گو کہ آج کل بین الاقوامی سطح پر شرق الوسط کا معاملہ میڈیا میں سنٹرل ایکسل بن چکا ہے اور ہر شخص کی نظریں تل ابیب سے بیروت کی طرف ہیں۔ تہران میں مکمل ہل چل، جب کہ دوبئی اور ریاض میں گہری نیند کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔ اس پر ہم ان شاء ﷲ ہم اپنے قارئین کے لیے اگلا کالم پیش کریں گے…… لیکن فی الحال ہمارا موضوع پاکستانی سیاست ہے اور سیاست بھی ایسی کہ شاید تاریخ میں پہلی بار یہ دیکھا جا رہا ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ حزبِ اختلاف بھی مکمل کنفیوز ہے اور نروس بھی۔ حزبِ اختلاف حکومت سے زیادہ حماقتیں فرما رہی ہے۔ آئیں، پہلے حزبِ اختلاف کی حماقتوں سے لطف اندوز ہوں:
حزبِ اختلاف کی اول حماقت تو لیڈر شپ ہے۔ حرام ہے کہ عمران خان کے بعد اس وقت جن ہاتھوں میں قیادت ہے، اُن میں کوئی ادنا درجے کی بھی دانش ہو۔
پہلے نمبر پر جناب علی امین گنڈا پور ہیں۔ اپنے سٹائل سے ہی وہ کوئی ’’فلمی مزاحیہ ولن‘‘ محسوس ہوتے ہیں۔ جیسے پاکستان میں ہمایوں قریشی صاحب تھے، یا بھارت میں قادر خان۔
دوسرے نمبر پر ہیں شیر افضل مروت، کبھی پروگرام کو ’’وَڑ‘‘ کر آتے ہیں، کبھی چر کر کے قمیص پھاڑ دیتے ہیں اور کبھی بغیر کلمہ پڑھے گولی چلانے کا فن بتاتے ہیں۔ ویسے ذاتی طور پر یہ صاحب مجھے پسند ہیں۔ بہت بولڈ ہیں اور میرا یہ مشاہدہ ہے کہ ایسے لوگ منافق نہیں ہوتے۔ ویسے عمران خان کے بعد شاید تحریکِ انصاف میں وہ مقبول ترین بھی ہیں عوامی سطح پر۔ مزاحمت کی سیاست کرسکتے ہیں، اگر اُن کے اوپر کوئی عقل مند ہو تو۔
پھر گوہر صاحب بے شک شایستہ مزاج ہیں، لیکن بہ ظاہر شریف شخص ہیں اور مزاحمتی سیاست اُن کے مزاج میں نہیں۔
گوہر ایوب بے شک ذہنی طور پر اپنے دادا جان کے نقش قدم پر ہیں اور پھر جماعتیں تبدیل کرنا ان کا مشغلہ بھی ہے۔ اس طرح اسد قیصر اور حماد اظہر جیسوں کو شاید اہمیت نہیں دی جاتی۔ البتہ اگر اسد قیصر اور حماد اظہر کے ساتھ سلمان اکرم راجہ کو لگایا جائے، تو پھر یہ لوگ شیر افضل مروت کے ساتھ مل کر یقینا تحریکِ انصاف کو اس گرداب سے نکال سکتے ہیں اور عجیب و غریب حماقتوں سے تحریکِ انصاف کو نہ صرف بچا سکتے ہیں، بل کہ محمود خان اچکزئی اور مولانا کے ساتھ مل کر حکومت کے لیے شدید مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔
تحریکِ انصاف کی جب سے حکومت ختم ہوئی ہے، حماقتوں کی ایک بہت بڑی فہرست ہے کہ جس پر ہم بار ہا لکھ چکے ہیں، لیکن تازہ حماقت ملاحظہ ہو کہ لیاقت باغ میں جلسہ کا اعلان کیا، حکومت نے اجازت نہ دی، تو اول اعلان کیا کہ جلسہ تو ہوگا۔ جب نظر آیا کہ کام مشکل ہے، تو کہا بس احتجاج کریں گے اور کارکنان لیاقت باغ پہنچیں۔ لیکن عین وقت جب لیاقت باغ کی طرف کارکنان آئے، کم از کم لیاقت روڈ و راجہ بازار میں سیکڑوں کارکنان کو ہم نے خود دیکھا، تو پولیس حرکت میں آگئی۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال ہوا، لیکن تحریکِ انصاف کا جذباتی کیڈر مقابلہ کرتا رہا اور پھر اچانک خبر آئی کہ گنڈا پور وزیر اعلا خیبر پختون خوا، خود ساختہ انقلابی صاحب خود ہی اٹک سے پیچھے مڑ کر وزیرِ اعلا ہاؤس پشاور خیرخیریت سے پہنچ گئے۔ وہاں جا کر کبھی بدرمنیر کی طرح ڈائیلاگ بازی اور کبھی مصطفی قریشی کی طرح طنز اور زیادہ انداز ہمایوں قریشی والا جو طنز کم اور مزاح زیادہ محسوس ہوا۔
اب تحریکِ انصاف کو سوچنا چاہیے کہ پاکستان کے مخصوص سیاسی و معاشرتی حالات میں اس قسم کی احمقانہ پالیسیاں ممکن ہیں یا نہیں؟ بے شک آپ سے شاید سیاسی طور زیادتی ہوئی ہو، لیکن اس کے باجود آپ ایک بڑی طاقت بن کر پارلیمان میں آئے۔ اُس وقت آپ کے پاس یہ موقع تھا کہ آپ دوسری دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ مل کر مرکز خیبر پختون خوا اور پنجاب میں حکومت بنالیتے۔ سندھ اور بلوچستان میں ایک معقول حصہ حاصل کرلیتے، لیکن آپ نے عمران خان کے ذاتی مفاد کو ترجیح دی اور یہ نادر موقع ضائع کر دیا۔ پھر نو مئی جیسے بے ہودہ اقدامات کیے۔ اس کے بعد آپ بہ جائے اسمبلیوں میں خواہ مخواہ محاذآرائی کرتے، آپ ایک ذمے دار حزبِ اختلاف کا کردار کرتے اور غلط قوانین کو درست کرواتے۔ جس سے آپ اور آپ کی قیادت کو ریلیف ملتا، لیکن آپ نے سیاسی انارکی اور محاذ آرائی کو ترجیح دی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کے خلاف شکنجہ مزید سخت ہوگیا۔ اب حقیقت یہی ہے کہ بہ ظاہر سیاسی طور پر آپ بہت زیادہ نقصان میں ہیں۔ اس لیے اگر آپ کو اپنا سیاسی نقصان بچانا ہے، تو پھر آپ کو اپنی حماقتوں سے گریز کرنا ہوگا۔
اب آئیں دوسری طرف یعنی حکومت کی حماقتوں کی طرف۔ عمومی طور پر حکومتیں محاذ آرائی سے ہر ممکن پرہیز کرتی ہیں۔ کیوں کہ محاذ آرائی کا بہ راہِ راست نقصان حکومت کو ہوتا ہے۔ سرکاری مشینری جام ہو جاتی ہے۔ معیشت کا پہیہ رُک جاتا ہے، لیکن کمال ہے کہ حکومت اس پہلو پر غور نہیں کرتی۔ کالم کی تنگ دامنی کی وجہ سے ہم حکومت کی مجوزہ آئینی ترمیم پر پھرتیوں کا ذکر نہیں کرتے، بس ایک تازہ ترین حماقت دیکھیں کہ جس طرح حکومت، تحریکِ انصاف کے عوامی جلسوں پر بوکھلا چکی ہے۔ تازہ ترین معاملہ ہوا تحریکِ انصاف کے راولپنڈی میں جلسے کے اعلان سے۔ پہلے تو پنجاب حکومت نے اجازت دینے سے انکار کر دیا اور پھر جب اُنھوں نے جلسہ کے بہ جائے احتجاج کی کال دی، تو پورا پھوٹوہار ڈویژن بند کر دیا گیا۔ صبح سڑکیں کھلی تھیں، لیکن اچانک 10 بجے کے بعد ہر طرف بندش کر دی گئی۔
میرا تعلق چوں کہ راولپنڈی کے مضافات سے ہے، سو مجھے ذاتی طور پہلا تجربہ جی ٹی روڈ پر روات کے قریب چک بیلی موڑ پر ہوا…… یعنی حکومت نے مندرہ کو بند کر دیا۔ پھر جی ٹی روڈ اور چک بیلی روڈ کو بند کر دیا۔ اس کے بعد ٹی چوک اور سواں کے پُل کو بھی بند کر دیا۔ اب جو بچے سکول جاچکے تھے، ان کے والدین کے لیے قیامتِ صغرا بن گئی۔ گاڑیوں والے ظاہر ہے مجبور تھے۔ سو بچوں کو واپس لانے کے لیے مَیں نے ماؤں کو سڑکوں پر ذلیل ہوتے ہوئے بہ ذاتِ خود دیکھا۔ اور وہ تمام والدین بغیر کسی سیاسی حمایت و مخالفت کے حکومت اور خاص کر محترمہ مریم شریف کے لیے جو عظیم الشان کلمات ادا کر رہے تھے، وہ ناقابلِ بیاں ہیں۔ تمام لوگ ایک ہی بات کر رہے تھے کہ کم از کم تعلیمی اداروں کی بندش کا سرکاری اعلان ہی کر دیا جاتا۔
مَیں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اگر تحریکِ انصاف لیاقت باغ میں جلسہ کرلیتی، تو کیا قیامت برپا ہونی تھی؟ پتا نہیں کیوں حکومتیں تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتیں۔
یہاں ہم اپنے قارئین کو ایک مثال دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ دور تھا ضیاء الحق کا جب شہید محترمہ بینظیر بھٹو اپنے والد کی پھانسی کے بعد پہلی بار وطن واپس آئی تھی اور بہ راہِ راست عوامی رابطہ مہم شروع کی تھی۔ بہ حیثیت تاریخ کے طالب علم کے ہم نے ابراہام لنکن سے مہاتما گاندھی اور پاکستان میں قائدِ اعظم سے ذوالفقار علی بھٹو تک کے عوامی راہ نماؤں کی سیاسی جد و جہد کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، لیکن آگاہ انسانی تاریخ میں جتنے بڑے جلسے محترمہ بینظیر بھٹو نے کیے، شاید نہ کسی نے پہلے کیے تھے اور مستقبل میں بھی شاید کوئی نہ کرسکے۔
مجھے محترمہ بینظیر بھٹو کا لیاقت باغ کا جلسہ یاد ہے۔ پورا شہر لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ بھارہ کہو سے سنگ جانی تک، اڈیالہ سے روات تک عوام کا سمندر تھا۔ لیکن کیا ہوا، محترمہ آئیں، کارکنان نے نعرے لگائے، تقاریر ہوئیں اور جلسہ ختم ہوگیا۔
اسی طرح کے جلسے بی بی شہید نے خیبر سے کراچی تک کیے۔ کچھ بھی نہ ہوا، لیکن مَیں حیران ہوں حکومت کے افلاطونوں پر کہ وہ کسی سیاسی جماعت اور آپ جتنا مرضی اختلاف کرلیں، ہم خود تحریکِ انصاف اور عمران خان کے بہت بڑے ناقد ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس وقت عمران خان ملک کے عوامی سطح پر مقبول ترین راہ نما ہیں۔ اس کو آپ لیڈر کے بغیر روایتی جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ یہ کون سی جمہوریت ہے، کیسا آئین ہے، کیسی حکمت عملی ہے؟
سچی بات تو یہ ہے کہ ن لیگ کے فیصلوں یا اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کی تو سمجھ آتی ہے، لیکن اے این پی، ایم کیو ایم اور خاص کر پاکستان پیپلز پارٹی کہ جن کی جمہوری جد و جہد باکمال رہی، اپنے کارکنان اور راہ نماؤں کا خون دیا، وہ بھی خاموش ہیں……! بل کہ یہ کہنا زیادہ بہ جا ہوگا کہ ان کی خاموش حمایت حاصل ہے حکومت کو۔
پیپلز پارٹی وہ جماعت ہے کہ جب انھوں نے مشرف کے خلاف ’’اے آر ڈی‘‘ بنائی اور خاص کر جب محترمہ شہید نے ’’سی اُو ڈی‘‘ کیا نواز شریف کے ساتھ مل کر، تو ان پر بہت تنقید ہوئی اور سب سے زیادہ تنقید ان پر اپنے کارکنان کی جانب سے تھی…… لیکن تب بھی بی بی کا موقف یہی تھا کہ ہم کسی سے ذاتی عناد یا انتقام پر یقین نہیں رکھتے، ہمارا مقصد ملک میں جمہوری قدروں کی بہ حالی اور آئینی اداروں کی مضبوطی ہے۔ اس کے لیے مَیں اعجاز الحق سے بھی بات کرنے اور ان کے گھر جانے پر بھی تیار ہوں، لیکن آج یہ کس قدر افسوس ناک ہے کہ محترمہ شہید کی جماعت کہ جس کی قیادت سب سے یاری کے مصداق شوہر اور بیٹے کے پاس ہے، زبان بندی کا شکار ہے۔
دوسری بات، حکومت کو جمہوریت کے علاوہ بھی دوسرے معاملات کو مدنظر رکھ کر پالیسی بنانا ہوگی۔ مثلاً معیشت، مثال کے طور پر تحریکِ انصاف نے کہا کہ ہم راولپنڈی جلسہ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے اجازت نہ دی، تو اُنھوں نے احتجاج کی کال دی۔ آپ نے کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جڑواں شہروں کو تو چھوڑیں، تقریباً مکمل شمالی پنجاب بند ہوگیا۔ تین دن کم از کم پھوٹوہار ڈویژن میں معاشی سرگرمیاں سو فی صد بند ہوگئیں۔ ہزاروں دہاڑی دار مزدور فاقوں کا شکار ہوئے۔ تمام معاشی سرگرمیاں رک گئیں اور اگر حکومت سروے کرے، تو معلوم ہوگا کہ اربوں روپوں کا نقصان ہوا ہوگا۔ سو یہ کون سی حکمت عملی تھی اور کون سی عقل مندی تھی؟
ویسے سیاسی طور پر بھی دیکھا جائے، تو حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ آپ کی یہ احمقانہ حرکات تحریکِ انصاف کو مزید مقبول کر رہی ہیں اور عمران خان سے عوام میں ہم دردی بڑھ رہی ہے۔
آپ انٹرنیشنل میڈیا دیکھ لیں، وہاں پاکستان کا مجموعی طور پر مذاق بنایا جا رہا ہے۔ اس لیے ہم بہ حیثیت ایک عام پاکستانی کے دونوں طرف کے ذمے داران سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں۔ تحریکِ انصاف بھی زیادہ توجہ خیبر پختون خوا کے عوام کی مشکلات کو کم کرنے پر دے اور حکومت بھی حزبِ اختلاف سے الجھنے کے بہ جائے عوام کے بنیادی مسائل پر فوکس کرے۔ نہ کہ سارا زور مخالفین کی سیاسی سرگرمیوں کو کچلنے پر صرف کرے۔
اس وقت سب سے زیادہ ضروت سیاسی استحکام اور معاشی مضبوطی کی ہے۔ اگر حکومت اور حزبِ اختلاف یہی تماشا کرتے رہے جو پچھلے دنوں اسلام آباد اور اس کے گرد نواح میں ہوا، تو پھر نہ سیاسی استحکام آئے گا اور نہ ہم معاشی سفر بہتری کی جانب کرپائیں گے، بل کہ شاید ہم ریاست کا سیاسی و معاشی نقصان اتنا کر دیں کہ پھر اس کی تلافی ممکن ہی نہ ہو!
..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔