کبھی خواب نہ دیکھنا (چوالیس ویں قسط)

مَیں ابھی ہائی وے سب ڈویژن سیدو شریف میں مکمل طور پر سیٹ نہیں ہوا تھا کہ مجھے بونیر جیسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی ٹھیکہ داروں نے ضوابط پر میری سخت عمل درآمد کے خلاف کڑھنا اور خفگی کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔
مجھے یاد ہے کہ میرے ایک افسر، اکرام اللہ خان نے مجھے بڑے حجم کی ایک کتاب دی تھی، جس کا عنوان تھا، "Specifications, Building and Roads, West Pakistan.” یہ مختلف قسم کے تعمیراتی کاموں، جیسے سڑکوں اور عمارتوں کے منصوبوں، میں شامل تمام پیچیدہ تفصیلات پر ایک جامع کتاب تھی۔ اس کتاب میں تعمیرات میں استعمال ہونے والے مواد کی مقدار اور ان کے تناسب کا گہرا تجزیہ پیش کیا گیا تھا۔ کتاب میں مارٹرز (جو اینٹوں یا پتھروں کو جوڑنے کے لیے استعمال ہوتا ہے)، بٹومین (جو سڑک کی سطح بنانے میں استعمال ہوتا ہے) اور تعمیرات کے لیے منظور شدہ مختلف اقسام کی لکڑیوں کے استعمال کے بارے میں تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ، مَیں نے اس کتاب سے پتھر اور اینٹوں کی چنائی، ڈھانچے میں اسٹیل کے استعمال اور تعمیر میں استعمال ہونے والی مختلف اقسام کی مٹی کی وضاحتوں کی تفصیل کے بار میں بہت کچھ جانا تھا۔
مَیں نے ان تفصیلات پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی کوشش کی، لیکن ٹھیکہ داروں نے حسب روایت ’’متاع قلیل‘‘ کے لیے اُصولوں کو نظر انداز کیا۔ واضح رہے کہ مذکورہ محکموں میں نرخوں کا شیڈول، مواد کی مارکیٹ ریٹ اور ٹھیکہ دار کے منافع کے لیے 15فی صد مارجن کے متعلقہ تفصیلات اس کتاب سے لی گئی ہیں ۔ کمیشن یا کک بیکس کو ایک معمول کے نظام کے طور پر سمجھا جاتا تھا اور اب بھی سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ٹھیکہ دار کام کی کچھ چیزوں میں بچت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی بات میرے اور ٹھیکہ داروں کے درمیان جھگڑے کی بنیاد تھی۔ لہٰذا، مجھے فیلڈ ورک سے تقریباً دور رکھا گیا۔ یہاں، سوات میں ٹھیکہ دار نسبتاً زیادہ بااثر تھے، لیکن مَیں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ تنازعات حسبِ معمول جاری رہے مگر بہ ہر حال، میری جائز آمدنی اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی رہی۔
1988ء میں، مَیں بلڈنگ ڈویژن سوات میں تعینات ہوا۔ دفتر اسی بلاک میں تھا، لیکن پہلی منزل پر۔ پانڑ مینگورہ میں گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی میں ایک نئے ہاسٹل کی تعمیر کے لیے ٹینڈر جاری کیے گئے۔ سپرنٹنڈنگ انجینئر چاہتا تھا کہ میں ہاسٹل کے تعمیراتی کام کی نگرانی کروں۔ اسائنمنٹ حاصل کرنے میں کام یاب ہونے والے ٹھیکہ دار نے میری نگرانی میں کام کرنے سے انکار کر دیا اور اعلا حکام کو تحریری درخواست دی کہ اگر میں اس کا انچارج بنوں، تو اس کا ٹینڈر منسوخ کردیا جائے۔ سپرنٹنڈنگ انجینئر نے ٹھیکہ دار کی درخواست پر نوٹ لکھا کہ فضل رازق منصوبے کی نگرانی کریں گے، چاہے ٹھیکہ دار راضی ہو یا نہ ہو۔ چناں چہ اس نے حکم کی تعمیل کی، لیکن تمام شکوک و شبہات سے بالاتر ہو کر ہم نے خوش گوار ماحول اور گرم جوش تعلقات کے ساتھ کام مکمل کرلیا۔ ہم اکثر کام کی جگہ پر اکٹھے جاتے تھے۔
ہمارے پروجیکٹ "S.D.O” میاں عنایت اللہ تھے۔ انتہائی شریف اور نرم گفتار افسر جو رینک سے اس عہدے پر پہنچے تھے۔ انھیں میری کارکردگی پر غیر متزلزل اعتماد تھا۔ سوات سے ریٹائرڈ ہوئے۔ ہم اسے ایک الوداعی دعوت دینا چاہتے تھے۔ چناں چہ ہم نے پشمال اور کالام میں دو دن کی سیر کا پروگرام بنایا۔ یہاں ہمیں معلوم ہوا کہ میاں صاحب معروف پشتو شاعر اکرام اللہ گران کے بڑے بھائی تھے، جو سوات سے شفٹ ہونے میں اپنے بھائی کی مدد کے لیے آئے تھے۔ گران صاحب ان دو یادگار دنوں میں ہمارے ساتھ رہے اور ہمارے دلوں میں میٹھی یادیں چھوڑ گئے۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے