کیا پی ٹی آئی کی قیادت 24 نومبر کو اپنے بانی چیئرمین کے حکم کے مطابق ’’کرو یا مرو‘‘ کے نعرے کو عملی جامہ پہنا سکے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو اس وقت سنجیدہ حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ آئیے، حالات کے تناظر میں جائزہ لیتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے؟
جہاں تک علی امین گنڈا پور کی تیاری اور ارادوں کی بات ہے، تو وہ حسبِ معمول اور حسبِ روایت بھرپور فارم میں نظر آ رہے ہیں۔ وہ اپنی بیان بازی اور ورکرز میں جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے خوب چوکے چھکے لگا رہے ہیں، مگر ماضی میں متعدد بار ایسا ہوچکا ہے کہ وہ اچھی بیٹنگ تو کرتے ہیں، لیکن میچ فنش نہیں کر پاتے۔ ان کی کمند لبِ بام سے دوچار ہاتھ کی دوری پر ٹوٹ جایا کرتی ہے۔ دیکھیں، اس مرتبہ وہ کوئی پھل دار تحریک چلا پاتے ہیں، یا ماضی کی روایات کو دہراتے ہیں؟ البتہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وہ اس مرتبہ پُرامن تحریک نہیں چلائیں گے۔ اُنھوں نے اسلام آباد پر ہلہ بولنے اور اسے گھیرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ یہی نہیں سروں پر کفن باندھ کر نکلنے کا دعوا بھی کر دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ کام یابی ملنے تک واپس بھی نہیں آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ گنڈاپور، اُن کی تمام لیڈرشپ اور ورکروں کو سلامت رکھے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ کوئی بہت بڑی شخصیت جو کہ دونوں متحارب فریقوں کی مشترکہ دوست ہے۔ حرکت میں آ چکی ہے۔ اللہ کرے کہ 24 نومبر سے پہلے کوئی بڑا بریک تھرو ہو جائے۔اُدھر بشریٰ بی بی نے اپنی پارٹی کے 90 کے قریب ایم این ایز کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ 24 نومبر کو ہر ایم این اے اپنے ساتھ 10 ہزار بندے لے کر اسلام آباد پہنچے۔ ہر ایم پی اے کو 5 ہزار بندے لانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ یہ ٹاسک حکم کی صورت میں ہے، جو بہ جائے خود اپنے اندر کئی سوالات رکھتا ہے۔ قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے نیچے دو صوبائی حلقے ہوتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک قومی حلقے سے 10 ہزار ایم این اے اور 10 ہزار دو ایم پی ایز یعنی کل 20 ہزار بندے اس غیر معینہ مدت کے احتجاج کے لیے نکال سکیں؟ یہ ناممکن کی حد تک مشکل ٹاسک ہے۔ اتنے لوگ تو حلقے کے اندر ہی منعقدہ سیاسی جلسے میں اکٹھے کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ دوسرے حلقوں اور اضلاع سے لوگ اکٹھے کرکے جلسے کو کام یاب بنایا جاتا ہے۔میرا خیال ہے کہ بشریٰ بی بی نے خود کو اور لیڈرشپ کو ایک بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے، جس کا نتیجہ حسبِ منشا نکلنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ بے تحاشا مہنگائی کی وجہ سے مزدود طبقہ روزانہ کنواں کھود کر اپنے خاندان کے جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے کی تگ و دو کرتا نظر آتا ہے۔ کاروباری طبقے کو ایسے احتجاجوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اوپر سے اسلام آباد رہنے کی مدت بھی غیر معینہ ہے۔
اپنے لائے ہوئے بندوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام، ٹرانسپورٹیشن اور دیگر اخراجات بھی متعلقہ ایم این اور ایم پی اے کو خود کرنا ہوں گے، جو کہ بہت مشکل امر ہے۔ ہر پارٹی میں خون دینے والے چند ایک اور دودھ پینے والے لیڈران ہزاروں میں ہوتے ہیں۔
ایک اور مشکل مطالبہ بھی بشریٰ بی بی کی طرف سے سامنے آیا ہے کہ تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز نے 24 نومبر تک خود کو گرفتاری سے ہر صورت بچانا ہے۔ بہ صورتِ دیگر انھیں پارٹی سے فارغ کر دیا جائے گا۔ انھین یہ شک ہے کہ بعض عوامی نمایندے جان بوجھ کر گرفتاری دے سکتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں عملی طور پر ایسا ممکن نہیں کہ کوئی ایم این اے فرنٹ فٹ پر آکر 10 ہزار بندوں کو موبلائز کرنے کے لیے کوشش کرے، ان کی ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرے، ان کے لیے غیرمعینہ مدت تک کا راشن پانی خرید کر قافلے کے ساتھ لے جانے کا انتظام کرے اور گرفتاری سے بھی بچ جائے۔ ویسے بھی پنجاب میں پی ٹی آئی ورکرز اور لیڈر شپ میں کوئی تیاری نظر نہیں آ رہی۔اُدھر کے پی میں موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں بعض پارٹی عہدے داروں نے استعفے دے کر اپنی لاتعلقی ظاہر کر دی ہے۔ شنید ہے کہ کچھ ایم این ایز بھی اس جہاد سے لاتعلقی اختیار کرنے جا رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی قیادت کو ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ لاکھوں لوگوں کو پریشان اور اربوں کا نقصان نہ کریں۔ آپ صرف اپنے تمام ایم پی ایز، ایم این ایز، ٹکٹ ہولڈرز اور مرکز سے لے کر ضلعی سطح کے تمام پارٹی عہدے داران سے کہیں کہ اپنے تمام افرادِ خانہ اور قریبی رشتہ داروں کو لے کر ڈی چوک پہنچ جائیں۔ 50، 60 ہزار تو یہ بھی بن جائیں گے۔ یہ وی وی آئی پی لوگ ہوں گے۔ حکومت ان پر ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبرائے گی۔ یہ وہاں آزادی سے توڑ پھوڑ کریں، عمارتوں اور درختوں کو آگ لگائیں۔ اگر کوئی انھیں زبردستی روکے، تو ویڈیوز بناکر سوشل میڈیا پر ’’اَپ لوڈ‘‘ کر دیں۔ پوری دنیا میں حکومت پر دباو بڑھانے کے لیے احتجاج شروع ہوجائے گا کہ پاکستان کی ایلیٹ کلاس پر اتنا ظلم ہو رہا ہے، تو عوام کے لیے انسانی حقوق کی کیا صورتِ حال ہوگی۔ ملک بھر سے آپ کے ورکرز کسی کے کہے بغیر ہی سڑکوں پر نکل آئیں گے اور چیئرمین پی ٹی آئی کی خواہش کے مطابق بنگلہ دیش طرز کا انقلاب آجائے گا۔
اگر لیڈرشپ اپنی فیملیز اور اولادوں کو گھر کے مورچوں میں بند کرکے عوام سے قربانی مانگے گی، تو اس کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکلیں گے۔ اس عظیم انقلاب کے لیے اپنے بیٹوں، بھتیجوں، بھانجوں اور بھائیوں کے سروں پر کفن باندھ کر میدان میں نکلیے۔ ورکرز خود ہی گھروں سے نکل آئیں گے اور ہاں پارٹی کے لیے انتہائی مخلص یاسمین راشد، میاں محمود الرشید اور اعجاز چوہدری ایک سال سے زائد عرصہ سے کوٹ لکھپت جیل میں قید ہونے کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں، لیکن آج تک ان سے پارٹی کی لیڈر شپ نے ملاقات کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ پارٹی ان کا کیس لڑنے کی بہ جائے لاتعلق ہوچکی ہے۔
لیڈرشپ کو چاہیے کہ ان سے ملاقات کرکے عوام کو پیغام دیا جائے کہ پارٹی نے انھیں تنہا نہیں چھوڑا۔ پارٹی اپنے ساتھیوں کی قدر کرتی ہے۔ گذشتہ دنوں شاہ محمود قریشی بھی یہی شکوہ کرتے نظر آئے ہیں کہ پارٹی نے انھیں بھلا دیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔