تحریر: ساجد آرائیں
1992ء میں جب سینما بینی کا آغاز ہوا، تو لاہور شہر کے سینماؤں کے ٹکٹ ریٹس معمولی سے فرق کے ساتھ مختلف ہوتے تھے۔
لاہور میں سینماؤں کی دو اقسام تھیں: مین سرکٹ کا سینما اور سائیڈ سینما۔ مین سرکٹ سے مراد سینما کی مرکزی مارکیٹ لاہور کے ایبٹ روڈ اور میکلورڈ روڈ پر واقع سینماؤں کی قطار ہے۔ ایبٹ روڈ پر گلستان سینما، میٹروپول سینما، نغمہ سینما، محفل سینما، شبستان سینما، پرنس سینما، مبارک سینما،کیپٹل سینما، اوڈین سینما اور میکلورڈ روڈ پر رتن سینما، ایمپائر سینما (اولڈ صنوبر سینما) اور میکلورڈ روڈ کی ایک ملحقہ سڑک مشن روڈ پر واقع ناز سینما موجود تھے۔ یہ تھے سرکٹ کے مین سینما۔ فلم ریلیز کی مرکزی سینما مارکیٹ، جہاں فلموں کی قسمت کا فیصلہ ہوتا تھا۔
دوسری قسم کہلاتی تھی سائیڈ سینما، جو لاہور شہر کے مختلف علاقوں میں واقع تھے۔ جیسا کہ ملتان روڈ پر وینس سینما، گلشن سینما، لیرک سینما، ساندہ کے علاقہ میں فردوس سینما، فیروز پور روڈ پر شمع سینما، شیش محل سینما، گلیکسی سینما، گرین سینما، کوہ نور سینما، انگولا سینما، صنم سینما، گڑھی شاہو میں تاج سینما، کراؤن سینما، شاہدرہ میں واقع سنگیت سینما، ساحل سینما، مصری شاہ میں نیلم سینما، لبرٹی مارکیٹ میں کیپری سینما، فورٹریس سٹیڈیم میں سوزو ورلڈ سینما، سوزو گولڈ سینما، کینٹ میں پی اے ایف سینما، گیریژن سینما، سمن آباد میں الممتاز سینما، ہیرا منڈی میں پاکستان ٹاکیز، سٹی سینما، ترنم سینما، بھاٹی گیٹ پر ملک تھیٹر، نگار سینما وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
مین سرکٹ کے سینما گھروں میں ٹکٹ ریٹ تھوڑا سا زیادہ ہوتا تھا۔ 12 روپے 15 روپے 20 روپے ٹکٹ ریٹ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ یہ تین ریٹ سینما ہال کے اندر کی تین مختلف کیٹیگریز کے تھے۔ لوئر اسٹال، اَپر اسٹال، گیلری۔ پھر اس کے بعد ریٹ میں بہ تدریج اضافہ ہوتا گیا۔ 1996ء اور 1997ء میں ٹکٹ ریٹ 25 سے 30 روپے اور 1998ء میں فلم ’’چوڑیاں‘‘ کے وقت اس میں مزید 5 روپے بڑھے تھے، جوکہ 35 سے 40 روپے تک تھا۔ سائیڈ سینماؤں پر جہاں آلریڈی ٹکٹ ریٹ 5 روپے 8 روپے سے 15 روپے تک ٹکٹ کم ہوتا تھا، وہاں فلم ’’چوڑیاں‘‘ کا ٹکٹ 50 روپے سے 100 روپے تک اور مین سرکٹ میں 100 روپے سے بھی زیادہ میں بلیک ہوتا ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
سنہ 2000ء میں فلم سٹار شان کے عروج میں مین سرکٹ کے سینما گھروں میں ٹکٹ ریٹ 50 روپے تک تھا۔ 50 روپے ٹکٹ کافی عرصہ تک رہا۔ پھر 2002ء میں پہلی دفعہ فلم ’’یہ دل آپکا ہوا‘‘ کا ٹکٹ ریٹ 100 روپے ہوا۔ یہ بہت بڑا اضافہ تھا جس کا کریڈٹ فلم ’’یہ دل آپکا ہوا‘‘ کو جاتا ہے، جب کہ اس کے بعد ریلیز ہونے والی کئی فلموں میں سرکٹ میں بھی رعایتی ٹکٹ ریٹ 50 روپے پر بھی دیکھی گئی ہیں۔
جب مین سرکٹ میں ٹکٹ ریٹ 50 روپے کا تھا، تو اس وقت وینس سینما جو کہ چوبر جی کے پاس ملتان روڈ کے شروع میں ہی تھا، اس کا ٹکٹ 30 روپے ہال سے 40 روپے گیلری تھا۔ استادِ محترم سید نور کی فلم ’’شعلے‘‘ مَیں نے وینس سینما میں 30 روپے ٹکٹ سب سے آگے والی سیٹوں پر دیکھی تھی اور اس سینما کا معیار مین سرکٹ کے کئی سینما گھروں سے زیادہ بہتر تھا۔ زیادہ بہتر ائیر کنڈیشنڈ، زیادہ بہتر صوفہ سیٹ، زیادہ بہتر اسکرین۔ جب تک فلم شروع نہیں ہوتی تھی، تب تک سبز رنگ کی لائٹ اسکرین پر شیڈ دیتی تھی۔ بہت ہی خوب صورت سینما تھا، جس کو گرا کر اب وہاں پیٹرول پمپ بنا دیا گیا ہے۔
14 جون 1995ء میری دسویں سال گرہ کے موقع پر والد محترم نے مجھے نہایت مہنگی گھڑی گفٹ کی تھی، جس کی مالیت اس وقت 500 روپے کے لگ بھگ تھی جوکہ مَیں نے صرف چار ماہ بعد ہی صرف 30 روپے میں انار کلی میں فروخت کر دی تھی۔ نغمہ سینما میں فلم ’’چوہدری بادشاہ‘‘ دیکھنے کے لیے۔ 25 روپے کی ٹکٹ اور 5 روپے کے 2 سموسے ۔ یہ اُس وقت کی ہماری سب سے بڑی عیاشی تھی۔
بہ ہرحال میں نے 90 ء کی دہائی کے آغاز میں سب سے زیادہ مرتبہ 12 روپے ٹکٹ پر لوئر سٹال جو کہ سینما ہال میں سب سے آگے نشستوں کا اسٹال تھا، جس کا ٹکٹ سب سے سستا ہوتا تھا، وہاں فلمیں دیکھی ہیں۔ جہاں منھ اٹھا کر فلمیں دیکھتے تھے۔ کیوں کہ پیسے کم ہوتے تھے، تو وہی افورڈ کرسکتا تھا۔ فلم اگر سینما اسکوپ ہوتی، تو اپنا چہرہ اسکرین پر کریکٹر کے ساتھ ساتھ دائیں سے بائیں گھمانا پڑتا تھا۔ اسکرین کی ایک طرف سے دوسری طرف تک۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔