پچھلے دِنوں بنڑ چوکی (سوات) پر دِل دہلا دینے والے حملے کے بعد دِل خون کے آنسو رو رہا ہے، جس میں ایک پولیس اہل کار کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ سوات پر آہستہ آہستہ دوبارہ دہشت گردی کے کالے بادل چھا رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ کوئی بدخواہ ہمارے امن کے چراغ کو بجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جوں ہی سوات ترقی کی راہ پر گام زن ہوتا ہے، تو اچانک سے بدامنی کے اندھیرے امن اور سکون کو نگلنا شروع کر دیتے ہیں۔
سوات کے لوگ امن اور خوش حالی کے خواب دیکھتے ہیں، مگر کچھ شرپسند عناصر ہمارے خوابوں کے دشمن بن کر ہم سے ہمارے خواب چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اور سازشیں بناتے ہیں۔ سوات کی خوش حالی اور امن کے یہ خاموش دشمن، رات کے اندھیرے کی طرح چپکے سے آتے ہیں اور ہمارے روشن مستقبل کو تاریکی میں دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کی فطرت ہی تاریکی کی عادی ہے۔
بس ہر روز ایک نیا سانحہ، ہر روز ایک نیا المیہ، خوں ریزی کا یہ سلسلہ اب معمول بن چکا ہے۔ سوات کے حالات کو خراب کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ دشمن کی نظریں سوات پر لگی ہوئی ہیں اور وہ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ سوات کو بدامنی کی آگ میں جھونک دیں۔ پھر سے وہی بدامنی کی فضا قائم کی جا رہی ہے۔ پھر سے سوات کی فضا کو بارود سے آلودہ کرنا چاہتے ہیں۔
خیر، اس پر مزید میں کیا لکھوں اور کیا کہوں…… کیوں کہ لکھتے ہوئے دل میں یہ خیال بار بار آتا ہے کہ اس پر لکھنے کا کیا فائدہ، آخر سنے گا کون، اور اگر سن بھی لے، تو سمجھنے والا کون ہوگا؟ لوگوں کی سمجھ بوجھ گویا ختم ہوکر رہ گئی ہے، یا شاید ان کی عقل پر غفلت کے پردے پڑچکے ہیں۔ اگر ذرا سی بھی بصیرت باقی ہوتی، تو لوگ ڈاکٹر سلطانِ روم، فضل ربی راہیؔ، فیاض ظفر اور امجد علی سحابؔ جیسے دانش وروں کی تحریروں کو سمجھنے کی کوشش کرتے، جن میں اہلِ خرد کے لیے بے شمار نشانیاں موجود ہیں، مگر افسوس کہ ہماری غفلت میں پڑے لوگوں پر اس کا اثر ویسا ہی ہوتا ہے، جیسے پتھر پر پانی کی بوندیں گرتی ہوں، جو جمتی ہیں نہ جذب ہی ہوتی ہیں۔
ذکر شدہ حضرات نے سوات میں پنپنے والی ہر سازش کو وقتاً فوقتاً بے نقاب کیا۔ آج بھی ہمارے لوگوں کے پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے، جب وہ امن کے لیے آواز اُٹھاتے ہیں…… تو ذرا چشمِ تصور میں لائیں وہ وقت کہ جب ہر طرف آگ اور خون کا کھیل جاری تھا۔ اُن سازشوں کو بے نقاب کرنا کتنی بڑی بہادری اور ہمت کا کام تھا۔ حالات ایسے تھے کہ لوگ اپنے گھروں کی چار دیواری کے اندر بھی لب سی کر بیٹھے تھے، لیکن ان بہادر لوگوں نے سینہ تان کر پسِ پردہ حقائق کو اپنے قوم کے سامنے رکھا۔ آج کے بدلتے ہوئے حالات کو سمجھنے کے لیے ان کی تحریروں کا مطالعہ کیے بغیر بات نہیں بنے گی۔ بہ ہرحال، اس موضوع پر تفصیل سے روشنی کسی اور موقع پر ڈالوں گا۔
قارئین! ان باتوں کا حوالہ دینے کا مقصد آپ لوگوں کو یہ سمجھانا تھا کہ ذکر شدہ لوگ کیسے آہنی ارادوں کے مالک تھے، جو اُس وقت موت کو بھی مات دے کر ہمیں یہ بتاتے رہے کہ اصل کھیل کیا ہے اور اس کے پیچھے کون ہے؟ لیکن افسوس، ہم نے اُن کی باتوں کو نظرانداز کر دیا۔ آج ہم امن کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے کانپ جاتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف بولنے سے ڈرتے ہیں۔ ہمارے دلوں میں خوف گھر کرچکا ہے، جو اَب نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
اگر ہمارے لوگ اسی طرح چپ کا روزہ رکھتے رہے، تو بہت جلد سوات پر دہشت گردی کا راج ہوگا اور سوات ایک دفعہ پھر تاریکی کی چادر میں لپٹ لیا جائے گا۔ یہاں پھر سے خون کی ندیاں بہیں گی اور بم دھماکوں کی گونج ہر جگہ سنائے دے گی۔ ٹارگٹ کلنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ پھر سے شروع ہوجائے گا، لوگ زبردستی گھروں سے بے گھر کر دیے جائیں گے اور ایک بار پھر عزتیں نیلام ہوں گی۔ کیوں کہ جو کچھ پچھلی دفعہ دہشت گردی کی آڑ میں سوات کے ساتھ ہوا، اس نے ہمارے دلوں پر گہرے زخم چھوڑ دیے ہیں۔ ہم نے اپنے بچوں سے لے کر بزرگوں تک، سب کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے دیکھا ہے۔ کیا ہم خاموش رہ کر دوبارہ اُسی تلخ تجربے سے گزرنا چاہتے ہیں؟
کیا ہم اس لیے ڈرتے ہیں کہ ہمیں نشانہ بنایا جائے گا، یا ہمیں اُٹھا لیا جائے گا…… لیکن میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہمارے بچے، والدین اور عزیز و اقارب جب ایسے حالات میں مسجد جاتے ہیں، بازاروں میں گھومتے ہیں یا اسکول اور کالج میں پڑھتے ہیں، کیا وہ واقعی محفوظ ہیں؟ کیا اس بات کی کوئی ضمانت ہے کہ وہ کسی بھی لمحے دہشت گردی کا نشانہ نہیں بن سکتے؟ جب امن کا چراغ بجھتا ہے، تو زندگی کا ہر لمحہ تلوار کی دھار پر چلنے جیسا ہوجاتا ہے۔ پھر گولیوں کی بارش میں سب برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔ اسکول، مساجد، بازار سب جگہیں میدانِ جنگ بن جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے گھر میں بھی انسان محفوظ نہیں رہتا۔
قارئین! ایک دن ہماری خاموشی ہمیں ہلاکت کی طرف لے جائے گی۔ اگر ہم نے آج زبان پر تالے لگائے رکھے، تو کل ’’ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خاموشی اختیار کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے اور پھر اس کے نتائج بھگتنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔
ایک وقت تھا کہ سوات کبھی امن کا گہوارہ تھا اور امن و امان کے حوالے سے اس کا کوئی ثانی نہ تھا، لیکن منظم سازش کے تحت دہشت گردی کی آگ میں دھکیل دیا گیا۔ مجھے وہ وقت اب بھی یاد ہے، جب ہر آن موت کا سایہ سر پر منڈلاتا رہتا تھا۔ آج بھی ہمارے ذہنوں میں وہ منظر تازہ ہے۔ سوات کا ہر بازار موت کا گھاٹ بن چکا تھا۔ سوات کے ہر متحرک ’’مشر‘‘ کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ حتی کہ ان کے جنازوں میں دھماکے کرکے ظالموں نے ظلم کی تمام حدیں پار کر دیں۔ مارٹر گولے ہمارے گھروں پر بارش کی مانند برستے تھے۔ شیلنگ کی آواز ہمارے کانوں میں سوتے جاگتے گونجتی رہتی تھی۔ ایک ہی خاندان کے کئی افراد ایک ساتھ موت کے گھاٹ اتارے جاتے۔ لوگ سکون کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس رہے ہوتے، لیکن افسوس کہ سوات کا ہر کونا جنگ کے میدان میں تبدیل ہوچکا تھا۔ سفاک ظالموں نے انسانیت کے باغ میں نازک کلیوں کو بے دردی سے روند ڈالا تھا۔
ہم مجبور ہوکر اور اپنا گھر بار چھوڑ کر مہاجرین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ سوات کے لوگوں کو جنت نظیر وادی سے نکال کر جہنم میں ڈال دیا گیا۔ وہ باپردہ خواتین، جنھوں نے زندگی بھر چار دیواری میں گزاری تھی، تپتے میدانوں اور صحراؤں میں خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئیں۔ معصوم بچے ایک ایک قطرہ پانی کے لیے ترسنے پر مجبور ہوئے۔ جیسے کوئی بے بس و بے کل پرندہ پیاس سے تڑپ رہا ہو۔ بسترِ مرگ پر پڑے بزرگوں کو سوات سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ سیکڑوں حاملہ خواتین نے راستے ہی میں بچوں کو جنم دیا۔ ہم خوددار پشتونوں (جنھوں نے کبھی کسی سے مدد نہیں مانگی تھی) نے راشن کی قطاروں میں کھڑے ہو کر ذلت کا سامنا کیا۔ مردان، پشاور اور پھر پنجاب سے لے کر کراچی تک ہمارے لوگ عزت و آبرو سے محروم ہوکر پرائے لوگوں کے حجروں اور بیٹھکوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ وطن واپس جانا ایک ایسا خواب بن گیا تھا جسے پورا کرنا ناممکن سا لگتا تھا۔
ہماری مثال اس بہار کے پھول جیسی تھی، جسے یک دم خشک سالی کا سامنا ہوجائے۔
سوات کے لوگوں کی بدنصیبی کا عالم دیکھیں کہ وطن واپسی ان کے لیے کسی عذاب سے کم نہ تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے ہی دیس میں اجنبی بن چکے ہوں، جیسے کوئی پرایا پہلی بار کسی انجان زمین پر قدم رکھ رہا ہو۔ جگہ جگہ چیک پوسٹوں سے گزرنا ایک دردناک اذیت تھا۔ گویا ہر گزرگاہ پر ان کی حب الوطنی کا امتحان لیا جا رہا تھا۔
پھر جب وہ بالآخر اپنے گھروں کو پہنچے، تو یہاں کی منظرکشی دل کو چیر دینے والی تھی۔ کئی گھر مٹی کا ڈھیر بن چکے تھے۔ کہیں راکھ کا ڈھیر اور کہیں ایک بھی پتھر اپنی جگہ پر نہ بچا تھا۔ کسی کے آشیانہ جلا دیا گیا تھا۔ کسی کے خواب بکھیر دیے گئے تھے۔ لوگوں کے گھروں کو اسی طرح تباہ کر دیا گیا تھا، جیسے طوفان کسی درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ وہ زخم آج بھی ہمارے دلوں میں تازہ ہیں۔ ہم وہ دن نہیں بھولے۔
کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ آج پھر سے وہی دہشت گردی کا آسیب ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ ہر تحصیل میں مقامی تھانے نشانہ بن رہے ہیں۔ یہ ایک سوچی سمجھی اور منظم سازش ہے۔ ایک بار پھر خوف کا بیج بویا جا رہا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں دہشت بٹھائی جا رہی ہے۔ پولیس، جو عوام کی حفاظت کی پہلی دیوار ہوتی ہے، اسے ہی سب سے پہلے گرایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد نشانہ عام لوگ ہوتے ہیں…… اسکول، مساجد اور تفریحی مقامات۔
پھر ایک نہ ختم ہونے والے آپریشن کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ بسا اوقات ایک کے بعد ایک آپریشن کیا جاتا اور اس کے طرح طرح کے عجیب سے نام رکھے جاتے، جس میں فریقین نہیں، بل کہ عوام ہی پستے چلے جاتے۔
اس قسم کی دہشت گردی کے باعث سوات کی معیشت تباہ ہوچکی ہے۔ اگر خدا نہ خواستہ دوبارہ سوات دہشت گردی کی لپیٹ میں آتا ہے، تو سوات شاید دوبارہ نہ سنبھل پائے۔ شاید یہی ہمارے دشمنوں کا مقصد بھی ہے۔ وہ سوات کو برباد کرنا چاہتے ہیں اور ہم خوابِ غفلت میں پڑے ہیں۔
دہشت گردی کی گذشتہ لہر میں ہمارے سینے پر لگنے والے وہ زخم آج بھی تازہ ہیں۔ اب کی بار تازہ لہر دوڑانا ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
کبھی سوات امن کا گہوارہ تھا، اب اہلِ سوات امن ایک خواب کی مانند محسوس کرتے ہیں۔ آج پھر سے کبھی امن کا گہوارہ رہنے والے سوات میں دہشت گردی کا زہر پھیلایا جا رہا ہے۔ آج دوبارہ امن کو پاؤں تلے روندا جا رہا ہے۔ سوات کی خوب صورتی، وہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی، ان کے خواب سب کچھ داو پر لگایا جا رہا ہے۔ اگر ہم نے آج بھی آنکھیں نہ کھولیں، تو یہ وادی ہمیشہ کے لیے اپنے سحر سے محروم ہو جائے گی۔
اے اہلِ سوات! کیا ہم یہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں، جہاں ہر آن موت کا خوف سائے کی طرح ساتھ چلے ؟
کیا ہم اپنے بچوں کو ایک ایسے ماحول میں پالنا چاہتے ہیں جہاں وہ اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہیں؟ نہیں……! ہمیں اس خوف پر قابو پانا ہوگا اور کھل کر آواز اٹھانا ہوگی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خاموشی موت ہے، خوف سے کبھی آزادی نہیں ملتی اور اس دہشت گردی کے خلاف ہمارا اتحاد اور ہماری آواز ہی ہماری واحد طاقت ہے۔
اے سوات کے غیور پشتونو! آؤ، ہم مل کر اس دہشت گردی کے خلاف ایک ایسی دیوار بن جائیں، جسے کوئی توڑ نہ سکے۔ ہم نے خود کو ایک ڈور میں پرو کر اس سازش کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ اگر ہم متحد ہوگئے، تو پھر دشمن ہمارا کچھ بگاڑ نہ سکے گا۔ وہ لوگ ہم سے امن چھیننا چاہتے ہیں، مگر ہم اُن کے ناپاک ارادوں کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔ ہم اُن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیں گے۔
یاد رکھو، تم یوسف زئی پشتون ہو! وہ قبیلہ جس نے صدیوں سے اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ تمھارے باپ دادا نے نہ صرف مغل، بل کہ انگریزوں اور دوسری بیرونی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنی آزادی کی خاطر لڑے۔ آج بھی تمھارے خون میں وہی شجاعت اور غیرت دوڑتی ہے ۔
ملک احمد خان یوسف زئی سرخیل اور شیخ ملی جیسے عظیم راہ نماؤں نے اپنی زندگیاں اس سرزمین کی آزادی کے لیے وقف کیں۔ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ عزت اور آزادی کی قیمت جان سے بھی زیادہ ہے۔ آج ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنا ہوگا۔ ہمیں شیر کی طرح دہاڑنا ہوگا اور چیل کی طرح بلند پرواز کرنا ہوگی۔ ہمیں دشمنوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہم اپنی سرزمین کے لیے جان دینے کو تیار ہیں۔
یہ زمین ہمارے آبا و اجداد کی میراث ہے۔ اسے کسی بھی صورت میں دشمنوں کے ہاتھوں نہیں جانے دیں گے۔ ہم اپنی زمین کو ان کے چنگل سے آزاد کرائیں گے اور اسے پھر سے گلستان بنائیں گے۔
اور اگر آج ہم نے اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی، تو کل ہماری آنے والی نسلیں اس خوف کے سائے میں زندگی بسر کریں گی۔ ہماری خاموشی کی سزا اُنھیں غلامی کی صورت میں ملے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔