مَیں (نوکری مانگنے) بہ راہِ راست حکم ران کے دفتر جاسکتا تھا، لیکن مجھے ڈر تھا کہ میرے والد مجھے دیکھ لیں گے۔ کیوں کہ مجھے ان کے دفتر کے سامنے کے لان سے گزرنا پڑتا، یا پھر کوئی انھیں بتا بھی سکتا تھا۔ (اسی بنا پر) مَیں شہزادہ عالم زیب باچا کے گھر گیا، جنھیں عرفِ عام میں ’’حافظ بہادر شہزادہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ بچپن میں ہی ان کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی تھی۔ اس لیے انھوں نے قرآنِ پاک حفظ کرلیا تھا۔ وہ ریاست کی تعلیمی ترقی میں بہت دل چسپی رکھتے تھے اور ہر سال سیکڑوں طلبہ میں کتابیں تقسیم کرتے تھے۔
مجھے نوکر نے بلایا، تو اس نے مجھے اپنے قریب قالین پر بیٹھنے کو کہا۔ مَیں نے اپنے آنے کا مقصد بتایا۔ وہ غصے میں لگ رہا تھا۔ میری طرف سے مڑ کر بولا: ’’مَیں تمھارے لیے اپنے والد سے سفارش نہیں کروں گا۔ مَیں سب کچھ جانتا ہوں۔ کیا تمھیں یہ لگتا ہے کہ اس کمرے میں بیٹھا یہ نابینا آدمی نہیں جانتا کہ تم کون سی بری سوسائٹی میں شامل ہوگئے ہو۔ اسی لیے آپ کو اس سال یونیورسٹی کے امتحان میں کم حاضری کی وجہ سے بیٹھنے نہیں دیا گیا ہے۔‘‘
مَیں اُٹھ کھڑا ہوا اور کچھ کہے بغیر کمرے سے نکل آیا۔
اگلے دن 28 جون کی تاریخ تھی۔ سیدو ہسپتال میں ہمارا سوشل ورک پروگرام جاری تھا۔ ڈاکٹر نجیب ہمیں کچھ عام بیماریوں جیسے خون کی کمی، ملیریا، پیچش وغیرہ کے بارے میں لیکچر دے رہے تھے کہ ایک آدمی کمرے میں داخل ہوا۔ اُس نے رائل گارڈز کی وردی پہن رکھی تھی۔ اُس نے میرے بارے میں پوچھا۔ ڈاکٹر نجیب نے مجھے کھڑے ہونے کا اشارہ کیا۔ گارڈ نے مجھے بتایا کہ میں اُس کے ساتھ سوات کے حکم ران سے ملنے جا رہا ہوں۔ میرے ہم جماعت نے مجھے گھورتی نظروں سے دیکھا، لیکن مَیں جانتا تھا کہ اس حکم کے پیچھے کیا ہے ۔ مَیں گارڈ کے ساتھ چلا گیا۔ حاکم نے فوراً دربان سے کہا کہ مجھے شاہی دفتر میں لے جائے۔ والی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے نوکری چاہیے ؟ میں نے کہا، ہاں! اُنھوں نے پوچھا کہ ’’تم اپنی پڑھائی کیوں نہیں جاری رکھتے؟ عالم زیب تھماری تعریفیں کر رہا تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ تم بہت ذہین ہو۔‘‘مَیں نے کسی طرح انھیں اپنا مسئلہ بتا دیا اور نوکری کا انتخاب کیا۔ انھوں نے ایک بار پھر نہایت شفقت سے ریاست کے کسی بھی محکمے کا انتخاب کرنے کو کہا۔ مَیں نے کہا کہ مَیں، جہاں بھی ہز ہائینس مناسب سمجھے، خدمت کروں گا۔ اُنھوں نے مجھے محمد کریم، P.W.D کے ہیڈ آف اسٹیٹ، کو رپورٹ کرنے کو کہا۔
یوں تکنیکی قابلیت کے بغیر میری ٹیکنیکل ملازمت کا آغاز ہوگیا۔ اس طرح مَیں نے ایک پیشہ ور نگران (اورسیئر) کے طور پر والی صاحب کے ساتھ 8سال اور انضمام کے بعد صوبائی حکومت میں 34 سال کام کیا۔
والی صاحب کے دفتر سے واپسی پر مَیں اپنے والد صاحب سے ملا اور اُنھیں بتایا کہ کیا ہوا ہے۔ وہ بہت پریشان ہوئے اور کہا کہ وہ ابھی جا کر والی صاحب سے احکامات منسوخ کرنے کی درخواست کریں گے۔ لیکن اُن کے باس نے اُن کا غصہ ٹھنڈا کیا اور اُنھیں مشورہ دیا کہ وہ جاکر والی صاحب کی اس مہربانی کا شکریہ ادا کرے، جو اُنھوں نے بغیر کسی درخواست کے، اُن کے بیٹے پر کی۔ چناں چہ اُنھوں نے ویسا ہی کیا۔ ملاقات میں والی صاحب نے اس امید کا اظہار کیا کہ مَیں اپنے والد کی ایمان داری اور وفاداری کی مثال پر عمل کروں گا۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔