’’اسرائیل حماس معاہدہ‘‘: جشن کی کیا تُک ہے؟

Blogger Ikram ullah Arif

امریکی سرپرستی اور قطر اور مصر کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے مابین ایک معاہدہ ہوا ہے، جو مجموعی طور پر تین حصوں پر مشتمل ہے۔
معاہدے کی رو سے عارضی جنگ بندی ہوگی۔ اسرائیل مغویوں کو حماس کی قید سے، جب کہ فلسطینیوں کو اسرائیل کی قید سے چھٹکارا ملے گا۔ اس طرح غزہ کے کچھ حصوں سے اسرائیلی فوجیوں کی واپسی ہوگی، جب کہ اسرائیلی فوجی مصر اور غزہ کے مابین واحد زمینی گزرگاہ ’’فیلاڈیلفیا کوریڈور‘‘ میں موجود رہیں گے۔ ساتھ غزہ کی تعمیرِ نو کا کام کیا جائے گا۔
قارئین! یہ موٹی موٹی باتیں ہیں، باقی جزیات بھی ہیں۔
اس معاہدے کے اعلان کے ساتھ ہی اسرائیل اور غزہ میں جشن منایا گیا، جب کہ پاکستان میں مذہبی جاعتوں کے کارکنان سمیت کچھ ’’دانش وروں‘‘ نے اس کو حماس کی جیت قرار دیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی معاہدہ نافذ العمل نہیں ہوا، نہ اس معاہدے میں مستقل جنگ بندی کا کوئی ذکر ہی ہے۔ پھر ابتدائی مراحل میں عارضی جنگ بندی کو حماس کی جیت قرار دینا تحقیقی تعصب یا گروہی امتیاز کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے؟
حماس اور اسرائیل کے مابین حالیہ جنگ 15 مہینے جاری رہی۔ اس جنگ کا آغاز 7 اکتوبر کی ’’طوفان الاقصی آپریشن‘‘ سے ہوا تھا، جس میں حماسی حملے نے اسرائیل کو چکرا کر رکھ دیا تھا۔ مابعد جو کچھ ہوا ہے، وہ ایک طویل تفصیل ہے اور دنیا اُس کی شاہد ہے۔
اب جب معاہدہ ہوا، تو اُمید ہے کہ نافذالعمل بھی ہوجائے گا اور عارضی جنگ بندی مستقل جنگ میں بدل جائے گی۔ سرِ دست اس معاہدے پر جشن منانے سے قبل اس معاملے کا حقیقی جائزہ لینا چاہیے کہ اس جنگ میں اسرائیل نے کیا کھویا کیا پایا…… اور جواباً حماس نے کہاں تک کام یابی سمیٹی ہے؟
ایک مختصر سی تحریر میں اس کا مکمل جائزہ ممکن نہیں، لیکن اگر سرسری بات کی جائے، تو دنیاوی پیمانوں کے حساب سے اسرائیل کو کام یاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ پوری دنیا کی عوامی بے زاری اور نفرت کے باوجود امریکہ اور اکثر مغربی ممالک کے حکم رانوں نے کھل کر اسرائیل کی مالی اور عسکری مدد کی، جس کے نتیجے میں ابھی تک اسرائیل نے غزہ میں لاکھوں لوگوں کو بے گھر اور ایک لاکھ کے قریب عام انسانوں کو قتل کیا ہے۔ بچوں اور جانوروں تک کونہیں چھوڑا ہے۔ ہسپتالوں اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا ہے، مگر ان تمام باتوں کے باوجود اسرائیل کی دیدہ دلیری یا بے شرمی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ گذشتہ ہفتے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا متنازع تصوراتی نقشا دوبارہ جاری کیا ہے، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اسرائیل نے حالیہ کش مہ کش کو اپنی توسیع کے لیے موقع سمجھا ہوا ہے۔
ہاں! یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر اسرائیل اتنا کام یاب ٹھہرا ہے، تو پھر تھکی ہاری تنظیم ’’حماس‘‘ کے ساتھ جنگ بندی مذاکرات پر کیوں راضی ہوا؟
یہ سوال درست ہے، اس کا بہ ظاہر یہ جواب بنتا ہے کہ ممکن ہے کہ اسرائیل اپنے قیدیوں کوچھڑوا کر مزید قہر آلود اور غضب ناک ہوجائے اور غزہ کو قبضہ کرنے کے لیے ایک بار پھر بھرپور طاقت کے ساتھ حملہ آور ہوجائے۔
اب اگر بات ’’حماس‘‘ کی کی جائے، تو صرف یہی ایک کام یابی ضرور حماس کی ملی ہے کہ اسرائیل کے اتنے ظلم و تشدد کے باوجود حماس ختم ہوئی اور نہ اسرائیل بہ زورِ بازو حماس کی قید سے اپنے مغوی چھڑوا سکا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مزاحمتی تحریکوں کو زبردستی اور تشدد کے ساتھ ختم نہیں کیا جاسکتا۔
علاوہ ازیں، اگر سوچا جائے، تو اس جنگ نے حماس کو انتہائی کم زور اور تھکایا دیا ہے۔ اس کی قیادت شہید ہوچکی ہے۔ غزہ میں اس کی حکومت عملاً ختم ہوکر رہ گئی ہے اور انفراسٹرکچر تباہ حال پڑا دکھائی دیتا ہے۔
’’حماس‘‘ کے ساتھ ایرانی حمایت یافتہ ’’مزاحمت کا محور‘‘ والا تصور ختم ہوچکا ہے۔ حزب اللہ قائد، حسن نصراللہ کی موت کے بعد ایرانی پالیساں زیرِ تنقید ہیں اور سقوطِ دمشق کے بعد اب کہا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہوا ہے۔
اب حماس کو جو بھی کرنا ہے، اپنی ہمت اور طاقت کے بل بوتے پر کرنا ہے۔ اسرائیل نے حماس کو ختم نہیں کیا، یہ درست ہے…… مگر کیا اب حماس اس قابل رہا ہے کہ غزہ میں دوبارہ وہی طاقت حاصل کرے، یا اسرائیل ایسا کرنے دے گا جو 7 اکتوبر سے قبل تھا؟
نیز یہ سوال بھی اُٹھایا جاسکتا ہے کہ کیا 15 مہینوں کی جنگ سے غزہ کی آزادی قریب ہوگئی، اسرائیلی تسلط مزید مظبوط ہوگیا یا فلسطین کی آزادی کا سفر اور طویل ہوگیا؟
’’فَاعْتَبِرُوا یا اُوْلِی الْاَبْصار!‘‘ آنکھ والو، عبرت حاصل کرو!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے