حرمتِ سود، مختلف ادیان کی تعلیمات کی روشنی میں

Blogger Abu Jaun Raza

تمام معاشی برائیوں میں ’’ربوا‘‘ یا ’’سود‘‘ کے نتائج معیشت کے لیے تباہ کن ہوتے ہیں۔ سود صرف ایک دینی عمل کی خلاف ورزی اور اخلاقی برائی ہی نہیں، بل کہ اس کی کوکھ سے سماجی اور معاشی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ مثلاً: ظلم، استحصال، بے رحمی، افراطِ زر، دولت کی تقسیم میں ناہم واری اور اقتصادی بحران وغیرہ۔
سود کی مذمت اور ممانعت جس شدت کے ساتھ قرآن میں آئی ہے، اُس کی نظیر نہیں ملتی۔ قرآن نے اپنے ابتدائی نزول کے زمانے میں سورۂ مدثر کی آیت سے ایک واضح پیغام دیا: وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ۔ ’’اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے۔ (المدثر، آیت: 6)
یعنی جس پر بھی احسان کرو، بے غرضانہ کرو اور اللہ کی خوش نودی کے لیے انجام دو، دنیاوی فائدہ کے طالب نہ بنو۔
سود کا لین دین تقریباً تمام قدیم تہذیبوں میں اخلاقی اعتبار سے اچھا نہیں سمجھا گیا، مگر لوگوں نے اخلاقی اور الہامی تعلیمات کو نظر انداز کرکے کم زور افراد کا معاشی استحصال کیا۔ قرآنِ کریم نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہود پر ان کی جن قبیح حرکات کی وجہ سے بہت سی چیزیں حرام کی گئیں، اُن میں نمایاں ترین چیز سود تھا۔فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَہُمْ وَ بِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَثِیْرًا۔ (سورۂ نساء، آیت: 160)
یہود کے ظلم اور راہِ خدا سے منھ موڑنے کے سبب بہت سی پاک چیزیں جو (پہلے) ان پر حلال تھیں، ہم نے ان پر حرام کر دیں۔
وَّ اَخْذِہِمُ الرِّبٰوا وَ قَدْ نُہُوْا عَنْہُ وَ اَکْلِہِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ مِنْہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا۔(سورۂ نساء، آیت: 161)
اور اس سبب سے بھی کہ وہ سود خوری کرتے تھے، جب کہ اس سے انھیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کے سبب سے بھی اور ان میں سے جو کافر ہیں، ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
٭ سود کے احکام عہد نامہ قدیم میں:۔ یہودیوں کی مقدس کتاب ’’عہد نامہ قدیم‘‘ میں سود کی حرمت کے واضح احکامات موجود ہیں۔ کتاب زبور میں ہے: ’’وہ جو اپنا روپیا سود پر نہیں دیتا اور بے گناہ کے خلاف رشوت نہیں لیتا۔ ایسے کام کرنے والا کبھی جنبش نہ کھائے گا۔‘‘ (کتابِ مقدس، پرانا اور نیا عہد نامہ، زبور باب 15، آیت 5، بائبل سوسائٹی)
کتاب احبار میں ہے: ’’اور اگر تیرا بھائی مفلس ہوجائے اور تیرے سامنے تنگ دست ہو، تو اُسے سنبھالنا۔ وہ پردیسی اور مسافر کی طرح تیرے ساتھ رہے، تو اس سے سود، یا نفع مت لینا۔ اپنے خداوند کا خوف رکھنا، تاکہ تیرا بھائی تیرے ساتھ زندگی بسر کرسکے، تو اپنا روپیا اسے سود پر مت دینا اور اپنا کھانا بھی اسے نفع کے خیال سے مت دینا۔‘‘ (کتاب مقدس، پرانا اور نیا عہد نامہ، احبار باب: 53، 25-37، بائبل سوسائٹی)
کتاب خروج میں ہے: ’’اگر تو میرے لوگوں میں سے کسی محتاج کو جو تیرے پاس رہتا ہو، کچھ قرض دے، تو اُس سے قرض خواہ کی طرح سلوک نہ کرنا اور نہ اُس سے سود لینا۔‘‘ (کتاب مقدس، پرانا اور نیا عہد نامہ، خروج، باب 22، آیات 25-27، بائبل سوسائٹی)
کتاب استثناء میں ہے: ’’تو اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا، خواہ روپے کا سود ہو یا اناج کا، یا کسی ایسی چیز کا سود ہو جو سود پر دی جاتی ہے۔‘‘ (کتاب مقدس، پرانا اور نیا عہد نامہ، استثناء باب: 23، آیت: 20، بائبل سوسائٹی)
توریت کے مذکورہ بالا احکام پر عربی دائرۃ المعارف کے مولف لکھتے ہیں: ’’شریعتِ موسوی میں یہودیوں کو غریبوں سے سود لینے سے منع کیا گیا تھا، خواہ کوئی اجنبی ہی کیوں نہ ہو، پھر اس ضمانت کو یہودیوں سے سود لینے تک محدود کردیا گیا، خواہ وہ مال دار ہی کیوں نہ ہو۔ اُنھیں حکم ہوا تھا کہ وہ غریبوں کو قرض دیں، تاکہ انھیں قید و فقر و فاقہ سے نجات حاصل ہوسکے۔ انھیں سخت انتباہ کیا گیا تھا کہ کسی حیلے و حوالے سے سود نہ لیں…… لیکن جب بازار میں وسعت ہوئی اور کاروبار میں ترقی ہوئی، تو سود لینا اور رہن پر قرض دینا ان کے اندر بالکل عام ہوگیا۔‘‘ (سلیم البستانی، دائرۃ المعارف، بیروت ج 8، ص 513، 1884ء)
٭ سود کے احکام عہد نامہ جدید میں:۔ حرمتِ سود کا یہی حکم عیسائیوں کے لیے بھی یک ساں ہے۔ کیوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا: ’’یہ نہ سمجھو کہ مَیں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں، بل کہ پورا کرنے آیا ہوں۔‘‘ (کتاب مقدس، پرانا اور نیا عہد نامہ، انجیل متی باب 5، آیت 17، بائبل سوسائٹی)
حضرت عیسیٰ کا ایک اور زریں قول عہد نامہ جدید میں ملتا ہے: ’’اگر تم ان کو قرض دو، جن سے وصول ہونے کی امید رکھتے ہو، تو تمھارا کیا احسان ہے ؟ گناہ گار بھی گناہ گار کو قرض دیتے ہیں، تاکہ پورا وصول کرسکیں، مگر تم اپنے دشمنوں سے محبت رکھو، اُن کا بھلا کرو، قرض دو اور اُس کے وصل پانے کی اُمید نہ رکھو، تو تمھارا اَجر بڑا ہوگا۔‘‘ (کتاب مقدس، پرانا اور نیا عہدنامہ، انجیل لوقا باب 6، آیات 35-37، بائبل سوسائٹی)
٭ ہند کی مذہبی کتابوں میں سود کی مخالفت:۔ ہندوؤں میں جو کتب شرتی یعنی الہامی تسلیم کی جاتی ہیں، وہ وید کہلاتی ہیں، ان کی تعداد 4 ہے، جن میں رگ وید کو سب سے زیادہ مقدس مانا جاتا ہے۔ رگ وید کے پہلے منڈل میں رشی ہرنیہ ستوپہ کہتے ہیں: ’’عظیم اندر ہم پر بیش بہا دولت لٹائے۔ اس میں ہم سے پنیوں کی طرح زیادہ نہ لے۔‘‘ (رگ وید، منڈل 1، سکت 33، منتر 3)
پنی رگ وید میں تاجروں کے گروہ کو کہا جاتا ہے، اردو اور ہندی میں ’’بنیا‘‘ دراصل اسی کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ ایک اور جگہ سود کی مذمت ان الفاظ میں آئی ہے: ’’زیادہ دولت حاصل کرنے کی اُمید سے اُدھار دینے والوں کی دولت کو تم چھین لیتے ہو۔‘‘ (رگ وید، منڈل 3، سکت 53، منتر 14)
ہندوؤں کے قدیم ترین قانون دان ’’وشھتا دھرم ستھرا‘‘ اپنی قانونی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’برہمن اور کشتری کے لیے منع ہے کہ وہ سود خوروں کی طرز پر قرض دیں۔‘‘ (Vashistha Dharmasastra, Translated by George Buhler, F. M Muller, Sacred Book of East, Vol XIV, Oxford 1882, pg 14)
درجِ بالا بحث سے واضح ہوا ہے کہ بائبل، قرآن اور وید، تینوں مقدس کتابوں کی رو سے سود حرام ہے اور ان کتابوں کو ماننے والوں کے لیے قطعا گنجایش نہیں کہ وہ سود کا کاروبار کریں۔
(نوٹ:۔ اس آرٹیکل کی تیاری کے لیے تقابلِ ادیان کے ماہر لیکچرار حافظ محمد شارق صاحب سے استفادہ کیا گیا، راقم)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے