1959ء سے 1961ء کے تعلیمی سالوں کے دوران میں جہانزیب کالج کو کچھ مخلص اساتذہ اور نظم و ضبط کے ماہر پرنسپل لیفٹیننٹ کرنل فیض اللہ خان خٹک کی رخصتی سے بڑا دھچکا لگا۔ پروفیسر عبدالسلام، علیم صدیقی، اشرف الطاف، سردار نوازش علی پاشا، اورنگزیب خان اور سلطان خان جیسے سینئر ماہرینِ تعلیم کی جگہ نئے فارغ التحصیل ماسٹرز کو تعینات کیا گیا۔ اُن نئے اساتذہ کو پڑھانے کا تجربہ حاصل کرنا ابھی باقی تھا۔
پرنسپل، خواجہ ایم اشرف ایک عمر رسیدہ ریٹائرڈ پروفیسر تھے، جن کے پاس جہانزیب کالج جیسے معزز ادارے، جو پورے پاکستان میں معیاری تعلیم کے لیے مشہور تھا، کو چلانے کا کم ہی تجربہ تھا۔ ہمارے ساتھ لاہور اور سیالکوٹ تک کے طلبہ پڑھ رہے تھے۔ علاوہ ازیں ہمارے پاس ملاکنڈ ایجنسی، چترال، دیر، مردان اور چارسدہ کے طلبہ کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔
خواجہ ایم اشرف کے پاس کرنل خٹک کی کرشماتی قد آور خصوصیات کا فقدان تھا۔ اُن کی انتظامیہ بہت ڈھیلی تھی اور عملہ اکثر اُن کے کام کرنے کے انداز کا مذاق اُڑایا کرتا تھا۔ ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز اور ڈائریکٹر ایجوکیشن کو اپنے محکموں کی نوعیت کی وجہ سے ہر ’’ورکنگ ڈے‘‘ کی صبح والی صاحب سے ملنا پڑتا تھا۔ پرنسپل صاحب بھی یہی حیثیت چاہتے تھے۔ چند بِن بلائی ملاقاتوں کے بعد اُنھیں کالج کے احاطے میں رہنے کی ہدایت دی گئی۔ اُنھیں کہا گیا کہ جب بھی حکم ران اُن سے ملنا چاہیں گے، اُنھیں بلایا جائے گا۔
یہ اور بات تھی کہ ریاستی حکم کے موجب حیثیت یا ’’پروٹوکول‘‘ میں وہ صحت اور تعلیم کے ڈائریکٹرز کے ساتھ ایک ہی سطح پر تھے۔
سٹاف پر اُن کی کم زور گرفت کی وجہ سے مجھے نقصان اُٹھانا پڑا۔ شومئی قسمت سے، اپنے تھرڈ ایئر میں، مَیں پٹری سے اُتر گیا۔ مَیں ’’ایف اے‘‘ میں اپنی خراب کارکردگی کے صدمے سے ابھی نہیں نکلا تھا۔ مَیں کبھی کبھار ہی کلاسز میں شرکت کرتا اور اکثر روزانہ ایک یا دو پیریڈز کو چھوڑ دیتا۔
پھر ایک اور مصیبت گلے پڑگئی۔ صدر ایوب کے دورِ حکومت میں ڈگری کورس کو 3 سال تک بڑھا دیا گیا اور ہر سال امتحان میں شرکت کے لیے ایک مقامی ٹیسٹ پاس بھی کرنا پڑتا تھا۔
ہمیشہ کی طرح، مَیں نے تمام مضامین میں ٹاپ کیا، لیکن پھر بھی پرنسپل نے میرا نام ڈگری کے فرسٹ ایئر کے امتحان میں شامل ہونے سے روک دیا۔ کیوں کہ میری حاضریاں کم تھیں۔ مَیں نے اُن سے اُن کے دفتر میں ملاقات کی اور اُنھیں اپنی کارکردگی کے بارے میں بتایا۔ اُنھوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ مسٹر کیانی میرا نام امتحان کے لیے بھیجنے کے خلاف ہیں۔
مَیں کیانی سے بھی ملا، لیکن وہ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔
لہٰذا مَیں نے اپنی پڑھائی جاری رکھنے کا حوصلہ ہار دیا اور نوکری تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ میری عمر تب صرف 18 سال تھی۔ وائے ہو میری زندگی کو تباہ کرنے کے لئے۔ یہ میرے ’’قلندری‘‘ کا پہلا مرحلہ تھا جیسا کہ میرے والد کے پیر صاحب نے پیش گوئی کی تھی۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔