نشاط چوک سے مین بازار کی طرف جاتے ہوئے ایک عظیم الشان مسجد، ساتھ اعظم کلاتھ مارکیٹ اور اُس کے بالکل پیچھے اعظم ٹریڈ سنٹر وسیع مارکیٹ اس شہر کے ایک وجیہہ، ہر دِل عزیز، یار باش، سلیقہ مند اور گفت گو کا ہنر رکھنے والے امان اللہ خان صاحب کی عظمت کی یاد دِلاتے ہیں۔
امان اللہ خان صاحب رحمت اللہ خان صاحب کی اولاد میں سے تھے۔ دوسرے بھائی نادر خان جو لنڈے کس میں غورئی چینہ سے آگے سرسبز ماحول میں آباد ہوئے۔
رحمت اللہ خان صاحب، غمے حاجی صاحب اور دیگر دوست تھے۔ اُن کو اُس وقت زمین کی قدر معلوم تھی اور نقد رقم بھی رکھتے تھے۔ انھی رحمت اللہ خان کے گھر میں پیدا ہونے والے امان اللہ خان شہزادوں جیسی شکل و صورت رکھتے تھے اور طبیعت بھی شاہانہ پائی تھی۔ اپنے والد صاحب کو کہا کہ ’’مجھے جائیداد وغیرہ میں کوئی دل چسپی نہیں۔ اگر آپ میرے لیے کمانا اور جمع کرنا چاہتے ہیں، تو ایسا بالکل نہ کریں۔کسی کو تکلیف نہیں دینی چاہیے۔ کسی کی جائیداد مجبوری یا بے کسی میں ہماری نہ ہو۔‘‘
رحمت اللہ خان نے بیٹے کی بات کے وزن کو دیکھا اور لااُبالی پن اور سنجیدگی کے درمیان بڑے ہوتے ہوئے امان اللہ خان کو خود زندگی اپنے اُصولوں پر چلانے کی اجازت دے دی۔
امان اللہ خان نے 9ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ اُس زمانے میں ’’لپٹن کمپنی‘‘ میں ملازمت ملی۔ ماہانہ تنخواہ 30 روپے مقرر ہوئی۔ مراعات اس کے علاوہ تھیں، مگر شرط یہ تھی کہ اُن کو چورڑئی (اَب مدین) شفٹ ہونا ہوگا، جہاں ’’لپٹن کمپنی‘‘ زرعی تجربات کرنا چاہ رہی تھی۔ ساتھ ہی چائے کے استعمال کو بڑھانے کا پروگرام تھا اور سب سے بڑی بات سیل کو مانیٹر کرنا تھا۔ باقی تمام باتیں ٹھیک تھیں، مگر اُنھیں چورڑئی جانا منظور نہ تھا۔ اس لیے نوکری کرنے کی جگہ اپنی ہرکولیس سائیکل پر شہر کے گرد و نواح کی کچی پکی سڑکوں پر چلنا زیادہ پسند کیا۔ جوان ہوئے تو معزز سید گھرانے میں اُن کی شادی کرائی گئی۔ انڈرا میاں نامی معزز سید اُن کے سسر تھے۔ بہت ہی باہمت خاتون تھیں اجمل وغیرہ کی والدہ۔
کچھ ہی عرصے بعد امان اللہ خان نے دوسری شادی کی، جو اپنے خیل کے اندر تھی، مگر اس شادی کے بعد وہ معاشی بدحالی اور معاشرتی تنہائی کا شکار ہوئے۔
شیر زادہ ٹھیکے دار ایک مشہور و معروف ٹھیکے دار تھے۔ یار لوگوں نے کہا کہ امان اللہ خان صاحب کو ٹھیکے داری میں شریک کریں، مگر اُن کا کہنا ہوتا کہ ایک تو یہ لڑاکو بہت ہے۔ دوسرا غیر مستقل مزاج ہے۔
امان اللہ خان ہمارے حجرے جس میں دو کمرے اور کھلا صحن تھا، میں پورا دن بیٹھے رہتے اور جب ٹیپ ریکارڈر آیا، تو ہلنے کا نام بھی نہ لیتے۔ دلیپ کمار جیسے خوب صورت اور بارُعب نوجوان موسیقی، اخبار اور حالات حاضرہ میں بہت دل چسپی لیتے تھے۔
قارئین! میرے دادا جن کے پاس ریلے سائیکل ہوتی تھی اور امان اللہ خان جن کے پاس ہارکولیس سائیکل تھی، شہر کے بازاروں اور گلی کوچوں میں ’’شو‘‘ کرکے گزرتے، یا بیٹھک میں بیٹھ کر موسیقی سے لطف اندوز ہوتے، یا بہروز کے چاپ (ہیئر ڈریسر) میں ہوتے۔ دوسری بیوی سے اُنھوں نے علاحدگی اختیار کی۔ میرے دادا سے ایک لاری خریدی اور خود اس کو چلانا شروع کر دیا، مگر ناتجربہ کاری اور مستریوں سے لے کر کلینروں کے گن چکر میں پھنس کر کچھ عرصے میں ٹرانسپورٹ سے توبہ کرلی۔ اُسی بیٹھک میں بیٹھے بیٹھے یار لوگوں نے شیر زادہ ٹھیکے دار کو مجبور کیا اور اُنھوں نے امان اللہ خان کو حصے دار بنا دیا۔ اُن کو سیدو بابا کے مزار کی تعمیرِ نو کا ٹھیکا ملا اور اس میں ٹوٹل ساڑھے تین ہزار روپے کی کمائی ہوئی۔ مرجھائے ہوئے امان اللہ خان کھل اُٹھے اور شیر زادہ ٹھیکے دار اور دوستوں کے ساتھ کراچی کی سیاحت کے لیے چلے گئے۔ واپسی پر بیٹھک میں حساب کتاب کرنے بیٹھتے۔ شیر زادہ ٹھیکے دار صاحب کہتے، طوطا کسی کے حق میں فیصلہ نہ کریں، صرف اللہ کے لیے فیصلہ کریں…… مگر امان اللہ خان صاحب مسکراتے ہوئے کہتے، نہیں طوطا! میرے حق میں فیصلہ کریں، کیس جیسا بھی ہے۔ یوں فلک شگاف قہقہے بلند ہوتے۔
پارٹنر شپ کا سلسلہ ختم ہوگیا، مگر امان اللہ خان ٹھیکے دار بن گئے۔اُن کی طبیعت کی وجہ سے والی صاحب اُن پر اس طرح اعتبار نہیں کرتے تھے اور اُن کو لڑاکو، غیر مستقل مزاج اور غیر سنجیدہ ہی سمجھتے تھے۔
کہتے ہیں کہ امان اللہ خان صاحب ایک اعلا قسم کا پستول اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ گو کہ لڑائی جھگڑے اُن کے تھے، مگر پستول ہمیشہ اپنے پاس رکھنے کا راز کسی کو معلوم نہیں ہوا۔ اس دوران میں وہ ایک عشق میں مبتلا ہوگئے۔ہر تعویذ گنڈے والے کے پاس جاتے اور آخرِکار اُن کی شادی خارئی بی بی کے ساتھ ہوہی گئی، جس نے اُن کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ یوں امان اللہ خان ایک سنجیدہ کاروباری شخصیت اور معتبر مدلل ہستی بن گئے۔ والی صاحب کی نظرِ کرم بھی اُن پر ہوئی۔ مینگورہ ہاسٹل، مینگورہ کی تمام سڑکوں کے علاوہ سوات کی بیش تر شاہ راہوں کے ٹھیکوں کی یکے بعد دیگرے ان کے پاس آمد شروع ہوئی۔ جب والی صاحب کی طبیعت اور مزاج پر پورا اُترے تو کام بھی بڑھتا ہی چلا گیا۔ ایک دن ایسا آیا کہ وہ والی صاحب کے قریبی، بل کہ چہیتے سمجھے جانے لگے۔ شدید بارشوں کے بعد مینگورہ ہاسٹل کی بنیادیں تباہ ہوئیں۔ سیمنٹ اور دوسرے سامان کا بہت نقصان ہوا۔ کہتے تھے کہ امان اللہ خان صاحب نے اپنا سب کچھ یہاں لگایا تھا، وہ ڈوب گیا۔ والی صاحب نے وہ ٹھیکا از سر نو اُن کو دیا اور سارا نقصان سرکاری خزانے سے پورا کیا۔ اس کی نظیر نہیں ملتی۔
ایک بہت قریبی شخص نے ایک دفعہ امان اللہ خان سے پستول رکھنے کی وجہ پوچھی، تو کہا کہ ’’بتاؤں گا، تو برا لگوں گا۔ بس ایک خواہش سی ہے کہ کسی دن والی صاحب اور باچا صاحب ساتھ ملیں اور دونوں کو ایک ایک گولی مار دوں۔‘‘
شاید امان اللہ خان صاحب کے لاشعور میں دو باتیں تھیں۔ پہلی بات یہ کہ سوات کے اصل خان جلوخیل ہیں اور وہ نشست باچا صاحب نے چھین لی ہے۔
دوسری بات، جب برا وقت تھا، تو والی صاحب نے کوئی مدد نہیں کی۔ جب پاؤں جم گئے، تو اُن کی محبت جاگ گئی۔ واللہ اعلم!
دیگر متعلقہ مضامین: 
مینگورہ اک شہر بے مثال (بارھویں قسط) 
کچھ پروفیسر اشرف الطاف کے بارے میں  
امیر دوست خان دھوبی  
تاریخی ودودیہ سکول کے اولین طلبہ  
فلائنگ کوچ مولوی صاحب 
امان اللہ خان مسجد جو پیش تر اس کے ’’ملا گل استاد مسجد‘‘ کے نام سے مشہور تھی، دراصل ملا گل استاد نہایت نیک انسان تھے۔ خود باچا اُن کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ اسی مسجد میں ملا گل استاد صاحب کے دو بزرگوں کی قبریں بھی تھیں۔ مسجد کی تعمیرِ نو شروع ہوئی، چندے اور اشر سے کام چل رہا تھا۔ امان اللہ خان صاحب جو آزاد طبع انسان تھے۔ ایک دفعہ اُن کی توجہ مسجد کی طرف گئی۔ چندے روک لیے گئے اور باقی تمام خرچہ اور محنت امان اللہ خان صاحب کی لگی اور ساتھ میں دیواروں پر لکھوایا گیا کہ اس مسجد میں چندہ دینا یا مانگنا منع ہے۔ وفات تک مسجد کے تمام اخراجات امان اللہ خان صاحب اپنی جیب سے ادا کرتے رہے۔
ایک دن امان اللہ خان یک رویہ سٹرک پر اوور سپیڈنگ کرتے ہوئے راولپنڈی کے راستے میں ایک جان لیوا حادثے کا شکار ہوگئے۔ یہ میرے اندازے کے مطابق 77ء یا 78ء کا واقعہ ہوگا۔ میرے دادا اور اُن میں ناراضی تھی۔ میرے دادا اُن کو نہیں ملتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ میجر حمید الحق کے جنازے پر نہیں آئے تھے اور امان اللہ خان کا کہنا تھا کہ وہ پنڈی میں تھے اور بے خبر تھے۔
امان اللہ خان کے انتقال پر شہر میں سوگ تھا اور میرے دادا کی حالت غیر تھی۔ مینگورہ شہر میں والی صاحب، کامران خان اور چاچا کی طرح اُن کی اولاد میں سے بھی کوئی باپ کا نام آگے لے جانے والا کوئی نہیں آیا…… مگر امان اللہ خان کا ایک بیٹا عظیم خان آیا، جو نازوں میں پلا تھا۔ اُس نے امان اللہ خان صاحب کی طرح دریا دلی اور بہادری کی مثالیں قائم کیں۔وہی باپ کی عادات، شکار کا شوقین ۔
ایک دفعہ مجھے یاد ہے جمعے کا دن تھا۔ سب گلیاں سنسان تھیں۔ مَیں نے دیکھا کہ عظیم خان بہت تکلیف میں لنگڑاتے چل رہے ہیں اور پاؤں اور ٹانگ پہ خون ہے۔ مَیں نظر آیا، تو کہا: ’’طوطا! چلو۔‘‘ مَیں ساتھ چل دیا میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا۔ ڈاکٹر عبدالوہاب صاحب کے کلینک پر گئے، تو بتایا کہ شکار میں زخمی ہوئے ہیں۔ وہی درد کا انجکشن لگا اور کوئی آرام والا انجکشن بھی ساتھ لگا دیا۔
تھوڑی دیر بعد بالکل نارمل ہوگئے۔ پٹی لگی تھی۔ ڈاکٹر صاحب بھی اُن کو غصہ ہورہے تھے۔ مَیں اور ایک کمپاؤنڈر اُن کے ساتھ گھر تک گئے۔ راستے میں وہ مجھے بار بار تاکید کر رہے تھے کہ ’’طوطا کو نہیں بتانا۔‘‘ دراصل وہ میرے والد صاحب کو بھی طوطا کہتے تھے، مجھے بھی کہتے تھے اور میرے دادا کو بھی۔
عظیم خان آخری وقت میں تبلیغ سے وابستہ ہوگئے اور اپنی طبیعت کے مطابق ڈٹ کر بات کرتے اور آگے بڑھ کر دعوتِ اسلام دیتے۔ایک بدقسمت دن کو شاہدرہ وتکے میں ایک معمولی غلط فہمی کی بنیاد پر اینگروڈھیرئی کے کٹہ خیلوں کے ساتھ اُلجھے۔ ایک سلک مل جس کی زمین اعظم خان کی تھی اور مل کٹہ خیلوں کی تھی۔ یہ کٹہ خیل بہت ہی مخلص، محترم اور یاروں کے یار تھے۔ فون پر اُن کی آپس میں تلخی ہوئی اور عظیم خان غصے میں وہاں چلے گئے۔ کسی پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر غصہ انتہا کو پہنچا اور عظیم خان ایک اندھی گولی کا نشانہ بن گئے۔ یہ ایک الم ناک موت تھی۔ ایک بہادر آدمی کی لاش پڑی تھی۔ لوگ مغموم تھے۔ عظیم خان کے خاندان میں چھوٹے معصوم بچوں کے علاوہ کوئی نہ رہا۔ عاصم خان، اعظم خان کا بیٹا ہے۔ اُس کو دیکھ کر پوری ایک تاریخ سامنے آتی ہے۔ کسی تقریب میں ملاقات ہو، تو مَیں اس کو دیکھتا رہتا ہوں۔ ایک ساتھ اُس میں اعظم خان، امان اللہ خان اور رحمت اللہ خان کی شبیہ نظر آتی ہے۔ بے اختیار عاصم کی سلامتی کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔
امان اللہ خان جب مینگورہ شہر کی زمینوں کی کوئی قیمت نہیں تھی، نے اپنی محنت سے بہت پیسا کمایا۔ پیسے نے اُن میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی۔ بونیرے ماما تب بھی اُن کے دوست تھے اور گالیوں کا تبادلہ تب بھی اسی تواتر سے جاری رہتا۔
امان اللہ خان خاموشی سے اپنی گاڑی میں نکلتے اور گلی کے نکڑ پر نیم خوابیدہ بونیرے ماما کی ریڑھی کو ٹکر مارتے۔ ریڑھی سیدھی سامنے والی گلی میں جاتی اور بونیرے ماما خوب ’’گل پاشی‘‘ کرتے۔ امان اللہ خان کا چہرہ قہقہوں میں اور خوب صورت دِکھائی دیتا۔ پورا بازار زعفران زار بن جاتا اور خان آگے نکل جاتے۔
اس طرح عظیم خان گھر سے نکلتے، تو ہر ایک سے گرم جوشی سے ملتے اور ہر کوئی اُنھیں بالکل اپنا سمجھتا۔
اب وہ راتیں اور وہ باتیں کہاں
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔