خود اعتمادی بڑی اچھی چیز ہے۔ انسان کی شخصیت میں یہ ایک نمایاں خوبی ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہی لوگ زندگی کی دوڑ میں فاتح ٹھہرتے ہیں، جو خود اعتمادی کی صفت سے متصف ہوتے ہیں…… لیکن خود اعتمادی اُس وقت تک خوبی رہتی ہے، جب تک یہ حدِ اعتدال کے اندر رہے۔ حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی نہ صرف غیر متوازن ہوتی ہے، بل کہ شخصیت کا توازن بھی بگاڑ دیتی ہے…… جس کا منطقی نتیجہ کسی بہت بڑی کام یابی کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے اور بندے کو تختۂ دار تک لے جانے کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
جناب عمران خان نے 14 ماہ بعد بالآخر اعتراف کر ہی لیا کہ 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ وہ خود تھے۔
عمران خان نے بتایا ہے کہ اپنی گرفتاری کی صورت میں اُنھوں نے جی ایچ کیو جا کر پُرامن احتجاج کی کال دی تھی۔
یہ آدھا اعتراف یا آدھا سچ ہے، جو عمران خان نے بولا ہے، لیکن اس آدھے سچ کو لے کر پورے سچ تک پہنچنے کے لیے باقی نقاط کو ملانا کوئی مشکل کام نہیں۔ وہ تو اس سے پہلے 9 مئی کے واقعات سے خود کو مکمل طور پر لاتعلق قرار دیتے آئے ہیں اور سارا ملبہ اپنی پارٹی کے دیگر راہ نماؤں اور کارکنوں پر ڈالتے آئے ہیں۔
عمران خان کا ہمیشہ یہی موقف رہا ہے کہ وہ تو جیل میں تھے، اُنھیں کیا پتا کہ باہر کیا ہو رہا ہے؟ اب پیر 22 جولائی کو جناب عمران خان نے میڈیا کے نمایندوں کے سامنے یہ اعتراف کر لیا ہے کہ اپنی گرفتاری کی صورت میں کارکنوں کو جی ایچ کیو جا کر احتجاج کرنے کی ہدایت اُنھوں نے خود دی تھی۔ یہ ایک ایسا دھماکا تھا، جس کی پی ٹی آئی کے کارکنوں یا لیڈروں کو بالکل بھی اُمید نہیں تھی۔
جناب اسد قیصر تو جمعہ کے روز عمران خان کی رہائی کے لیے پورے ملک میں احتجاج کی کال دے چکے تھے، لیکن عمران خان کے اعتراف کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں کا نہ صرف جوش ٹھنڈا پڑگیا ہے، بل کہ احتجاج کی صورت میں اُنھیں اپنے انجام کی فکر بھی پڑگئی ہے۔
ملک کے کئی معروف تجزیہ نگار کَہ رہے ہیں کہ عمران خان نے اعتراف کے بعد اپنے مقدمے کو فوجی عدالت میں لے جانے کی راہ مکمل طور پر ہم وار کر دی ہے۔
اُدھر ذمے دار ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگست میں 9 مئی کے مرکزی مقدمے کی سماعت شروع ہونے جا رہی ہے۔ یہ مقدمہ لاہور کی عدالت میں چل رہا ہے۔ یقینی طور پر اس مقدمے کی سماعت کے لیے عمران خان اور شاہ محمود قریشی سمیت دیگر ملزمان بھی لاہور منتقل کر دیے جائیں گے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ مقدمہ جیل میں خصوصی عدالت لگا کر آگے چلایا جاتا ہے، یا نئی پیش رفت کے بعد اسے فوجی عدالت میں منتقل کیا جاتا ہے؟
ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے میڈیا نمایندگان سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے 9 مئی کے ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے عزم کا اِعادہ کرتے ہوئے دو ٹوک موقف اختیار کیا ہے کہ 9 مئی کے ملزمان کو عدالتی ڈھیل دینے سے انتشار پھیلے گا۔
پیغام بالکل واضح ہے کہ فوج اس وقت تک 9 مئی کے سانحے کے حوالے سے عدالتی کارکردگی پر مطمئن نہیں۔ فوج ملزمان کو سزا دلوانا چاہتی ہے۔ 14 ماہ گزر چکے ہیں۔ مقدمے میں خاص پیش رفت فوج کو نظر نہیں آ رہی، مگر یہاں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس کی ذمے داری صرف عدلیہ پر ہی عائد ہوتی ہے یا کوئی اور بھی اس کا ذمے دار ہے۔ دیکھا جائے، تو حکومت کی طرف سے 9 مئی کے ذمے داران کا تعین کرنے اور ثابت کرنے میں بھی سستی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ یہ قانونی موشگافیاں ہیں، جن کا فائدہ بہ ہرحال ملزمان اُٹھایا ہی کرتے ہیں۔ مدعی مقدمہ یا پراسیکوٹر کا کام الزام کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔ عدالت نے اپنی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں دینا ہوتا۔
فوج بغیر کسی ابہام یا شک کے عمران خان کو سانحہ 9 مئی کا ماسٹر مائنڈ اور اس سانحہ کو سوچے سمجھے منصوبے کا شاخ سانہ سمجھتی ہے۔ گذشتہ سال 9 اور 10 جولائی کی درمیانی شب جناب عمران خان نے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے فوجی قیادت سے رابطہ کرکے ’’غلط فہمی‘‘ دور کرنے کے لیے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا، لیکن دوسری طرف سے واضح اور دو ٹوک جواب دیا گیا تھا کہ ’’ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں۔ ہر چیز صاف اور واضح ہے۔‘‘
اپنی طرف سے شاید ’’غلط فہمی‘‘ دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہی عمران خان نے میڈیا نمایندگان کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ اُنھوں نے تو صرف اپنے کارکنوں کو پُرامن احتجاج کے لیے جی ایچ کیو جانے کی ہدایت کی تھی۔ وہاں جا کر کارکنوں نے جو کچھ کیا اُس کی ہدایت اُنھوں نے نہیں دی تھی۔ کیا واقعی عمران خان اتنے سیدھے اور بھولے بھالے ہیں کہ ہجوم کو احتجاج کے لیے جانے کی ہدایت دیتے وقت اُنھیں یہ علم نہیں تھا کہ جذباتی ہجوم بے قابو بھی ہوسکتا ہے؟
دوسری طرف واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ جس میٹنگ میں جناب عمران خان کی زیرِ صدارت پلاننگ ہوئی تھی کہ اُن کی گرفتاری کی صورت میں کس طرح اور کہاں کہاں احتجاج کرنا ہے…… اس کی تمام تر تفصیلات فریقِ ثانی کے پاس ڈاکومنٹری ثبوتوں کے ساتھ موجود ہیں۔ اپنے آپ کو اس معاملے سے بالکل بری الذمہ قرار دینے والے عمران خان کو ان ثبوتوں کے بارے میں بتا دیا گیا ہے۔ شاید اسی لیے اُنھوں نے حسبِ عادت ’’یو ٹرن‘‘ لیتے ہوئے لاتعلقی ختم کرکے اپنی طرف سے ’’محفوظ اعتراف‘‘کرلیا ہے، مگر یہ اعتراف آگے چل کر ان کے لیے بڑی مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔
اس سے یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ جناب عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے فوجی تنصیبات کو جلاو گھیراو کے واقعات وقتی ردِ عمل کا نتیجہ نہیں تھے، بل کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فوجی تنصیبات پر حملہ کیا گیا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔