک کر دیتا ہے۔ عام طور پر، درخواست میں مسئلے کو صحیح طریقے سے بیان نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے متعلقہ افسر کے ماتحت عملے کی جانب سے آپ کو الجھایا جاتا ہے۔ وہ یہ کَہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ ہم صرف افسر کے احکامات کے پابند ہیں۔ اس کے بعد درخواست کو دوبارہ چھٹی لگا کر کسی اور برانچ، محکمے یا پٹواری کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔
ہر محکمے یا برانچ کا اپنا الگ طریقۂ کار اور ’’رواج‘‘ ہوتا ہے، جو اکثر رشوت کے گرد گھومتا ہے۔ اگر آپ رشوت نہ دیں، تو کوئی رپورٹ دی جاتی ہے اور نہ کارروائی ہی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر درخواست ریونیو سے متعلق ہو، تو پٹواری یا گرداور آپ کے ساتھ موقع معائنہ تبھی کرتا ہے جب آپ اس کی مانگی ہوئی رشوت ادا کریں۔
پہلے وہ آپ کو مختلف دستاویزات جیسے عکس، فرد، کھتونی، یا فیلڈ بک وغیرہ لانے کا کہتا ہے۔ ان دستاویزات کی ایک باقاعدہ سرکاری فیس ہوتی ہے، لیکن جب آپ اسے حاصل کرنے جائیں، تو ’’ارجنٹ فیس‘‘ کے نام پر کم از کم 3 ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ یہ رشوت کا دھندا ہر تحصیل میں کھلے عام چل رہا ہے۔
سروس ڈیلوری سنٹر (ایس ڈی سی ) دفاتر میں بھی یہی حال ہے۔ یہاں بھی ریکارڈ میں خورد برد کی جاتی ہے اور نقولات نکلوانے کی فیس کا بڑا حصہ چند افسران اور سیاسی شخصیات ہڑپ کر جاتے ہیں۔ پہلے ان دفاتر میں کیمرے نصب تھے، جس سے کسی حد تک شفافیت رہتی تھی، لیکن اب یہ کیمرے ہٹا دیے گئے ہیں۔
مزید یہ کہ انتقال کا اندراج ایس ڈی سی دفتر میں ہوتا ہے، لیکن اس کی کاپی حاصل کرنے کے لیے ’’اُو کے‘‘ آفس جانا پڑتا ہے۔ یہاں بھی مختلف حیلے بہانے کرکے درخواست گزار کو اُلجھایا جاتا ہے، جیسے ’’ریکارڈ ہمارے پاس نہیں آیا‘‘ یا ’’تحصیل دار کے دستخط نہیں ہیں۔‘‘ ان حیلے بہانوں کی آڑ میں ایک نقل کی قیمت 5 سے 10 ہزار روپے یا اس سے بھی زیادہ وصول کی جاتی ہے۔
پٹواری اور دیگر عملہ موقع ملاحظہ کرنے کے لیے کمیشن پر تب تک نہیں جاتا، جب تک آپ ان کا ’’خرچہ‘‘ پورے نہ کرلیں اور ان کی مانگی ہوئی رشوت نہ دیں۔ وہ مختلف حیلے بہانے بنا کر آپ کا کیس التوا میں ڈال دیتے ہیں۔ آخرِکار، جب تک رشوت ادا نہ کی جائے، درخواست پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
سول انتظامیہ سے جڑے ہر سرکاری دفتر میں کرپشن اور لوٹ مار اپنے عروج پر ہے۔ اگرچہ کچھ ایماندار افسران اور اہل کار موجود ہیں، مگر اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس نظام کے ساتھ ان کا چلنا تقریباً ناممکن ہے۔
مَیں نے اپنے مشاہدے میں یہ نوٹ کیا ہے کہ جب بھی کسی ایمان دار افسر کا تقرر ہوتا ہے اور اس کی سوچ مقامی سیاسی قیادت کے مفادات سے مطابقت نہیں رکھتی، تو اُسے فوراً تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ ایسے افسران اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ہمیشہ دباو اور مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ بالآخر یا تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوجاتے ہیں، کیوں کہ اُن کی ترقی روک دی جاتی ہے، یا پھر وہ مجبوراً اس کرپٹ نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے، بعض اوقات انھیں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
قارئین کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ رشوت ستانی اور بدعنوانی کا مسئلہ صرف ایک ادارے تک محدود نہیں، بل کہ قومی وسائل جیسے معدنیات، جنگلات، دریا اور دیگر قدرتی وسائل کو بھی اپنے ذاتی فائدے کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے…… لیکن اس میں صرف سیاسی قیادت ملوث نہیں ہوتی، بل کہ اس سے بھی بڑے اور طاقت ور ہاتھ اس میں شامل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہمارے ہاں جتنے قدرتی وسائل ہیں، اُن پر صرف وہ لوگ قابض ہیں جن کا سیاسی اثر و رسوخ ہے۔ اگر آپ سوات کی زمرد کان پر نظر ڈالیں، تو آپ پر یہ واضح ہوجائے گا کہ مقامی سیاسی شخصیات اور اُس کا پورا خاندان کس طرح ان وسائل کا فائدہ اٹھا رہے ہیں؟ مقامی لوگ جن کی شاملاتی زمینوں پہ یہ وسائل موجود ہیں، انھیں مذکورہ وسائل سے کچھ فائدہ نہیں ملتا۔ حتیٰ کہ انھیں ’’سرفس رینٹ‘‘ تک نہیں دیا جاتا، جب کہ سیاسی افراد کو بڑے بڑے ٹھیکے منھ مانگے قیمت پر مل جاتے ہیں، اور وہ اپنے پورے خاندان کو ان سرگرمیوں میں لگا دیتے ہیں۔ اس طرح ان کے خاندان میں کوئی بے روزگار نہیں ہوتا۔
دریائے سوات میں ریت اور بجری کی کھدائی کا عمل بھی مسلسل جاری رہتا ہے۔ حالاں کہ دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود اسے روکنے میں کام یابی حاصل نہیں ہوتی، جو کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ سب کچھ ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ اس طرح کے اقدامات صرف عوام کے غم و غصے کو کم کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔
اگر ہم جنگلات کی صورتِ حال پر نظر ڈالیں، تو پچھلے 10 سال میں ان کی کثافت نصف سے بھی کم ہوچکی ہے، جس پر عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ انھی شخصیات کی مدد سے قیمتی لکڑیاں سمگل ہو رہی ہیں۔
اس حوالے سے آیندہ کی تحاریر میں تفصیل سے ذکر کیا جائے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے