آخر چکیسر میں کیا خاص بات ہے کہ 66 سال بعد بھی میں اس کے سحر سے نہ نکل سکا۔
1958ء میں میٹرک کے نتائج کا انتظار تھا، تو مَیں اپنے ایک عزیز کے پاس چکیسر چلا گیا، جو وہاں پر سٹیٹ سول ڈسپنسری کے انچارج تھے۔ اُن کا نام سلطان محمد تھا۔ سیدو شریف کے ایک قدیم معزز خاندان سے تھے۔ اس دفعہ میں صرف دو ہفتے وہاں رہا، مگر وہ مختصر قیام دل پر نقش بن کر رِہ گیا۔ تقدیر مجھے پھر کوئی 4 سال بعد وہاں پھر لے گئی۔ اُس بار میں 18، 19 سال کا تھا اور شاید ریاست کا کم عمر ترین ملازم تھا۔ مجھے اُس بار وہاں ایڈجسٹ ہونے میں کچھ وقت ضرور لگا کہ اپنے رشتہ دار کا تبادلہ ہوچکا تھا، مگر ایک مقامی خان کی سرپرستی مل گئی اور مجھے پھر کئی سال تک اُسی خاندان کی اِعانت، محبت اور شفقت حاصل رہی۔ یہ شخصیت جناب علقموت خان کی تھی جو عرفِ عام میں ’’اکو‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔
مَیں نے چکیسر کے پختونوں کو اپنی نسلی تفاخر میں بہت حساس پایا۔ وہ شدت سے اس امر کا بہت فخریہ اور غرور بھرے الفاظ میں اظہار کرتے ہیں کہ وہ پختون ہیں۔ وہاں دوسری ذاتوں کے لوگ بھی تھے، جن میں محنت مزدوری کرنے والے بھی تھے اور تعلیم کے میدان میں بھی نمایاں کردار نبھانے والے تھے، جن کی عزت بھی کی جاتی تھی…… مگر عمومی طور پر وہ لوگ دب کے رہنے کے عادی ہو چکے تھے۔
ہم حاکم کی عدالت اور رہایش گاہ تعمیر کروا رہے تھے، تو مزدوروں کی حاضری کے لیے ایک منشی رکھا ہوا تھا۔ نام اُن کا سرفراز تھا۔ بے چارے کثیرالعیال تھے۔ 40 روپیا ماہ وار اُن کی تنخواہ تھی۔ ذات کے جولاہے تھے۔ اُن کا ایک بھائی تحصیل کے قریب ایک چھپر ہوٹل چلاتا تھا، ’’نورئی‘‘ اُس کا نام تھا۔ جو جمع دار رکھا، اُس کا نام نجیم تھا اور ذات کا خان خیل تھا۔ دن بھر دونوں کی نوک جھونک جاری رہتی۔ خیر، نسلی پختون جہاں کے بھی ہوں ہمیشہ اپنی "Supremacy” پر زور دینے میں تامل نہیں کرتے۔
2001ء کے لگ بھگ میں ایک فوجی ٹیم کے ساتھ چکیسر گیا تھا۔ یہ میرا آخری وزٹ تھا، اپنے اس محبوب خطے کا۔ ہم کالج ہی سے واپسی کا سفر شروع کرچکے تھے۔ گاؤں پھر دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ ’’اوپل کنڈو‘‘ میں ہم حاجی تاج الملوک کے مہمان تھے۔ موصوف بہت دل آویز اور خوش لباس شخص تھے۔ کھانا بھی بہت پرُتکلف تھا۔ ہمارے گروپ لیڈر سے اپنا تعارف کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتے رہے کہ وہ پختون ہیں اور حاجی بھی ہیں۔
میرامقصد صرف یہ بتانا ہے کہ چکیسر کے پختون اپنی روایات سے نہایت ثابت قدمی سے جڑے ہوئے ہیں۔ اب تو رُبع صدی گزر گئی۔ پھر جانا نصیب نہ ہوا، لیکن مجھے اب بھی قوترام کا چشمہ نہیں بھولا، جس میں کپڑے اتار کر نہاتا، تو میل کے ساتھ تھکن بھی اُتر جاتی، سنڈہ سر کی شاموں کی نشست، خدنگ کے معصوم بچوں کی خوب صورتی، انڈوں والے پراٹھے اور دربش کیک اب بھی یاد ہیں۔
دوستو! بعض بڑے بوڑھے لوگوں کے منھ سے بلا سوچے سمجھے ایک بات نکلتی ہے۔ ایک پیش گوئی، ایک خیال…… اور وہ بات کچھ عرصہ بعد سچ ثابت ہوجاتی ہے۔
چکیسر گاؤں 1960ء کی دہائی میں ایک مختصر سی بستی تھا۔ اس میں چند دُکانوں پر مشتمل مختصر سا بازار تھا، جس میں کرشن لال کا میڈیکل سٹور بھی تھا۔ چاچا بشن داس کی کپڑوں کی دُکان تھی۔ ایک چرس کا سرکار کا منظور شدہ سیل پوائنٹ تھا۔ نورئی ماما کا چھپرنما ہوٹل تھا۔ گاؤں کے درمیان سے گزرتی ہوئی تنگ سی ایک گلی تھی۔ اگر آپ اس میں تحصیل کی طرف سے داخل ہوں، تو آپ 10 منٹ سے بھی کم وقت میں دوسرے سرے تک پہنچ سکتے تھے، جہاں پر کمانڈر آفرین خان کا حجرہ اور اس کے پڑوس میں سلطان محمود کپتان صاحب کا حجرہ اور گھر واقع تھے۔بس اتنی سی بستی تھی۔
عقلموت خان کے حجرے کے ساتھ شمال کی طرف کچھ کھیت اور پھر ایک گہری کھائی تھی۔ آدھے سے زیادہ مرد حضرات اس کھائی کو رفع حاجت کے لیے استعمال کرتے تھے۔
اسی کھائی کے دوسرے کنارے پر کھیتوں کے چند سیاڑ، درختوں میں گھرا ہوا ایک گھر اور ایک بیٹھک تھی۔ اسی الگ سی انسانی بستی کو ’’مکان‘‘ کہتے تھے۔ یہ ایک مولوی صاحب کی ملکیت تھی، جن کو عرفِ عام میں ’’با مولوی صاحب‘‘کہتے تھے۔ بڑے خوش حال لوگ تھے۔ بھینس بھی رکھتے تھے۔ کھیتی باڑی بھی کرتے تھے۔ میرا بڑا دل کرتا تھا اُن صاحب سے باتیں کرنے کا…… لیکن ہمت نہیں پڑتی تھی۔ بھلا 19، 20 سال کا لڑکا کیسے ایک بزرگ دینی عالم سے از خود باتیں کرسکتا ہے۔
اُن کا ایک لڑکا جو مجھ سے عمر میں بڑا تھا۔زین العابدین نام تھا غالباً اُن کا۔ اُن سے عجیب حالات میں ملنے کا اتفاق ہوا۔
دراصل اُس دن ہلکی سی بارش ہورہی تھی۔ مَیں اور شیر محمد خان اسی مکان کے کھیتوں میں ایک ’’تلیر‘‘کی آواز سن کے داخل ہوئے۔ ایک کونے میں خوبانی کے درخت میں شیر نے اُسے جالیا اور بارہ بور کے شاٹ گن سے اُسے مار دیا۔ فائر کی آواز پر مولوی صاحب باہر نکل آئے اور ساتھ ہی زین العابدین بھی۔ ہمیں دیکھ کر کچھ ناراضی کا اظہار کیا اور بس……!
اس واقعے کے چند روز بعد میں شیرداد لالا کے ’’گٹو‘‘ (پرانی گاڑی) میں چکیسر جا رہا تھا۔ اتفاقاً زین العابدین بھی مینگورہ میں سودا سلف کے بعد واپس گھر جا رہے تھے۔ ہم ٹھونس ٹھانس کر بوریوں کے اوپر بیٹھے ہوئے تھے۔ راستے میں اچانک گٹو میں کچھ گڑ بڑ ہوگئی۔ شیرداد لالا اور ان کے ہیلپر ’’اچھو‘‘ کافی دیر تک انجن میں لگے رہے۔شام ہونے کو آئی۔ خدا خدا کرکے گاڑی سٹارٹ ہوئی۔
پھر جب ہم چکیسر پہنچے، تو رات کے 11 بج چکے تھے۔ زین العابدین مجھے یہ کَہ کر ساتھ لے گئے کہ اس وقت شاید ہی کیمپ میں کوئی جاگ رہا ہو۔ مذکورہ کیمپ دو خیموں پر مشتمل تھا۔ ایک میرے لیے مخصوص تھا اور دوسرا کاریگروں کے لیے۔ہم اُس وقت وہاں ایک ہسپتال بنوا رہے تھے۔
مختصر یہ کہ وہ رات مَیں نے زین العابدین کے ساتھ گزاری۔ صبح ناشتے پر مولوی صاحب کے ساتھ گپ شپ لگائی۔ کہنے لگے: ’’بابو! ایک وقت آئے گا، جب یہ سارا چکیسر بنگلے ہی بنگلے ہوگا اور تم اسے پہچان نہ سکوگے۔‘‘
وہی ہوا، آج چکیسر واقعی بنگلا ہی بنگلا ہے۔ مطلب زین العابدین نے جو پیش گوئی عرصہ پہلے کی تھی، وہ لفظ بہ لفظ درست ثابت ہوئی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔