پچھلے کچھ عرصہ سے شرق الوسط میں تباہ آئی ہوئی ہے۔ جب سے حماس نے تل ابیب اور یروشلم پر حملہ کیا ہے، تب سے جنگ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ بھی زبانی جمع تفریق تک ہے اور اسلامی ممالک بھی دُبکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایران کچھ حرکت کرتا ہے اور پھر بھگت کر پیچھے ہوجاتا ہے۔ حزب ﷲ کی طاقت بھی کم ہوئی ہے اور یقینا اسرائیل کو بھی نقصان ہوا ہے۔
اَب تازہ پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اس تباہی کی کھوکھ سے شام میں سیاسی انقلاب آرہا ہے، بل کہ آچکا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ شام میں ہو رہا ہے، بے شک یہی لیبیا اور عراق میں ہوچکا ہے۔ نتیجے کے طور پر دونوں ممالک تباہ ہوئے اور اب شام میں بھی وہی حالات ہیں۔ بے شک ان عوامل کے پیچھے مغرب کی غاصب طاقتیں ہوں گی اور جو لوگ ملک کے مرکزی دھاروں کو تباہ کرکے قابض ہونے کی کوشش میں ہیں، وہ کوئی آئیڈیل لوگ بالکل نہیں، بل کہ اُن کی اکثریت مذہبی جنونیوں کی ہے اور یقینا مغرب ایسے فکری و نظریاتی حلقوں ہی کو استعمال میں لاتا ہے، لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ اس کا موقع خود مسلمانوں کی اشرافیہ دیتی ہے۔ مثلاً: عراق میں صدام حسین کو کیا امریکہ نے کہا تھا کہ وہ کردو کی نسل کشی کرے، شیعوں پر کیمیکل بمباری کرے، ایران سے غیر ضروری جنگ کی شروعات کرے یا کویت پر قابض ہو جائے؟
اسی طرح لیبیا کے کرنل قذافی کو کیا مغرب نے کہا تھا کہ وہ اقتدار کے ساتھ چمٹا رہے اور لیبیا کے عوام کی دولت سے اس کا بیٹا فرانس سے پانی، اٹلی سے جوتے اور نیو یارک سے ’’ہام برگر‘‘ منگوا کر کھائے؟
اسی طرح اُردن، مصر، متحدہ عرب امارات، سعودی عربیہ میں عوام کا حکومتی نظام و مشنری میں کوئی حصہ نہیں۔ اب جو کچھ شام میں ہوا، اُس سے شام بہ ہرحال عارضی طور پر تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس تباہی کے بعد یہ نہیں کہ ملک جمہوریت اور استحکام کی طرف جائے گا، بل کہ اس کی کھوکھ سے مزید انتشار جنم لے گا۔ کیوں کہ اس کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ یہاں کوئی عوامی یا متحدہ انقلاب نہیں آیا ہے، بل کہ ایک خاص نظریاتی گروہ اس کو لیڈ کر رہا ہے۔ چوں کہ اُس گروہ کا ماضی کا تعلق القاعدہ اور داعش سے رہا ہے، سو اس لیے اُس گروہ کے لیے شام کی تاریخی حیثیت اور ثقافت پر قائم رہنا ممکن نہیں۔
پھر شام کے اندر ایک بہت بڑی تعداد اگر شیعہ نہ بھی ہو، تو بھی اہلِ بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عقیدت رکھنے والوں کی ہے۔ بہت سے لوگ نظریاتی طور پر ’’زیدی طرزِ فکر‘‘ کے ہیں اور ایک معقول تعداد صوفی ازم کہ جس کے مذہبی نظریات ہمارے ہاں کے بریلوی فکر کے ہیں۔ پھر حزب اﷲ کا وہاں پر کافی اثر ہے۔ اس طرح شام کے شہروں دمشق اور حمص میں ایک قابلِ ذکر تعداد لبرل یا آزاد خیال سیکولر دماغ رکھنے والوں کی ہے۔ گویا اگر اِن سب کو اکٹھا کیا جائے، تو یہ شام کا 80 تا 85 فیصد بنتے ہیں، لیکن اب وہاں پر وہ طبقہ آگیا ہے حکومت کے ایوانوں میں، جو اپنے اندر بہت شدید قسم کے مذہبی جذبات رکھتا ہے۔ اُن کی مذہبی تشریح بہت علاحدہ ہے۔ وہ دین (اور وہ بھی اپنے فہم کے مطابق دین) کا نفاذ بہ زورِ طاقت کرنا عین عبادت سمجھتے ہیں۔ فی الحال تو چوں کہ شام کے عوام اسد خاندان کی ایک طویل ڈکٹیٹر شپ سے نالاں تھے۔ سو اس وجہ سے اُن کو بشار الاسد کی حکومت کے بچاو سے کوئی دل چسپی نہیں تھی، بل کہ اُن کی اکثریت بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہی چاہتی تھی۔ اس وجہ سے وہ غیر جانب دار رہے، بل کہ کسی حد تک ’’التریحر‘‘ کے حمایتی بن گئے، لیکن اب جب ’’نئے انقلابی‘‘ دمشق پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیں گے اور اپنے نظام کا نفاذ کریں گے، تو یقین رکھیں، ان کا نظام افغانی طالبان سے زیادہ سخت ہوگا۔ میرے خیال میں اس کا حتمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ شام کے دوسرے گروہ خاص کر دوسرا فکری سوچ رکھنے والا مذہبی طبقہ ایک ’’ری ایکشن‘‘ دے گا۔ اب فطرت کا یہ اُصول ہے کہ جس کو بہت عرصہ قبل نیوٹن نے تلاش کیا تھا کہ ہر عمل کا ایک ردِ عمل ہوتا ہے، لیکن وہ اس کی مخالف سمت ہوتا ہے۔ اس کی دینی تشریح یہ ہوسکتی ہے کہ خیر کی کوکھ سے خیر ہی نکلتی ہے اور شر کی کوکھ سے شر، امن کی کھوکھ سے امن نکلتا ہے اور دہشت کی کوکھ سے دہشت۔ تو یہ ردِعمل یقینی اسی طرح کا ہوگا۔
شام (خدا معاف کرے!) 70ء اور 80ء کے عشرے کا لبنان بن جائے گا۔ جہاں ہر طرف لہو اور لاشیں ہوں گی۔ مرکزی ڈھانچا بالکل بے وقعت ہوجائے گا اور (خدانہ خواستہ) کہیں شام تقسیم کی جانب نہ چل پڑے۔
شام کے یہ حالات سیاسی طور پر تو پورے شرق الوسط کو متاثر کریں گے ہی، لیکن دنیا کی بالعموم اور شرق الوسط کی بالخصوص معیشت کے لیے بھی تباہ کن ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی عدم استحکام اسرائیل کے لیے بہت مناسب ماحول فراہم کر ے گا۔ جو تھوڑا بہت مسئلہ اس کو شرق الوسط میں ہے، وہ مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔ اردن کا شاہی خاندان تو پہلے ہی اپنی بادشاہت محفوظ کرنے کے لیے اسرائیل کا خفیہ مدد گار ہے۔ ترکی اپنے معاشی معاملات کی وجہ سے اسرائیل کے خلاف جاتا نہیں۔ اسی طرح امارات، قطر اور سعودی بادشاہ سب ’’انکل سام‘‘ کی ہدایت پر چلتے ہیں۔ اَب شام جو کہ اسرائیل مخالف ایران حزب اﷲ اور حماس کا مضبوط بیس کیمپ تھا، وہ بشار الاسد کی رخصتی کی وجہ سے ختم ہوچکا، بل کہ ابھی کل پرسوں ایران کے پاس دارانِ انقلاب نے اپنی پارلیمنٹ کو یہ بریفنگ دی ہے کہ شام میں اَب ایرانی فوجی اثاثہ جات ختم کر دیے گئے ہیں اور تمام ایرانی فوجی اور افسران کو واپس بلا لیا گیا ہے…… یعنی اَب اسرائیل ایران کے ٹنٹنے سے فارغ ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِدھر شام میں انارکی بڑھی اور بشار الاسد فرار ہوگیا، اُدھر اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر پیش قدمی کرلی۔ اسرائیلی فضائیہ گولان کی پہاڑیوں پر باقاعدہ بمباری کر رہی ہے اور اپنے بارڈر سے آگے آچکی ہے، جب کہ دوسری طرف کرد علاقوں میں بھی تقریباً نیم خود مختاری والا معاملہ ہو رہا ہے۔
جیسا کہ پہلا لکھا جا چکا ہے کہ شام انارکی اور داخلی خانہ جنگی طرف مائل ہے۔ کم از کم اَب یہ بات میری سمجھ سے تو باہر ہے کہ شام کس طرح اس نزاکت سے نکلے گا؟ اور اگر عارضی طور پر نئی انتظامیہ عقل مندی سے داخلی تمام دھڑوں کو متفق کر بھی لیتی ہے، تو پھر بھی اس میں اتنی سکت کہاں ہوگی کہ وہ بیرونی معاملات سے نبرآزما ہو پائے؟ مثلاً: یہ بات تو بہت واضح ہے کہ حزب ﷲ اور ایران کا عمل دخل ختم ہوچکا ہے، بل کہ نئی انتظامیہ چوں کہ داعش کی کھوکھ سے جنم لے چکی ہے، تو اس کا ایران سے دوستی تو دور شاید نارمل حالات کے تعلقات بنانا بھی ممکن نہیں۔ اس طرح اس کا حزب اﷲ سے بہ راہِ راست ٹکراو کا خطرہ شدید ہے۔ سو اس کے لیے نئی انتظامیہ لامحالہ مذہبی طور پر اپنے فکری ساتھیوں (جیسے سعودی عرب اور امارات وغیرہ) کی طرف رجوع کرے گی۔ کسی حد تک بین الاقوامی سیاسی معاملات کی وجہ سے ترکی اس کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے۔ سو اس صورتِ حال میں بین الاقوامی معاملات اور سیاست کا ایک ادنا سا طالب علم بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ اسرائیل کے لیے ہر طرف اطمینان اور خیر ہی خیر ہے۔ کیوں کہ یہ توقع کرنا کہ سعودی عرب اور امارات امریکہ کے اشاروں سے نکل کر دلیری سے اسرائیل کے خلاف جائیں گے، ممکن ہی نہیں۔ سعودیہ کے شاہی خاندان یعنی آل سعود اور امارتی شاہی خاندان تو امریکہ کی حمایت پر ہی قائم ہے۔ اس بات کو امریکی اربابِ اختیار نے کبھی چھپایا بھی نہیں، بل کہ امریکہ کے منتخب صدر ڈولنڈ ٹرمپ نے تو اپنے پچھلے دورِاقتدار میں میڈیا پر یہ تک کَہ دیا تھا کہ مَیں نے سعودی شاہ کو واضح طور پر کہا ہے کہ ہم امریکی آپ کی بہت عزت کرتے ہیں، لیکن آپ کا اقتدار ہمارا محتاج ہے۔
ویسے بھی محمد بن سلمان کی ولی عہدی کی وجہ سے آل سعود میں اندرونی طور پر سخت مشکلات ہیں۔ شاہ سلمان کے خاندان کے علاوہ دوسرے تمام شہزادے بہت مایوس ہیں اور وہ کسی بھی غیبی مدد یا حالات کا انتظار کر رہے ہیں۔ سو اس صورتِ حال میں سعودی شاہ امریکہ کی ادنا بھر مخالفت ایفورڈ نہیں کرسکتا۔
دوسری طرف ترکی کبھی اپنے معاشی معاملات پر سمجھوتا نہیں کرتا اور اس کی اسرائیل کے ساتھ اربوں کی تجارت ہے…… یعنی ان تمام حالات کی اگر کل تشریح کی جائے، تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا۔ اب اسرائیل اپنی مرضی سے نئی پیش بندی کرے گا۔ فلسطین کے تمام حریت پسند عناصر کا قلع قمع کر دے گا۔ یرو شلم یعنی القدس کو اپنا دارالحکومت بنا دے گا اور شرق الوسط میں ایک ایسا معاہدہ کرلے گا کہ نہ تو وہ دو ریاستوں کو تسلیم کرے گا اور نہ فلسطین کا اپنی سرزمین پر کوئی دعوا۔ ایران حزب اﷲ عراق حتی کہ لبنان کو مکمل طور پر نظر انداز کروالے گا اور یقینی طور پر اپنے نظریے کے مطابق ’’گرئیٹر اسرائیل‘‘ کہ جو خیبر سے ہو کر مدینہ تک کا علاقہ ہے، وہاں اس کی پیش بندی مکمل سکون سے شروع کر دے گا۔
لیکن میرا ایک سوال مسلم امہ کی اُس جاہل جذباتی لاٹ سے ہے کہ جو بشار الاسد کی حکومت کے خاتمہ کو بین الاقوامی سازش خاص کر اسرائیل و امریکہ کا شاخسانہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی بات سو فی صد درست ہوسکتی ہے، بل کہ ہے بھی، لیکن اسرائیل اور امریکہ کو یہ موقع کس نے مہیا کیا؟ ہم ذاتی طور پر اس تمام صورتِ حال کا ذمے دار صرف اور صرف بشار الاسد کو سمجھتے ہیں۔ بشار الاسد کو حکومت کی لالچ سے نکلنا چاہیے تھااور عوام کے اندر بڑھتی ہوئی معاشرتی بے چینی اور سیاسی فرسٹریشن کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک نئے سیاسی نظام کی جانب پیش رفت کرنی چاہیے تھی، جو جمہوریت کی طرف سفر کا آغاز ہوتا، لیکن اقتدار کی ہوس نے بشار الاسد کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور اس کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا۔ کاش! عراق، لیبیا اور تیونس کے بعد ہمارے مسلم خاص کر عرب حکم ران بدلتے ہوئے حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور ابھی سے پیش بندی کرلیں۔ وگرنہ ہمیں خطرہ ہے کہ یہ شام کا ’’امریکی ساختہ انقلاب‘‘ مستقبل میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور عمان تک پھیل جائے گا، جس میں مکمل نقصان صرف ملتِ اسلامیہ کا ہوگا۔ اگر ادھر انقلاب نہیں آتا، تو یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اب یہ خطہ امریکی صدر کے بہ راہِ راست کنٹرول میں رہے گا کہ جس کا انتظام یا دارالحکومت یروشلم ہوگا۔
قارئین! یہ بات لکھ کے رکھ لیں کہ آیندہ چند ماہ تک عمان، امارات سمیت خادم الحرمین شریفین جلالہ المک صاحب سمول المکی حضرت محمد بن سلمان باقاعدہ شریعتِ اسلامیہ کے تحت نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے، بل کہ اسرائیل کے ساتھ معاشی، تجارتی اور سیاسی تعلقات کو امتِ اسلامیہ کے مفاد میں قرار دیں گے۔ جب اسرائیل کو ریاض اور ابو ظہبی نے تسلیم کرلیا، تو پھر اسلام آباد کی کیا اوقات ہے۔
سو میرے عزیز پاکستانیو! عن قریب تیار رہو اسرائیل کا استقبال کرنے کے لیے اور نتیجے کے طور پر ہر طرف خاص کر افغانستان اور ایران کی شکل میں مزید دشمن بھی قبول کرو۔ پیشگی مبارک باد ہو تمام امتِ اسلامیہ کو۔ ڈکٹیٹروں کو برداشت کرو اور دنیا میں رسوا ہوں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
