وقت گزرتا گیا۔ ہمارا سالانہ مڈل اسٹینڈرڈ امتحان 1956ء میں جہانزیب کالج کے ہال میں شروع ہوا۔ ہدایت اللہ خان نامی شخص غالباً پشاور سے، ہمارے ہیڈ ایگزامنر تھے۔ میری سیٹ کے پیچھے ایک لنگڑا لڑکا بیٹھا تھا۔ اُس نے مجھے میرے جوابی پرچے کو ایک خاص پوزیشن میں رکھنے کو کہا، تاکہ وہ اُس سے نقل کرسکے۔ مَیں نے انکار کر دیا اور اپنا پرچہ لکھنا جاری رکھا۔ جیسے ہی مَیں نے جوابی پرچے ایگزامنر کے حوالے کیے اور ہال سے باہر نکلا، تو وہ لنگڑا لڑکا بھی میرے پیچھے آگیا۔ مَیں مین روڈ پر نکلا اور افسر آباد میں واقع اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ مَیں نے کچھ آوازیں سنیں۔ پیچھے مُڑ کر دیکھا، تو وہ لڑکا ایک بڑا چاقو نکال کر میرے پیٹھ میں گھونپنے والا تھا۔ مَیں اپنی جان بچانے کے لیے بھاگا اور مین روڈ کی بہ جائے سیدھا سوات ہوٹل میں داخل ہوگیا۔ زیادہ تر عملہ اور انتظامیہ والے مجھے جانتے تھے۔ مَیں نے خود کو محفوظ محسوس کیا۔ لنگڑا ہوٹل میں داخل ہونے کی ہمت نہ کرسکا اور اپنے قدموں پر واپس چلا گیا۔ اگلے دن مَیں نے اپنے بھائی کو بتایا اور اُس نے وحشی کو خبردار کیا کہ وہ آیندہ ایسی حرکت سے باز رہے۔
اَب مَیں اپنے بڑے بھائی کے بارے میں تفصیل سے چند باتیں رقم کروں گا۔
فضل وہاب دوسرے نوعمر لڑکوں جیسا نہیں تھا۔ وہ ایک باوقار سنجیدہ مزاج لڑکا تھا۔ کبھی فضول بات نہیں کرتا تھا۔ وہ اپنا فارغ وقت ہمیشہ کسی نہ کسی مفید کام میں گزارتا تھا۔ رزلٹ آنے کے انتظار کے مہینوں کے دوران میں اُس نے سیدو ہسپتال کے نئے زیر تعمیر وارڈ میں مزدور کے طور پر کام کیا۔ ایک خٹک، ’’انار شاہ‘‘ نام کا اس کام کا ٹھیکے دار تھا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ وارڈ چیف سیکرٹری عطاء اللہ صاحب 14000 روپے کی لاگت سے تعمیر کر رہے تھے، جو کہ ایک بڑی رقم تھی۔ میرے بھائی کو روزانہ آدھا روپیا مزدوری میں ملتا تھا۔ اُس نے نتائج کے اعلان تک یہ محنت جاری رکھی۔ وہ اس سے پہلے بھی مزدوری کر چکا تھا۔
لہٰذا، جب اُس نے شیر خان کی بار بار کی درخواستوں کے جواب میں ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا، تو تب تک اُس نے اتنی رقم جمع کرلی تھی کہ وہ تین جوڑے کپڑے، ایک بیگ اور ایک جوڑا نئے جوتوں کو خریدنے کے لیے کافی تھی۔ وہ شیر خان کو دیکھنے کے لیے بہت بے تاب تھا۔ کیوں کہ وہ اس کی حافظے میں محفوظ تھا۔ اس کے برعکس، مجھے میرے والد نے لاڈ پیار سے پالا تھا اور مَیں ایک حد تک بگڑا بچہ تھا۔ مَیں اپنے ’’باپ کا بچہ‘‘ تھا۔ میرے خیال میں میرے دوسرے بھائی میری ماں کے زیادہ قریب تھے۔
جب میرے بھائی نے گھر چھوڑا، تو مَیں اب سکول میں اکیلا رِہ گیا۔ لہٰذا مَیں نے اپنے آپ کو نئی صورتِ حال میں ڈھال لیا۔ میرے والد نے اپنے بیٹے کی ایک اجنبی ملک میں روانگی کو دل سے محسوس کیا اور اُنھیں ناگزیر اور پہلے سے طے شدہ دھچکے کا سامنا کرنا پڑا۔ جب شیر خان نے اسے ٹیلی گرام کے ذریعے اطلاع دی کہ وہاب وہاں صحیح سلامت پہنچ گیا ہے، تو اُسے تھوڑا قرار ملا۔
میرے والد اکثر فارغ اوقات میں مجھے اپنے پاس رکھتے تھے۔ وہ مجھے افسر آباد میں مقیم اعلا سطح کے سرکاری افسروں کے حجروں میں لے جاتے ۔ اس طرح مَیں نے اس نظام کے بارے میں بہت کچھ سیکھا، جس کے تحت، ریاست سوات کی حکومت کام کر رہی تھی۔ مَیں نے ریاست کے نئے محکموں کے کام کے ڈھانچے، ترمیمات، حدود و قیود اور ارتقا میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں اور پیش رفت سے بھی خود کو باخبر رکھا۔ (جاری ہے)
..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔