عمومی خیال یہ ہے کہ والیِ سوات ریاستی ملازمین کو، جب وہ ان کی کارکردگی سے ناخوش ہوتے، جسمانی طور پر سزا دیتے۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے، لیکن ایسا فرعونیت یا بدمزاجی کی وجہ سے نہیں تھا، بل کہ اپنی رعایا کو فرائض میں غفلت برتنے پر ایک باپ کی طرح یاد دہانی کرانا تھا۔ انھیں ہر چیز میں 100 فی صد درستی کی توقع ہوتی۔ یہی طرزِ عمل خود ان کا بھی تھا۔ انھوں نے تمام ریاستی مشینری کو متحرک اور سخت کنٹرول میں رکھا۔ انھوں نے ایک شاہی فرمان بھی جاری کیا تھا کہ تمام تحصیل دار اور حاکم ریاستی P.W.D کے ساتھ رابطہ قائم رکھتے ہوئے ریاست کے زیرِ تعمیر منصوبوں کا باقاعدگی سے دورہ کرتے رہیں۔
ایک شام، جب مَیں اپنے افسر کے ساتھ اس کی رہایش گاہ پر بیٹھا تھا، تحصیل دار لنڈاکی نے فون پر کال کی اور میرے افسر کو بتایا کہ آکٹرائی پوسٹ کی تعمیر پر کام کرنے والا ٹھیکہ دار دھوکا کر رہا ہے۔ ہم نہایت سرعت کے ساتھ لنڈاکی کے مقام پر پہنچے۔ ہم جان گئے کہ مستری کیا چالاکی کر رہا تھا۔ میرے باس نے اس آدمی کو دو تین تھپڑ مارے اور پوسٹ پر موجود سپاہیوں سے کہا کہ وہ اب تک کیے گئے کام کو گرا دیں۔ ہم سیدو شریف واپس آگئے۔ اس نے مجھے رات کے کھانے پر ٹھہرنے کو کہا۔ رات کا کھانا شروع کرتے ہی ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ مَیں نے ریسیور اٹھایا۔ ٹھیکہ دار کی کال تھی۔ اس نے میرے باس سے بات کرنے کی خواہش کی۔ اس نے ریسیور لیا۔ کچھ جملوں کے تبادلے کے بعد دوسری طرف سے آواز اونچی ہو گئی۔ اس نے اپنے آدمی کی پٹائی کی شکایت کی۔ بات چیت سخت الفاظ کے تبادلے پر ختم ہوئی۔ بہ ہر حال دونوں طرف مزید گڑبڑ کے بغیر معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
چند مہینوں بعد، والی صاحب نے کوٹہ قلعہ میں ایک کوارٹر کی تعمیر کا معائنہ کرنا تھا، جو اسی ٹھیکہ دار نے بنایا تھا۔ فرش کے معیار کو جانچنے کے لیے وہ اپنی گاڑی میں لکڑی کا ہتھوڑا رکھتے تھے۔ کنکریٹ کی ناقص قسم کھوکھلی آواز دیتی ہے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی انھوں نے ہتھوڑا مانگا۔ مَیں نے خود کو کسی بھی صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے تیار کیا، لیکن دل میں ارادہ کرلیا تھا کہ سب سچ کہوں گا۔
فرش نے ہتھوڑے کے وار کا بہ بانگِ دہل جواب دیا کہ صرف فنشنگ ٹھیک ہے، مگر نیچے بہت کم زور اور دبلی پتلی کنکریٹ ہے۔ وہ وضاحت طلب نظروں کے ساتھ میری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ ناقص معیار کے کام کی اجازت کیوں دی گئی؟ میں بے دھڑک بولا، ’’جناب! یہ ٹھیکہ دار بہت مسئلوں والا ہے۔ وہ میرے افسر کی بھی بات نہیں مانتا اور ہر کام اپنی مرضی کے مطابق کرتا ہے اور اس بات پر اتراتا بھی ہے۔‘‘
مَیں نے لنڈاکی کے سابقہ واقعہ کے بارے میں بھی انہیں بتایا۔
والی صاحب نے فوراً موقع پر ہی ٹھیکہ دار کو ہمیشہ کے لیے ’’بلیک لسٹ‘‘ کرنے کا حکم دیا۔ اُنھوں نے مجھے فرشیں اکھاڑ کر محکمانہ عملے کے ذریعے دوبارہ بنانے کی ہدایت کی۔ ایک بات میں وثوق سے کَہ سکتا ہوں کہ والی صاحب نے مجھے کبھی جسمانی سزا نہیں دی۔ کیوں کہ شکل سے، مَیں بہت نازک اور معصوم لگتا تھا۔
کچھ منفی سوچ رکھنے والے لوگوں نے والی صاحب کو ایک ظالم حکم ران کے طور پر پیش کیا ہے۔ والی صاحب کا یہ امیج بالکل بے بنیاد اور اصل حقائق سے کوسوں دور ہے۔ یقینا وہ ایک طاقت ور حکم ران تھے اور جیسا کہ روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی "TASS” نے خبر دی تھی، لیکن وہ ایک مہذب حکم ران تھے۔
اگر انھوں نے کسی کو مین روڈ کے کنارے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا، تو اسے سزا دی، لیکن خود نہیں۔ وہ اس کو ایک، دو تھپڑ مارنے کے لیے ایک محافظ بھیجتے۔ وہ سڑک کے کنارے درخت کاٹنے والوں کے لیے بھی بہت سخت تھے۔ زیادہ تر سڑکوں پر دونوں طرف درخت لگے ہوئے تھے، جس سے سفر خوش گوار ہوتا۔ کچھ جگہوں پر، درختوں نے ایک خاص اونچائی پر ایک دوسرے کو گلے لگا کر، ایک سبز سرنگ بنائی تھی۔ ان قدرتی سرنگوں سے گزرنا بہت خوش گوار ہوتا تھا۔ ایسی سب سے لمبی سرنگ بری کوٹ سے شنگردار تک کی سڑک پر تھی۔ اب آپ موجودہ منظر نامے کو دیکھتے ہوئے فرق دیکھ سکتے ہیں۔
مَیں نے صرف ایک بار والی صاحب کو ذاتی طور پر معنبر نامی سٹیٹ گرلز سکول بس کے ڈرائیور کو مارتے دیکھا ہے۔ افسر آباد میں ہمارے گھر کے بالکل نیچے ایک اندھا موڑ تھا۔ والی صاحب کی کار سیدو کی طرف سے اور بس ڈرائیور مخالف سمت سے آ رہا تھا۔ دونوں ڈرائیوروں نے بر وقت خطرے کو بھانپ لیا اور ایک دوسرے سے انچوں کے فاصلے پر رُک کر زور سے بریکیں دبائیں۔ اب سب کو معلوم تھا کہ والی صاحب ہمیشہ ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے تھے۔ اگر کار اور بس میں تصادم ہوجاتا، تو انھیں ضرور چوٹ لگتی۔ وہ اپنی گاڑی سے نیچے اترے اور بائیں ہاتھ سے معنبر کو نیچے کھینچا اور دائیں ہاتھ سے اس کی ٹانگوں پر ہنٹر سے ضربیں ماریں۔ تب مَیں ایک بچہ تھا اور اس وقت میں ایک ٹیلے کے اوپر کھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ چند جھڑکوں کے بعد وہ اسے چھوڑ کر شام کی معمول کی ڈرائیو پر چلے گئے۔
اگلے دن، ریاستی فوج کے ایک گروپ کو تقریباً 40 فٹ اونچے زمین کے ٹیلے کو کاٹ کر سڑک کو سیدھا کرنے کے لیے تعینات کیا گیا۔
والی صاحب درختوں کے معاملے میں بہت حساس تھے ۔ چنار اور ’’روز ووڈ‘‘ اس کے پسندیدہ درخت تھے۔ سڑک کے اطراف میں چنار کے درخت اگانے کی بھی خصوصی حوصلہ افزائی کی گئی۔ وہ چاہتے تھے کہ رعایا نظم و ضبط، خوش لباس اور اچھے طور طریقوں کی حامل ہو۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔