مسندِ اقتدار پر براجمان ہونا سیاسی قیادت کی منزلِ مقصود قرار پاتی ہے اور اسی خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے سیاست دان اَن تھک محنت میں مسلسل مصروفِ عمل رہتا ہے۔ سیاست کے میدان کارساز میں اُس کا سامنا اپنے سے چھوٹے بڑے حریف سے ہوتا ہے۔ منزلِ مقصود تک رسائی کے لیے اُسے حلیفوں کا ساتھ درکار رہتا ہے۔ سیاست بھی عجیب شے ہے، جس میں آج کا حلیف کل حریف ہوسکتا ہے، تو کبھی کل کا حریف آج کا وفادار ساتھی بھی بن سکتا ہے۔
سیاست کے میدان میں کام یابی قدم چومتی ہے، تو کبھی شکست کا داغ ماتھے پر سجانا پڑتا ہے۔ بار بار غیر آئینی و غیر منتخب حکم رانوں اور آمروں کی بہ دولت پاکستان میں مضبوط و ہمہ جہت جمہوری روایات قائم نہ ہوسکیں۔ ہر آمر کی کوکھ سے اک نئے سیاست دان نے جنم لیا، چاہے وہ ذوالفقار علی بھٹو شہید ہوں، یا پھر میاں محمد نواز شریف۔ پھر انھی سیاست دانوں نے اپنے بانیوں کے خلاف بغاوت کی اور اپنی علاحدہ سیاسی قوت کو نہ صرف منوایا، بل کہ بار بار قید و بند کی صعوبتوں کو بھی برداشت کیا۔ یہاں تک کہ سیاسی موقف پر کھڑے رہنے کی پاداش میں جان بھی گنوا بیٹھے۔
اگر بات کی جائے عمران خان کی، توان کا معاملہ اُلٹ ہے۔ اپنی سیاسی جد و جہد میں آمروں اور غیر منتخب قوتوں کے ذریعے اقتدار میں آنے کی ہمیشہ مخالفت کرتے رہے، مگر سال 2018ء میں انھی طاقتوں کے کاندھوں پر سوار ہوکر پاکستان کے چیف ایگزیکٹو بن بیٹھے۔ عمران خان نے اپنے ہر سیاسی اُصول، ضابطے پر نہ صرف ’’یو ٹرن‘‘ لیا، بل کہ یوٹرن لینے کو عظیم سیاسی دانش مندی قرار دیا۔ اپنی ذاتی تسکین کی خاطر چُن چُن کر سیاسی حریفوں، خصوصاً ان کی خواتین کو قید و بند کی صعوبتوں میں دھکیلا۔ کسی کو کرپشن تو کسی کو منشیات جیسے گھناؤنے اور جھوٹے مقدمات میں ملوث کرواتے رہے۔ ’’چور‘‘، ’’ڈاکو‘‘، ’’کرپٹ مافیا‘‘ جیسے القابات سے سیاسی حریفوں کو پکارتے رہے، مگر دوسری جانب اپنی سیاسی جماعت اور کابینہ میں دنیا جہاں کے ’’رنگ باز‘‘ اور ’’کرپٹ ترین‘‘ افراد کو اپنی بغل میں لیے بیٹھے رہے ۔
عمران خان کا شمار گنتی کے چند گنے چنے سیاست دانوں میں کیا جاسکتا ہے کہ جن کے دور حکومت میں پاکستان کے تمام ریاستی ادارے، میڈیا مالکان یہاں تک کہ عدلیہ میں بیٹھے سہولت کاراور کچھ مذہبی قائدین بھی ’’ایک صفحہ‘‘ پر تھے۔ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوکر عمران احمد خان نیازی نے سیاست کی معراج کو پالیا۔ کرکٹ کی بہ دولت کروڑوں پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کے دلوں پر راج کرنے والے سابق وزیرِ اعظم پاکستان اور بانی چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان کی جیل یاترہ کو 400 سے زائد دن گزر چکے ہیں اور مستقبلِ قریب میں ان کی رہائی کے آثار نظر نہیں آتے، بل کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر گزرتا لمحہ ان کو رہائی سے دور کرتا دِکھائی دے رہا ہے۔ ایسی کیا وجوہات بنیں کہ مقبول ترین کھلاڑی اور سیاست دان زندگی کا آخری حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پر مجبور ہوا، عمران خان کو اس حال میں پہنچانے والا کون ہے، وہ کون ہے جو ان کو جیل کی سلاخوں سے نکلنے نہیں دے رہا؟
میری ناقص رائے میں عمران خان کا دشمن کوئی اور نہیں، بل کہ خود عمران خان اپنی ذات کے دشمن ہیں۔ پاکستان کے معروضی حالات میں دیکھا جائے، تو بات سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ طاقت ور حلقے پاکستانی ریاست و سیاست کے طے شدہ سب سے بڑے ’’سٹیک ہولڈر‘‘ ہیں۔ طاقت ور حلقوں نے پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں عمران خان کو متبادل قیادت کے طور پر آزمانے کا فیصلہ کیا، مگر ان کا یہ تجربہ ناکام رہا اور انھی کے گلے پڑگیا۔ عمران خان جو بہ ظاہر کرپشن کے خلاف جنگ کے علم بردار بن کر سامنے آئے، مگر افسوس ان کے اپنے قریبی حلقے کرپشن کا مرکز بن گئے۔ انھی طاقت ور حلقوں نے ان کے گھر میں پائی جانے والی کرپشن داستانوں کو منظرِ عام پر لاکر پیش کیا؛ کاش! عمران خان رشتوں ناتوں کی پروا کیے بغیر کرپشن الزامات کی سرِ عام تحقیقات کرواتے، بل کہ دنیا کے لیے مثال قائم کرتے ہوئے اپنے قریبی حلقوں کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے راہ ہم وار کرتے، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ جس عہدے دار نے اُن تک کرپشن رپورٹس پیش کیں۔ انھی کو اس عہدے سے ہٹوا دیا۔ بات یہیں پر نہیں رُکی؛ اس شخص کو ادارے کی سربراہی سے دُور رکھنے کے لیے ہر ممکن کوششیں جاری رکھیں۔
کہتے ہیں نا کہ دنیا مکافاتِ عمل کی جگہ ہے۔ آج وہی شخصیت پاکستان کے سب سے طاقت ور ادارے کی سربراہ بن چکی ہے۔ جن طاقت ور حلقوں نے مسندِ اقتدار کے مزے کروائے، مگر چند اختلافات کی بنا پر عمران خان انھی کے خلاف ہوگئے۔ سرِعام اور سرِ بازار ان کو دھمکیاں اور گالیاں دیتے دِکھائی دیے۔ بہ حیثیت سیاست و قانون کے طالب علم کے میرے لیے یہ بات ہضم کرنا بہت مشکل تھی کہ جیل میں عمران خان کو میڈیا ٹاک کی کھلی آزادی کیوں دی جارہی ہے؟ جیل سے عمران خان کے آئے روز کے بیانات، دھونس اور دھمکیوں سے یہ بات عیاں ہوئی کہ منصوبہ ساز اپنے منصوبوں میں کام یاب رہے۔ پسِ پردہ پی ٹی آئی پارٹی عہدے دران جتنی محنت سے طاقت ور حلقوں سے معاملات سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں؛ عمران خان کی زبانی گولہ باری سے معاملات کئی گنا زیادہ خراب ہوجاتے ہیں۔ دورانِ اقتدار سیاسی لیڈر شپ سے تعلقات خراب رکھے اور ساتھ ہی ساتھ دوست ممالک سے تعلقات کو خراب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی دادرسی کے لیے کوئی آگے نہیں آرہا۔ میری نظر میں عمران خان کا دشمن صرف عمران خان ہے، جس نے عمران خان کو اس حال تک پہنچا دیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔