ریاست کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے حقوق کی ضامن ہو۔ قانون کی عمل داری اور انصاف کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے۔ ہر شہری کے ساتھ مساوی سلوک کیا جانا چاہیے، قطعِ نظر اس کے کہ اس کی قومیت، مذہب، نسل یا علاقے کا تعلق کیا ہے…… لیکن جب ریاست اپنے شہریوں کے حقوق کو نظر انداز کرتی ہے اور خاص طور پر ایک مخصوص قوم یا طبقے کو نشانہ بنایا جاتا ہے، تو یہ صورتِ حال دل کو چیر دینے والی ہوتی ہے۔ اس عدم توازن سے نہ صرف اس قوم میں احساسِ محرومی جنم لیتا ہے، بل کہ یہ ملک میں مجموعی طور پر بے چینی اور انتشار کا باعث بنتا ہے۔
جب شہریوں کو اُن کے حقوق نہیں ملتے، تو سب سے پہلا قدم عوامی نمایندوں کے ذریعے پارلیمنٹ کے فورم پر بات اُٹھانا ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ ایک ایسا فورم ہے، جہاں عوام کی آواز سنی جاتی ہے اور مسائل کا حل نکالا جاتا ہے…… لیکن جب پارلیمنٹ بے بس نظر آتی ہے، یا اپنی ذمے داریوں سے پہلو تہی کرتی ہے، تو عوام کے پاس پُرامن احتجاج اور مظاہروں کا راستہ کھل جاتا ہے۔
پُرامن احتجاج جمہوریت کا ایک اہم حصہ ہے اور شہریوں کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، لیکن جب اس احتجاج پر بھی ریاست کی جانب سے سختی کی جاتی ہے، مظاہرین کو دبایا جاتا ہے، یا اُن کی آواز کو سنا نہیں جاتا، تو شہریوں کے لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اور کیا کریں؟ وہ کون سا راستہ اختیار کریں، جس سے اُن کی مشکلات اور استحصال کا اِزالہ ہوسکے؟
جب ایک مخصوص قوم کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور مسلسل استحصال کا شکار کیا جاتا ہے، تو دِل میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آخر کیوں؟ کیوں ایک قوم کو دوسرے شہریوں کے مقابلے میں کم تر سمجھا جاتا ہے؟ یہ سوالات جب بار بار پیدا ہوتے ہیں، تو قوم کی اجتماعی خودی مجروح ہوجاتی ہے اور وہ اپنے حقوق کی بہ حالی کے لیے شدت پسندانہ رویے اپنانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
ریاست کے اس رویے کو اگر ظلم نہ کہیں تو کیا کہیں؟ ایک طرف قوم کو اُس کے حقوق سے محروم کیا جاتا ہے، دوسری طرف قوم کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ جب مظلوم لوگ اپنی آواز اُٹھاتے ہیں، تو اُنھیں غائب کر دیا جاتا ہے، اُن کے روزگار کو تباہ کیا جاتا ہے، اور اُن پر معاشی و معاشرتی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔
ریاست جب اپنے شہریوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک کرتی ہے، تو یہ دنیا کے سامنے ایک واضح پیغام ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کو نظر انداز کر رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ایسی صورتِ حال پر آواز اُٹھانے کے لیے بنائی گئی ہیں، لیکن بدقسمتی سے جب یہ تنظیمیں خاموش رہتی ہیں، یا صرف سیمینارز کی حد تک مسائل کو اُجاگر کرتی ہیں، تو مظلوم قوم کو کہیں بھی حقیقی مدد نہیں ملتی۔ اس سے وہ لوگ مزید مایوس ہو جاتے ہیں اور اُن کے مسائل کے حل کی اُمید مزید دھندلا جاتی ہے۔
جب ظلم کی شدت بڑھتی ہے اور ریاست کی جانب سے مسلسل دباو کا سامنا ہوتا ہے، تو مظلوم قوم کے لوگ آپس میں مل بیٹھ کر اپنی مشکلات اور مسائل کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ آخر کب تک وہ ریاستی استحصال کا شکار رہیں گے اور اُنھیں اس سے نجات کیسے مل سکتی ہے!
لیکن جب اُنھیں اس قسم کے اجتماعات سے بھی روکنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو یہ صورتِ حال اور بھی زیادہ بگاڑ کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کا نتیجہ معاشرتی اضطراب اور انتشار کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ لوگوں کے پاس جب بات چیت اور احتجاج کے مواقع بھی نہیں بچتے، تو وہ بغاوت یا انتہا پسندانہ رویے اپنانے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال نہ صرف ریاست کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، بل کہ ملک کی سالمیت کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
حالات جتنے بھی خراب ہوں، اُمید کا دامن تھامنا انتہائی ضروری ہے۔ ریاستی ظلم اور ناانصافیوں کے باوجود، مظلوم قوم کو اپنے حقوق کے لیے جد و جہد جاری رکھنی چاہیے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کبھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ عوامی جد و جہد اور مسلسل کوششوں سے ناانصافیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مظلوم قوم عالمی برادری کو اپنی مشکلات سے آگاہ کرے اور اجتماعی طور پر اپنے حقوق کے حصول کے لیے متحرک رہے۔
ریاستی ناانصافی اور ایک مخصوص قوم کے استحصال کے نتائج ہمیشہ خطرناک ہوتے ہیں۔ جب مظلوم قوم کے پاس احتجاج اور مکالمے کے راستے بھی مسدود کر دیے جائیں، تو وہ مایوس ہوکر انتہا پسندی کی طرف مائل ہوسکتی ہے۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایسی صورتِ حال پر گہری نظر رکھنی چاہیے، تاکہ مظلوم قوموں کے حقوق کی بہ حالی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔
پاکستان 1947ء میں ایک فلاحی ریاست کے طور پر وجود میں آیا، جس کا مقصد جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کا قیام تھا، جہاں وہ اپنے مذہبی، معاشرتی اور سیاسی حقوق کو محفوظ رکھ سکیں۔ تحریکِ پاکستان کا بنیادی نعرہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ‘‘ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ ریاست اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ایک فلاحی ریاست ہوگی، جہاں انصاف، مساوات اور انسانیت کی قدر ہوگی۔
پاکستان کے قیام کا پس منظر برطانوی سامراجیت اور ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی و معاشرتی استحصال کے خلاف ایک تاریخی جد و جہد میں پنہاں ہے۔ برطانوی سامراجیت نے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اپنائی تھی، جس کا مقصد ہندوستان کے عوام کو مذہبی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کرکے اپنی حکم رانی کو قائم رکھنا تھا۔ برصغیر میں مسلمانوں کو انگریزوں کی حکم رانی اور ہندو اکثریت کے دباو کا سامنا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے علاحدہ ریاست کا مطالبہ کیا، جو بالآخر 1947ء میں پاکستان کے قیام پر منتج ہوا۔
تاہم، اس سوال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان کا قیام عالمی استعماری قوتوں کا ایک چال تھا، یا یہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ایک ناگزیر قدم تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے ایک علاحدہ ریاست کے حق میں قربانیاں دیں اور پاکستان کا قیام اُن کی اجتماعی جد و جہد کا نتیجہ تھا، نہ کہ عالمی سازشوں کا۔ تقسیمِ برصغیر کا فیصلہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان سیاسی اور مذہبی تناو کا نتیجہ تھا، اور پاکستان کا قیام ایک فلاحی ریاست کے طور پر تھا، جہاں مسلمان اپنی شناخت اور حقوق کو محفوظ رکھ سکیں۔
پاکستان کے قیام کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنے گھر، زمینیں اور زندگیاں قربان کیں۔ وہ یہ اُمید لے کر پاکستان آئے تھے کہ یہاں اُنھیں وہ حقوق ملیں گے، جن سے وہ ہندوستان میں محروم تھے…… لیکن آج جب ہم پاکستان کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہیں، تو یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا وہ قربانیاں رائیگاں گئیں؟
پاکستان میں آج بھی محرومیوں اور استحصال کی داستانیں جاری ہیں۔ جن محرومیوں اور ظلم سے بچنے کے لیے پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا، وہ آج بھی پاکستانی عوام، خصوصاً پس ماندہ علاقوں اور قوموں میں نظر آتی ہیں۔ لوگوں کو انصاف اور مساوی مواقع کی فراہمی میں مسلسل ناکامی کا سامنا ہے۔ استحصالی قوتیں آج بھی عوام کو اُن کے حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہیں، اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے ملک کے مختلف علاقوں میں شدید نابرابری کو جنم دیا ہے۔
پاکستان کا قیام یقینا عظیم قربانیوں کا نتیجہ تھا، لیکن اس کے بعد کے برسوں میں جو مسائل پیدا ہوئے، وہ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ہم بہ حیثیت قوم اپنے مقاصد سے دور ہوگئے ہیں۔ ان مسائل میں بدعنوانی، سیاسی عدم استحکام، اداروں کی کم زوری، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور مخصوص طبقات کا استحصال شامل ہیں۔ پاکستان کے قیام کا مقصد ایک فلاحی ریاست تھا، لیکن بدقسمتی سے اس خواب کو مکمل طور پر پورا نہیں کیا جاسکا۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستانی عوام نے قربانیاں دی تھیں، تو کیوں آج بھی ملک کے عوام محرومیوں کا شکار ہیں؟
اس کی کئی وجوہات ہیں:
٭ قیادت کا فقدان:۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اکثر ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتی رہی ہے۔ ریاست کو فلاحی بنانے کے بہ جائے عوام کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا۔
٭ بدعنوانی:۔ بدعنوانی پاکستان کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ ریاستی وسائل کو غلط استعمال کیا گیا اور عوام کو اُن کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا۔
٭ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم:۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے مخصوص طبقات اور علاقوں کو مزید پس ماندگی کا شکار بنا دیا ہے، خصوصاً بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ کے دیہی علاقے اس کا شکار ہیں۔
٭ جمہوریت کا عدم استحکام:۔ جمہوری نظام کو بار بار فوجی مداخلت نے کم زور کیا، جس سے عوام کے حقوق اور فلاحی نظام کو شدید نقصان پہنچا۔
پاکستان میں مختلف قومیتوں اور طبقات کو ریاستی استحصال کا سامنا ہے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ کے دیہی علاقے اور پاکستان کے دیگر پس ماندہ علاقے آج بھی وسائل کی کمی، معاشرتی ناانصافی اور سیاسی محرومی کا شکار ہیں۔ استحصالی قوتیں ہمیشہ ان قوموں کے حقوق کو دبانے کی کوشش کرتی ہیں اور ان کی آواز کو پارلیمنٹ اور عوامی فورموں پر دبا دیا جاتا ہے۔ یہی حالات عوام کو مایوس کرتے ہیں۔
پاکستان ایک فلاحی ریاست کے طور پر وجود میں آیا، جس کا مقصد جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو سیاسی اور مذہبی آزادی فراہم کرنا تھا۔ یہ ملک مسلمانوں کی شناخت، اُن کے حقوق اور اُن کے لیے ایک محفوظ معاشرہ بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا، مگر آج، قیامِ پاکستان کے 75 سال بعد، ہم دیکھتے ہیں کہ ملک میں وہی استحصال اور ناانصافیاں جن کے خلاف پاکستان بنایا گیا تھا، دوبارہ جنم لے رہی ہیں۔ مختلف قومیتیں اور طبقات اپنے بنیادی حقوق کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں، جس کا ثبوت تحریکیں جیسے ’’پختون تحفظ موومنٹ‘‘ (PTM) اور دیگر عوامی احتجاجات ہیں۔ یہ تمام حالات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔
قیامِ پاکستان کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کا قیام تھا، جہاں وہ اپنی مذہبی، سیاسی اور معاشرتی حقوق کو محفوظ کرسکیں۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد جب ہندوستان میں برطانوی راج کا آغاز ہوا، تو انگریزوں نے ہندوستان کے لوگوں کو سیاسی طور پر کم زور کرنے کے لیے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اپنائی۔ اس پالیسی کے تحت مسلمانوں کو سیاسی، تعلیمی اور معاشی طور پر پیچھے رکھا گیا۔ ان حالات میں مسلمان راہ نماؤں کو یہ احساس ہوا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق محفوظ نہیں اور ان کے لیے علاحدہ ریاست کا قیام ضروری ہے۔
1930ء کی دہائی میں علامہ اقبال اور دیگر مسلم راہ نماؤں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ وطن ہونا چاہیے، جہاں وہ اپنی تہذیب، مذہب اور ثقافت کو آزادانہ طور پر فروغ دے سکیں۔ 1940ء کی قراردادِ لاہور (قراردادِ پاکستان) کے ذریعے یہ مطالبہ باضابطہ طور پر سامنے آیا اور 1947ء میں لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کے بعد پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
پاکستان کے قیام کے لیے لاکھوں افراد نے اپنی جان، مال اور گھر بار کی قربانیاں دیں۔ اُن کی امید تھی کہ پاکستان میں اُنھیں وہ حقوق اور انصاف ملے گا، جس سے وہ ہندوستان میں محروم تھے، لیکن آج، جب ہم پاکستان کے موجودہ حالات پر نظر ڈالتے ہیں، تو یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا وہ قربانیاں رائیگاں گئیں؟ آج بھی ملک میں مختلف قومیتوں اور طبقوں کو سیاسی و معاشرتی استحصال کا سامنا ہے ۔
وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، سیاسی ناانصافی اور استحصال نے کئی علاقوں اور قوموں کو مسلسل پس ماندگی کا شکار بنا رکھا ہے۔ بلوچ، پشتون اور دیگر اقلیتیں آج بھی اپنے حقوق کے لیے جد و جہد کر رہی ہیں۔ یہ صورتِ حال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہی مسائل جن کے خلاف پاکستان کا قیام ہوا تھا، آج دوبارہ سامنے آ رہے ہیں۔
پاکستان میں مختلف طبقات اور قومیتیں آج بھی معاشرتی و سیاسی استحصال کا شکار ہیں۔ پشتونوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف ’’پختون تحفظ موومنٹ‘‘ (PTM) جیسی تحریکیں سر اٹھا رہی ہیں۔ پی ٹی ایم کا بنیادی مقصد پشتون قوم کے ساتھ ہونے والے ماورائے عدالت قتل، جبری گم شدگیوں اور فوجی آپریشنوں کے نتیجے میں ہونے والے مسائل کو اُجاگر کرنا ہے۔
پی ٹی ایم ایک زندہ مثال ہے کہ پاکستان میں وہی محرومی اور استحصال دوبارہ جنم لے رہا ہے جس کے خلاف قیامِ پاکستان ہوا تھا۔ پی ٹی ایم جیسے عوامی احتجاجات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ عوام اب اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں، لیکن ان آوازوں کو دبانے کی کوششیں، جیسا کہ پی ٹی ایم کے راہ نماؤں کو غائب کرنا، اُن پر مقدمے بنانا اور مظاہرین کو روکنا، اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ ریاستی ادارے مسائل کو حل کرنے کے بہ جائے ان کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
افلاک رو رہے ہیں زمیں بھی اداس ہے
آنسو بہا رہی ہے فضا تیری بے بسی پر
قیامِ پاکستان کے وقت مسلمانوں کو جو مسائل درپیش تھے، وہ آج بھی پاکستان کے مختلف طبقات کو درپیش ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل مسلمانوں کے ساتھ سیاسی اور معاشرتی ناانصافی کی جا رہی تھی۔ آج پاکستانی عوام کے مختلف طبقات، خصوصاً پس ماندہ قومیتیں، اُنھی مسائل کا شکار ہیں۔
پاکستان میں بدعنوانی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور سیاسی طاقت کا غلط استعمال عام ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے ملک کے مختلف طبقات اور قومیتیں استحصال کا شکار ہو رہی ہیں اور یہی استحصال عوامی تحریکوں کو جنم دے رہا ہے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ کے دیہی علاقوں میں آج بھی لوگوں کو سیاسی و معاشرتی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے ۔
پاکستان کے قیام کے وقت عوام نے جس فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا، وہ خواب آج بھی ادھورا ہے۔ پاکستان کے قیام کے وقت مسلمانوں نے اس اُمید پر قربانیاں دیں کہ اُنھیں ایک ایسی ریاست میں انصاف ملے گا جہاں ان کے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی حقوق محفوظ ہوں گے، لیکن آج بھی بدعنوانی، سیاسی مفادات اور غیر منصفانہ وسائل کی تقسیم کی وجہ سے وہ محرومیاں ختم نہیں ہوسکیں، جن کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا۔
یہ صورتِ حال اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اگر قیادت میں دیانت داری، انصاف اور مساوات کا فقدان ہو، تو عوام کے لیے فلاحی ریاست کا خواب پورا ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ قربانیاں اس وقت رائیگاں جاتی ہیں جب عوام کے حقوق اور وسائل کا تحفظ نہیں کیا جاتا۔
آج پاکستان میں عوامی تحریکوں کا اُبھرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عوام اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک نئے عزم کے ساتھ میدان میں آ رہے ہیں۔ پی ٹی ایم، بلوچ تحریکیں اور دیگر عوامی احتجاجات اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام کو سیاسی، سماجی اور معاشرتی انصاف کے لیے دوبارہ جد و جہد کرنا پڑ رہی ہے ۔
ان تحریکوں کا اُبھرنا ہمیں قیامِ پاکستان کے وقت کی جد و جہد کی یاد دلاتا ہے، جب مسلمانوں کو اُن کے حقوق سے محروم کیا جا رہا تھا اور وہ اپنی شناخت اور حقوق کے لیے جد و جہد کر رہے تھے۔ آج بھی یہی مسائل پاکستانی قوم کے مختلف طبقات کو درپیش ہیں اور وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھا رہے ہیں۔
پاکستان کا قیام ایک فلاحی ریاست کے قیام کے لیے عمل میں آیا تھا، لیکن آج اس خواب کو پورا کرنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔ جب تک عوام کے حقوق کا تحفظ اور انصاف کی فراہمی یقینی نہیں بنائی جاتی، تب تک یہ تحریکیں جاری رہیں گی۔ پی ٹی ایم اور دیگر عوامی تحریکیں اس بات کی نشانی ہیں کہ عوامی حقوق اور انصاف کے لیے جد و جہد ختم نہیں ہوئی۔ تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جب تک عوام کے حقوق محفوظ نہیں ہوتے، استحصال اور ناانصافی کے خلاف تحریکیں اُبھرتی رہیں گی۔
یہ وقت ہے کہ پاکستان اپنے قیام کے مقصد کی جانب واپس لوٹے، تاکہ وہ قربانیاں جو قیامِ پاکستان کے لیے دی گئی تھیں، رائیگاں نہ جائیں۔ ملک کو حقیقی فلاحی ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم، انصاف کی فراہمی اور عوامی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوتا، محرومیاں اور استحصال کا سلسلہ جاری رہے گا اور عوام اپنے حقوق کے لیے جد و جہد کرتے رہیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
