کبھی خواب نہ دیکھنا (تیرھویں قسط)

Blogger Riaz Masood
 ہمارے دور میں میٹرک کے امتحانات پشاور یونیورسٹی یک بارگی کراتی تھی۔ یونیورسٹی کی طرف سے مقرر کردہ تاریخ سے تین ماہ قبل، ٹیسٹ کرائے گئے، تاکہ یہ تعین کیا جاسکے کہ کون سا طالب علم فائنل امتحان میں شرکت کے لیے اہل ہے؟ اسے ’’ڈیٹنشن ایگزام‘‘ کہا جاتا تھا۔ فیل ہونے والے طلبہ کو اُن کی امتحانی فیس واپس کردی جاتی تھی۔
ہمارے ’’ڈیٹنشن ٹیسٹ‘‘ کے بعد نتیجہ آنے میں غیر معمولی تاخیر ہوئی۔ چناں چہ ہم میں سے چند لوگ ہیڈ ماسٹر کے دفتر گئے، تاکہ یہ معلومات حاصل کی جاسکیں کہ نتیجے کا کب اعلان کیا جائے گا؟ تاکہ اہل طالبِ علم سالانہ امتحان کی تیاری کرسکے۔
ہیڈ ماسٹر رضی الدین حسن نامی ایک مہاجر تھے۔ اُنھوں نے جو جواب دیا، اُن کے الفاظ میں ہو بہ ہو یہاں نقل کر رہا ہوں اور وہ الفاظ یہ تھے: ’’ارشد کی والدہ کہتی ہے کہ نتیجے کا اعلان نہ کرنا، یہ پٹھان ہم سب کو مار ڈالیں گے۔‘‘
مختصراً، وہ دو دن کی چھٹی پر چلا گیا اور گران بادشاہ نے نتیجے کا اعلان کر دیا۔ سرِ عام نہیں، بل کہ فیل شدہ لڑکوں کو ایک ایک کرکے ہیڈ ماسٹر کے دفتر بلایا گیا اور اُن کی امتحانی فیس 17 روپے واپس کر دی گئی۔
بہ ہر حال، مَیں نے 15 سال کی عمر میں میٹرک پاس کرلیا اور جہانزیب کالج میں آرٹس کے طالبِ علم کے طور پر داخلہ لیا۔ میرے مضامین انگریزی، شہریت، تاریخ اور فارسی تھے۔ اُردو میرا اختیاری مضمون تھا۔ میرے پرانے دوست حیدر علی خان نے پری میڈیکل میں داخلہ لیا۔ یوں ہم ایک ساتھ طویل سفر کے بعد الگ ہوگئے، لیکن سائنس اور آرٹس گروپ کے انگریزی کے پیریڈ مشترکہ طور پر ہوتے تھے۔
جب سردیوں کی یونیفارم شروع ہونے والی تھی، تو امیر طلبہ کو درزی کے نئے سلے سوٹ یا شیروانی مل گئی اور غریب طلبہ نے صرف 10 روپے میں سیکنڈ ہنڈ شیروانیاں خریدیں ۔ مَیں نے ’’کباڑ‘‘ والی شیروانی لینے سے انکار کر دیا اور میرے والد نے بڑی مشکل سے مجھے مینگورہ کے مشہور درزی بہروز اُستاد کی تیار کردہ نئی شیروانی 70 روپے میں دِلائی۔ میرے بھائی شیر خان نے ہندوستان سے سفید پینٹ اور شرٹ بھجوا دی اور اس طرح میں ایلیٹ کلاس کی طرح دِکھاوا کرنے کے قابل ہوگیا۔
مَیں شدت سے کچھ یادگار شاعری یا نثر لکھنا چاہتا تھا، لیکن ناکام رہا۔ اَب تک کسی ایسے شخص کی تلاش جاری تھی، جس سے میں محبت کرسکوں۔ ماضی میں ادب کے تمام بڑے ناموں کے سکینڈل مشہور تھے، جیسے غالبؔ اور ڈومنی کا عشق، اقبالؔ اور عطیہ فیضی، صغیر صدیق اور میرا جی۔
پھر مَیں نے جوش کے بارے میں پڑھا جس کی پہلی محبت ایک ’’یورو ایشین‘‘ لڑکا تھا۔ اُس قسم کی محبت آسان تھی۔ کیوں کہ لڑکی سے محبت کرنا پُرخطر تھا، لیکن مَیں اس میدان میں بھی ناکام رہا۔ میرا ذوق ہر اُس نئے چہرے کے ساتھ بدل جاتا، جس سے میں پیار کرنا اور پھر کچھ اشعار لکھنا چاہتا۔ ایسا شعر جس میں ہجر کے درد کو بیان کیا جاتا ہے، جو ہمارے مشرقی اَدب کا ایک پسندیدہ موضوع ہے۔
مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ اکثر بڑے شاعر شرابی تھے، لیکن یہ ہماری دسترس سے باہر تھا۔ اچانک مجھ پر ایک انکشاف ہوگیا۔ مَیں دوسروں سے محبت کرنے سے قاصر تھا۔ کیوں کہ میں پہلے ہی ایک ایسے شخص کی محبت میں مبتلا تھا، جس نے مجھے کسی اور سے پیار ہی نہیں کرنے دیا۔
وہ شخص مَیں خود تھا۔ مَیں ایک خود فریب نرگسیت پسند انسان تھا۔ یہ اُن رویوں کا نفسیاتی ردِ عمل تھا، جس کا مجھے سامنا پڑا۔ میرے ناخوش گوار نقوش و خطوط کی وجہ سے مجھے دوسرے لڑکوں نے نظر انداز کر دیا تھا۔ اگرچہ میرے بہت سارے مخلص اور خیال رکھنے والے کلاس فیلوز تھے، جو واقعی مہربان تھے اور جب بھی مجھے اُن کی ضرورت پڑی، میری مدد کی، لیکن ہم ایک دوسرے کے بغیر رہ سکتے تھے۔ لیکن میں زیادہ تر کسی ایسے شخص کی تلاش میں رہا، جو مجھ سے محبت کرے۔ یہی وجہ تھی کہ مَیں نے شاعری ترک کر دی اور اس منصوبے کو اپنے لاشعور میں دفن کر دیا۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے