مَیں اپنے مشران سے ملک بیرم خان (تاتا) کے بارے میں سنتا آرہا ہوں۔ خاص طور پر اختر ایوب خان سابق ٹی ایم اُو بحرین، اُن کے بہت بڑے مداح ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک بیرم خان کی کارکردگی بے مثال تھی اور کوئی دوسرا اُن جیسا نہیں آیا۔ وہ ایک با رعب اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ اُن کے جانے کے بعد تحصیلِ بابوزئی کی ترقی تھم سی گئی ہے۔ لوگ اُنھیں ’’والئی سوات ثانی‘‘ بھی کہتے تھے۔
مَیں نے لفظونہ ڈاک کام پر محترم ساجد امان صاحب کا ایک آرٹیکل پڑھا ہے، جس میں اُنھوں نے ملک بیرم خان کی کارکردگی کو اُجاگر کیا تھا۔ مذکورہ آرٹیکل نے مجھے اس بات کا مزید ادراک دیا کہ ایک عملی کردار والا انسان کیسا ہوتا ہے۔
ملک بیرم خان (تاتا) ایک خاندانی اور باوقار شخصیت کے حامل انسان تھے۔ والئی سوات کے بعد اُنھوں نے مینگورہ کا نقشا بدل کر رکھ دیا تھا۔ فضاگٹ پارک کی تعمیر، سڑکوں اور گلیوں میں برقی کھمبوں کی تنصیب، ہر گلی میں صفائی ستھرائی کے لیے "Vessels” نصب کیے، جگہ جگہ ٹیوب ویل بنائے اور اُس وقت گنبد میرہ میں قبرستان کے لیے وسیع زمین خریدی۔ یوں اُن کی کارکردگی کی ایک طویل فہرست ہے جس پر میں پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔
اُس وقت بیرم خان (تاتا) کی نہ تو موجودہ تحریکِ انصاف کی حکومت کی طرح پورے صوبے میں حکومت تھی، اور نہ اُنھیں اتنے فنڈ ہی میسر تھے، لیکن اُنھوں نے اتنا کام کیا، جو شاید ایک ایم پی اے 5سال یا 10 سال میں بھی نہیں کرسکتا۔ اگر موازنہ کیا جائے، تو ایک وقت تھا جب ملک بیرم خان (تاتا) نے محدود فنڈ کے باوجود مینگورہ کا نقشا بدل کر رکھ دیا تھا اور آج ایک وقت یہ ہے کہ تقریباً 3 سال گزرنے کے باوجود مئیر بابوزئی نے کوئی قابلِ ذکر اور ڈھنک کا کوئی کام نہیں کیا۔ مَیں روزانہ ’’ٹک ٹاک‘‘ اور ’’فیس بُک‘‘ پر ان کی ویڈیوز دیکھتا ہوں، جن سے ان کی کارکردگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ سب کچھ سیاسی ڈراما بازی معلوم ہوتی ہے۔ عوامی فلاح و بہبود کے لیے ان کی سنجیدگی کا اندازہ ان کے سوشل میڈیا پروفائل سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ڈراما بازی زیادہ ہے اور کام کچھ بھی نہیں۔
افسوس ہے کہ آج کل سوشل میڈیا پر حد سے زیادہ تعریف اور سیاسی مبالغہ آرائی کا ایک مکروہ دھندا چل رہا ہے۔ چاہے کام کچھ نہ ہو، بس اتنی تشہیر کی جاتی ہے کہ عوام یہ سمجھنے لگیں کہ بس یہی تیس مار خان ہے۔ یہ سب عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
دیگر متعقلہ مضامین:
ملک بیرم خان تاتا کی یاد میں
سٹی میئر شاہد علی خان انتظامیہ پر برس پڑے
سٹی میئر کو بھی بھتے کی رقم کے لیے کال موصول
قارئین! موجودہ مئیر بابوزئی کے مطابق اُن کی کارکردگی اس لیے صفر ہے کہ اُن کے پاس فنڈ نہیں ہیں، لیکن اگر مسئلہ صرف فنڈ کا ہوتا، تو شاید ملک بیرم خان (تاتا) کے دور میں مینگورہ کی ایک گلی بھی پختہ نہ ہوتی۔ فنڈ حاصل کرنے کے لیے محنت اور جد و جہد کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے مئیر کا فنڈ کا بہانہ بنانا مضحکہ خیز بات ہے۔ تحریکِ انصاف نے پورے صوبے میں کلین سویپ کیا ہے اور صوبائی حکومت ہونے کے باوجود فنڈ کا بہانہ بنانا سمجھ سے بالاتر ہی ہے۔
اگر فنڈ کی کمی واقعی ان کے لیے ایک مسئلہ ہے، تو مئیر بابوزئی کو استعفا دے کر گھر چلے جانا چاہیے۔ یہی سیاست کا اُصول ہے۔ فنڈ نہ ہونے کی شکایت کرنا اور پھر بھی کرسی سے چمٹے رہنا سیاست نہیں، بل کہ محض ڈراما بازی ہے۔
مئیر بابوزئی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر کام فنڈ پر منحصر نہیں ہوتا۔ ایک مئیر کی اور بھی ڈھیر ساری ذمے داریاں ہوتی ہیں۔ مئیر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے فنڈ کے علاوہ بھی کام کرسکتے ہیں۔ مثلاً: اپنے ماتحت اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا اور شہر میں نظم و ضبط قائم کرنا۔
مئیر کی ذمے داریوں میں شامل ہے کہ وہ شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرے۔ صفائی ستھرائی کے نظام کو بہتر بنائے۔ ٹریفک کی روانی کو منظم اور بہتر کرے۔ پارکوں اور پبلک مقامات کی دیکھ بھال کرے اور پانی کی فراہمی و نکاسی کے نظام کو درست رکھے۔
مئیر کو شہر کے ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی اور اُن کی بروقت تکمیل کو یقینی بنانا چاہیے۔ فنڈ کی کمی کے باوجود، ایک مئیر اور بھی کئی اقدامات کرسکتا ہے، جیسے عوامی مسائل کے حل کو ترجیح دینا، گڈ گورننس کی بحالی کے لیے کوششیں کرنا، شہر کی صفائی کا مؤثر انتظام برقرار رکھنا، نظم و ضبط اور تخلیقی سرگرمیوں کے حوالے سے عوام میں شعور بیدار کرنا، کمیونٹی سروسز اور رضاکارانہ کاموں کو فروغ دینا اور حکومتی اداروں سے رابطے بڑھا کر فنڈ کی فراہمی کے لیے کوششیں کرنا۔ اس کے علاوہ، مئیر کو عوام سے بہ راہِ راست رابطہ رکھ کر ان کے مسائل کو سننا چاہیے اور فوری اقدامات کرنے چاہئیں، جو شہر کی بہتری کے لیے بے حد اہم ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔
ایک مئیر میں جس صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے، شاید مئیر بابوزئی میں اُس کی کمی ہے۔ کیوں کہ موجودہ مئیر بابوزئی خود کو اُن تمام ذمے داریوں سے ماورا سمجھتے ہیں اور اُن کے پاس ہمیشہ یہی بہانہ ہوتا ہے کہ فنڈ میسر نہیں۔ حالاں کہ اُن کے ماتحت پورا ٹی ایم اے بابوزئی ہے۔ اگر آپ اُن کی کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں، تو ٹی ایم اے کا دورہ کریں۔ آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ وہاں کا حال کتنا برا ہے۔ ناقص کارکردگی کی وجہ سے ہماری تحصیل دن بہ دن تاریکی میں ڈوب رہی ہے۔ مئیر صاحب کو اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔
اگر تحصیلِ بابوزئی کی حقیقی خوش حالی دیکھنی ہے، تو آیندہ انتخابات میں کسی جاہ و جلال اور پشتون قبیلے سے تعلق رکھنے والے مقامی شخص کو ووٹ دینا ہوگا، جس میں عملی میدان میں جھنڈا گاڑنے کی صلاحیت ہو، نہ کہ صرف سوشل میڈیا پر دکھاوا کرنے والا ہو۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
