گودر، گُوتُھور، چشمے، اوسو، چینے، پہیم، نہر، ڈھان/ ڈنڈ، جھیل، دریا، ندی، نالہ صرف پانی کے ذخائر ہی نہیں، بل کہ یہ آبی ورثے (Hydro-heritage) کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ان سے ثقافت، جذبات، ادب، موسیقی اور عشق و محبت کی داستانیں وابستہ ہوتی ہیں۔
سوات کا نام ہی دریا کی وجہ سے ہے۔ سوات کسی شہر، قصبے یا گاؤں کا نام نہیں، بل کہ اُس دریا کا نام ہے، جو اوپر پہاڑوں میں پہیم (گلیشیرز) اور جھیلوں سے نکل کر پوری وادی سوات سے ہوکر یہاں کی تاریخ، ثقافت اور ورثے کو جلا بخشتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور جاکر دریائے کابل میں گرتا ہے۔ سوات کی پشتو، توروالی، گوجری اور گاؤری شاعری اسی دریا، ان چشموں اور نہروں کے بغیر اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ سوات کی لوک کہانیاں اس دریا، ان چشموں اور ان ’’چینوں‘‘ کے بغیر نامکمل ہیں۔
توروالی کا ’’گُوتُھور‘‘ ہو یا پشتو کا ’’گودر‘‘ یہ صرف پانی بھرنے کی جگہیں نہیں تھیں، بل کہ یہاں خواتین مٹکوں، ’’بھیدین‘‘ اور ’’منگی‘‘ میں زندگی کی تازہ داستانیں بھی بھر کر اپنے ساتھ لے جاتی تھیں۔ ان بھیدنوں میں جوانی کی مستیاں بھری ہوتی تھیں۔ جیسے یہ چشمے پہاڑوں کو چیر کر نکلتے اسی طرح ان کے گرد جذبات ان ثقافتی چٹانوں کو چیر کر پھوٹ پڑتے، جن کو عمومی حالات میں مقید ہی کیا جاتا۔
جہاں یہ پنگھٹ اور چشمے پانی بھرنے کے وسائل تھے، وہی پہ خواتین کے لیے تفریح کے مواقع فراہم کرتے تھے۔ کسی پہاڑی چشمے کے گرد جب رنگ بہ رنگ چادروں میں حسینائیں عصر کو جمع ہوتی تھیں، تو شامیں رنگین ہوا کرتی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ مرغِ زریں کسی چٹانی آبی نالے کے گرد جمع ہوئے ہوں۔
تھیے کآن او بھاردن گھینی محمد ظاہر شاہ
بس گُوتُھور کے بی بی لکمن سی بھیدین پھرا
یعنی، کاش! محمد ظاہر شاہ زندہ ہوتے، تو اُن کو غلیل دیتا اور وہ پنگھٹ جاکر اس حسینہ لکمن کے مٹی کا مٹکا توڑتا۔
چہ مازیگر پرے خائستہ کیگی
منگے نارے ورتہ وہی گودر لہ زینہ
یعنی سرِ شام اُس کو مٹکا بلاتا ہے کہ چلو پنگھٹ چلتے ہیں۔ یوں شام حسین بن جاتی ہے۔
گُپ نھیگادو گھین نھید تلئی وأد کشمالہ
أ حساب کی قَور می چھی تلین ہی پورا
یعنی، جوں ہی گُپ کا ستارا نکلا۔ دریائے سوات کم ہوکر تہہ سے چمٹ گیا۔ مَیں نے گنا، تو تمھیں قبر میں ایک سال پورا ہوگیا۔
پہ گودر جنگ دہ جینکو دے
منگی یے مات کڑل پہ غڑو وشتل کوینہ
یعنی، پنگھٹ پہ دوشیزاؤں کی جنگ چھڑ گئی ہے۔ مٹکے توڑ دیے، اب اس کے ٹکڑوں سے ایک دوسرے کو مار رہی ہیں۔
اُوس (چشمے ) کے حوالے سے توروالی کے اس شعر کا تو جواب ہی نہیں:
بُوڑ ایشانا پہیِم گَلَدی سلطان زیبا
کامے اُوسو سی اُو پُوئی، أنگی دے پشا
یعنی، سلطان زیبا! سارے گلیشیر پگھلتے ہیں ایک جیسے یہاں۔ جس کے پانی پینے کو من کرے ، مجھے اُنگلی سے وہ چشمہ دِکھا۔
پھر پاکستانی جدیدیت آگئی۔ ’’پاکستانی جدیدت‘‘ دراصل جدیدت کی وہ بھیانک قسم ہے کہ جب وہ آتی ہے، تو کسی کو کسی ثقافت، تاریخ، ادب، جذبات اور حسن کی فکر نہیں ہوتی۔ بس کنکریٹ اور سیمنٹ زندگی بن جاتے ہیں۔ ایک مبہم قومی شناخت سب کچھ توڑ دیتی ہے اور لوگ ترقی کے پیچھے یوں لگ جاتے ہیں کہ اُن سے ماحول، تاریخ، ماضی، ثقافت، ادب و شاعری اور موسیقیت سب بھول جاتے ہیں۔ جبلت غالب آجاتی ہے اور اسی بے قابو جبلت کو ایک خاص بیانیے کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سوات میں پہلے شورش شروع کی گئی۔ اس کے بعد ترقی کا دور لایا گیا۔ پوری سیاست اس شورش اور ترقی سے جڑگئی۔ جدید منصوبے بننے لگے۔ ترقی یہاں سمٹ کر گاؤں کی سڑکوں اور راستوں کی پختگی پر آکر رُک گئی۔ چشمے سُکھا دیے گئے۔ پلاسٹک پائپس پر ووٹوں کی خرید و فروخت شروع ہوئی۔ گاؤں میں وہی معتبر ٹھہرا جس نے کسی کونسلر، چیئرمین یا ایم پی اے سے سب سے زیادہ پائپ لیے۔ جو نہیں لے سکا، گاؤں کی غیرت اس کو طعنے دینے لگی۔
چشمے کبھی سوات کی روحانی، سماجی اور ثقافتی شناخت کا مرکز تھے۔ یہ شفا، تفریح اور صنفی میل جول کے مقامات تھے، جو اساطیر، رومانس اور روحانیت کے ساتھ گہرائی سے جڑے ہوئے تھے۔ طالبان کی بغاوت اور بعد میں فوج کی قیادت میں ہونے والی بہ حالی نے ان حرکیات کو بدل دیا، ’’جدید پانی‘‘(پائپ اور پمپنگ نظام) اور طبعی تبدیلیاں متعارف کروائی گئیں، جنھوں نے روایتی استعمالات اور چشموں سے تعلقات کو متاثر کیا۔ خواتین، جو کبھی چشمے سے متعلق سرگرمیوں میں مرکزی کردار ادا کرتی تھیں، اب سماجی تبدیلیوں، شہری کاری/ شہربسائی اور چشموں پر مساجد یا مدارس کی تعمیر کے باعث محدود رسائی کا سامنا کر رہی ہیں، جس سے ان کی تفریح اور سماجی میل جول کے مواقع ختم ہوگئے ہیں۔
چشموں کو متحرک، جذباتی مقامات سے عملی پانی کے ذرائع میں تبدیل کرنا مقامی دنیاوی نظریات اور فطرت سے جڑت کے نقصان کی علامت ہے، جس سے سماجی بکھراو میں اضافہ ہوا ہے۔
ساتھ سوات میں کلین اور صاف توانائی کے نعرے کے تحت پن بجلی منصوبے شروع کیے گئے۔ ان منصوبوں نے نہ صرف دریاؤں کو خطرے میں ڈالا، بل کہ ان پہاڑی چشموں کو بھی خشک کردیا۔
درال دریا پر پن بجلی منصوبے نے کئی چشمے خشک کردیے اور ہر پنگھٹ کو مٹا دیا۔ اب مدین تا کالام اور گبرال اس پوری وادی میں چار بڑے منصوبوں کی وجہ سے جہاں ایک طرف دریائے سوات کو سرنگوں میں ڈالا جارہا ہے، وہی پہ اس دریا کے آس پاس گاؤں کے چشموں کو اُن سرنگوں کی وجہ سے سخت خطرات کا سامنا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔