دیر کی شاہی مسجد پہاڑ کے اوپر جا کر آتی ہے۔ پرانے زمانے کے دوسرے حفاظتی نقطہ نظر سے بنے شہروں کی طرح دیر کا پرانا شہر بھی پہاڑ کے اوپر بنایا گیا تھا۔ ایسا حفاظتی نقطہ نگاہ سے کیا جاتا تھا۔ عام طور پر قلعہ جات ایسی جگہوں پر بنائے جاتے تھے، جو بقیہ علاقے کی نسبت زیادہ محفوظ ہوں، جس کے ایک طرف گہری گھاٹی ہو، تو دوسری طرف دریا۔ ایک طرف پہاڑ کی اونچی اور ناقابلِ عبور چڑھائی یا کوئی ایسی رِج جس پر چڑھنا تقریباً ناممکن ہو۔ صرف ایک سامنے والی سائیڈ کھلی ہو، جب کہ بقیہ تینوں اطراف قدرتی طور پر حفاظتی ڈھال بناتی ہوں۔ تا کہ حملہ آوروں سے قدرتی طور پر محفوظ رکھیں۔ لڑائی لڑنا بھی پڑے، تو فوکس ایک سائیڈ پر ہو۔ ساری فورس کا فوکس اسی ایک سائیڈ پر ہو۔
دیر قلعہ دیکھنے کی اجازت نہ ملی، تو ہم اس سے ملحقہ مسجد دیکھنے چلے گئے۔ مسجد کے دونوں اطراف گہری کھائیاں ہیں۔ صرف 8 سے 10 فٹ سڑک کے لیے رستہ چھوڑ کر مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ کبھی یہاں پر ایک پرانی مسجد ہوا کرتی تھی، جسے شہید کرکے اس کی جگہ پر ایک بڑی اور بہت خوب صورت مسجد تعمیر کی گئی ہے۔
اس موجودہ مسجد کا سنگِ بنیاد نواب محمد شاہ خسرو خاں نے سنہ 1995ء میں رکھا تھا۔ یہ اندر سے بہت دل کش ہے۔ بیرونی دیوار کی نسبت اندر سے نسبتاً نئے سٹائل کی ہے۔ مسجد کے سامنے والے حصے میں ایک بڑا سا گراسی پلاٹ ہے، جس کے اندر سے ایک چھوٹا رستہ مسجد کی عمارت کے اندر تک جاتا ہے۔ جب کہ مسجد کی بیرونی دیواروں کے ساتھ رنگ بہ رنگے پھول کاشت کیے گئے ہیں۔ یہ یک منزلہ مسجد ہے۔ مسجد سے ملحقہ سیکڑوں سال پرانی لکڑی سے بنی پرانی طرز کی دکانیں ہیں۔ دیر کا یہ حصہ چوں کہ شہر کا سب سے پرانا حصہ ہے۔ لہٰذا یہاں پائی جانے والی دکانیں بھی اسی پرانے دور کی بنی ہوئی ہیں۔
اتنی دیر تک دوپہر کا 1 بج چکا تھا۔ ابھی ہمیں لواری ٹنل تک پہنچ کر اسے کراس بھی کرنا تھا۔ واپسی پر وہی دیر شہر کے بھیڑ بھڑکے والے تنگ بازار تھے، جن میں سے گزر کر ہمیں نیچے دیر چترال روڈ تک پہنچنا تھا۔ آہستہ آہستہ رینگتے آخرِکار ہم مین روڈ تک آ ہی پہنچے۔ دیر بس سٹینڈ سے ملحقہ دیر نالے پر بنے پل سے لے کر لواری ٹنل تک مسلسل 15 کلومیٹر کے قریب چڑھائی ہے۔
اب ہماری اگلی منزل لواری ٹنل تھی۔ لواری ٹنل کو کراس کرنے کا مجھ سمیت ہم چاروں کار سواروں کا پہلا موقع تھا۔ جب کہ اس سے پہلے میں جب جب بھی چترال گیا۔ ہمیشہ لواری ٹاپ کراس کرکے گیا۔ لواری ٹاپ کراس کرنا بڑے حوصلے اور استقامت کا کام تھا۔ دیر کی جانب سے زیادہ اور سیدھی چڑھائیاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ بہ نسبت لواری ٹاپ کی 10500 فٹ اونچی جگہ سے نیچے دوسری طرف سیدھی اترائیوں کے۔ ایک پیچ در پیچ گھومتی سڑک مسلسل تقریباً 54 بڑے گھومتے موڑ کاٹتی نیچے پاتال تک لے جاتی ہے۔ اَڑھائی سے تین گھنٹے انھی گھومتی گھماتی بھول بھلیوں میں کھو کر خدا خدا کرتے بسر ہوتے تھے۔
لواری پہاڑ کے اندر بقیہ پہاڑوں کی نسبت مٹی کی مقدار زیادہ ہے۔ بارش یا برف باری ہونے کی صورت میں یہ رستہ اکثر بند ملتا تھا۔ ویسے بھی یہ رستہ سال بھر میں زیادہ سے زیادہ تین چار ماہ کے لیے کھلتا تھا۔ جوں ہی برف باری شروع ہوتی، یہ رستہ پھر سے بند ہو جاتا تھا اور پھر چترال کو جانے والے لوگوں کو یہاں پشاور سے افغانستان کے اندر داخل ہوکر افغان صوبہ ننگر ہار سے ہوتے ہوئے کنڑ اور پھر ارندو سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا۔
لواری ٹنل دیر کو چترال سے ملاتی ہے ۔ اس ٹنل کا پانچ، ساڑھے پانچ کلومیٹر دیر کے اندر جب کہ بقیہ چترال کے حصے میں آتا ہے۔
یہ ٹنل دیر اور چترال کے درمیان حائل لواری پہاڑ کو کاٹ کر اس کے نیچے سے گزار کر بنائی گئی ہے۔ یہ پاکستان کی سب سے لمبی ٹنل بھی ہے، جو دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ اس کا پہلا حصہ 8.5 کلومیٹر طویل ہے، جب کہ دوسرا حصہ نسبتاً چھوٹا یعنی 2.9 کلومیٹر طویل ہے۔ اس ٹنل کا منصوبہ ویسے تو بہت پرانا تھا۔ اُس وقت انگریز سرکار کی حکومت تھی۔ چترال میں مہتر ناصر الملک کی حکومت تھی۔ اُسے اُس وقت شملہ میں انگریز وائسرائے کو ملنے جانا ہوا، تو رستے میں اُس نے درگئی کے پہاڑوں کے نیچے سے کھود کر نکالی جانے والی بنٹن ٹنل کے ایک انجینئر سے لواری ٹنل کے بارے میں مشورہ کیا۔ شملہ جاکر اس نے وائسرائے سے اس کا ذکر کیا۔ گرچہ اُن دنوں انگریز برصغیر چھوڑ کر واپس جانے کا پروگرام بنا چکے تھے، لیکن پھر بھی اس ٹنل کے بارے میں ابتدائی سروے اُسی وقت کروایا گیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھی ڈرافٹنگز کو بروئے کار لاتے ہوئے سنہ 1955ء میں اس کا ازسرِ نو سروے کیا گیا، مگر اس منصوبے پر عملی کام کا آغاز سنہ 1975ء میں پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں شروع کیا گیا، جسے اگلے سال ہی فنڈز کی کمی کا بہانہ بنا کر بند کر دیا گیا۔ پھر تین دہائیوں تک یہ مسئلہ سرد خانے کی نذر ہوگیا۔
سنہ 2003ء میں کوہاٹ ٹنل بننے کے بعد چترال میں بھی لواری ٹنل کے حق میں تحریک چلی۔ سنہ 2005ء میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس ٹنل کی تعمیر کا دوبارہ آغاز ہوا، مگر اس منصوبے کو ’’ریل ٹنل‘‘ کی بہ جائے ’’روڈ ٹنل‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا۔ سنہ 2009ء میں یہ ٹنل تو بن گئی، مگر اس کو 100 فی صد مکمل نہ کیا جا سکا۔ اسے ہفتہ میں تین دن عوام کی سہولت کے لیے سردیوں میں کھولا جاتا رہا۔ لواری پاس بند ہونے سے چترال کے علاقوں میں اشیائے خور و نوش کی جو شدید کمی واقع ہو جایا کرتی تھی، تین دن کے لیے ہی سہی وہ کمی بہ ہرحال بہت حد تک کم ہوگئی۔ سنہ 2017ء میں تکمیل کے بعد اسے باقاعدہ کھول دیا گیا ہے۔
مگر شاید اب بھی یہ محفوظ تو ہے، مگر مکمل طور پر آرام دہ نہیں۔ اب بھی یہاں گھٹن کا احساس ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس بار گرمیوں میں جب ہم اسے کراس کرنے لگے، تو دورانِ سفر میرا جی گھبراتا تھا۔ اب بھی ٹنل کے اندر تازہ ہوا اور روشنیوں کا انتظام ناکافی سا ہے۔ اُمیدِ واثق ہے کہ جلد ہی یہ کمی بھی پوری کر دی جائے گی۔
بہ ہرحال اس پروجیکٹ کی تکمیل سے 10230 فٹ کی بلندی پر رہنے والے 5 لاکھ کے قریب اہلِ چترال کے لیے پاکستان کے دوسرے حصوں تک آنے جانے میں آسانی ہوگئی ہے۔ اس منصوبے پر 26 ارب 85 کروڑ اور 50 لاکھ روپے لاگت آئی ہے۔
لواری پاس بند ہوتا، تو اہلِ چترال کی سانسیں بھی تنگ ہونا شروع ہوجاتی تھیں۔ کیوں کہ 2009ء کے سوات آپریشن میں پاک آرمی نے سوات میں موجود دہشت گردوں کو افغانستان کے صوبے کنڑ اور نورستان کی طرف دھکیل دیا تھا۔ اہلِ چترال جو لواری پاس بند ہونے پر افغانستان کے صوبہ کنڑ میں سے گزر کر پشاور آتے تھے۔ وہ رستہ بھی بند ہوچکا تھا۔
دوسرا رستہ چترال سے بہ راستہ شندور پاس گلگت بلتستان کے ذریعے پاکستان کے دوسرے علاقوں تک رسائی کا تھا۔ شدید برف باری سے یہ رستہ بھی سردیوں میں بند ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اہلِ چترال چاروں طرف سے گھر جاتے تھے۔ کیوں کہ چترال چاروں طرف سے اونچے اونچے پہاڑوں میں گھرا علاقہ ہے۔ یہاں تک رسائی فقط پہاڑی دروں ہی سے ممکن ہے، جو برف باری کی وجہ سے سردیوں میں بند ہو جاتے ہیں۔ کچھ سر پھرے سردیوں کے موسم میں بھی لواری پاس کو کراس کر کے دیر تک پہنچ تو جاتے تھے، مگر یہ بہت خطرناک کام ہوتا تھا۔ کیوں کہ ہر سال کم و بیش آدھ درجن لوگ اسی راستے پر اپنی جان گنوا بیٹھتے تھے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔