میری یہ سطور غور سے پڑھیں۔
میرا یہ ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ نے سوات کے اُن 52 سالوں کے بارے میں جو رائے قائم کی ہے، آپ اُسے ترک کردیں۔ وہ 52 سال جو 1917ء سے 1969ء تک کے عرصے پر پھیلے ہوئے ہیں اور وہ دو باپ بیٹے، جنھوں نے اپنی دانش اور بساط کے مطابق جو بھی نظام چلایا، کیا وہ ایک ’’ہرکولین جاب‘‘ نہیں تھا؟ جو کچھ بھی تھا، بالکل "Indeginous”، خالص دیسی سیدھی سادھی "Wisdom” تھا۔
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
پاکستان 77 سال میں اپنی راہ متعین نہ کرسکا۔ یہاں وفاق صحیح چلا، نہ ’’ون یونٹ‘‘ ہی مستحکم رہا۔ کتنے کچے پکے آئین بنے اور ختم ہوگئے۔ اور تو اور پولیس ابھی تک 1876ء وغیرہ کے رولز پر چل رہی ہے۔ کتنے ’’مارشل لا‘‘ آئے۔ ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ اتنے بڑے بڑے قانون دان، علما اور نام ور بیوروکرئٹوں سے ملک سنبھالا نہیں گیا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ریاستِ سوات کے تعلیمی وظائف
تانگا اور یادوں کا اُمنڈتا طوفان
قوم کا پیسا مَیں معاف نہیں کرسکتا (والئی سوات)
نوابِ دیر شاہجہان خان اور تعلیم و صحت
دوسری طرف یہ دنیا کے ایک دُور افتادہ گوشے کے دو حکم ران کتنا دیسی ساخت کا نظام وضع کرگئے۔آپ ’’رواج نامہ‘‘ پر ایک نظر ڈالیں۔اُن سزاؤں کا اور اُن ضابطوں کا مطالعہ کریں جو لوگوں نے، مختلف قومیتوں نے خود اپنے آپ لاگو کیے۔سوات کے بڑے قبائلی گروپ نیک پی خیل، سیبوجنی، شامیزی، متوڑیزی، جنکی خیل، عزی خیل، بابوزی اور اباخیل مسی خیل شموزی…… سب اُن دفعات (رواج نامہ) پر متفق ہوگئے۔
پھر جب ریاست کو مختلف تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا، ان کے لیے مختلف رینکس کے افسران کا تقرر، ان کے اختیارات، سرکاری مالیے کا تعین، اداروں کی کارکردگی کا تحریری ریکارڈ…… یہ سب کچھ "Home Made” تھا۔
ایک انتظامی یونٹ پر تحصیل دار مقرر تھا۔ اس کے سپورٹ کے لیے قلعے کا اور بعد میں تھانوں کا عملہ رکھا گیا۔ تحصیل دار نہ صرف عدلیہ کا بنیادی یونٹ تھا، مگر انتظامیہ اور مالی امور کا بھی ذمے دار تھا۔ چند تحصیلوں کو ملا کر حاکمی کا یونٹ، پھر مرکز میں مشیرِ کوز سوات، مشیرِ برسوات، مشیرِ بونیر اور مشیرِ مال جو ابتدا میں وزیرِ مال کہلایا جاتا تھا۔ یہ ساری ریاستی مشینری ایک والی کے کنٹرول میں تھی۔ نہایت خوش اُسلوبی سے خودکار نظام کے طور پر چلتی رہی۔
ان میں خامیاں بھی تھیں۔ فرشتے نہیں تھے۔ سب انسان ہی چلانے والے تھے، لیکن امن و امان دیکھیے۔ تعلیم، صحت، رسل و رسائل کا نظام دیکھیں اور سب سے بڑھ کر انصاف کے حصول کا تقابلی جائزہ لے کر فیصلہ کریں۔
اب وہ دور واپس تو نہیں آسکتا اور وہ باب ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے۔ اس نظام میں خامیاں بھی ہوسکتی تھیں، مگر کم از کم اچھائیوں کو یکسر نظر انداز تو نہ کریں۔ اس حوالے سے کچھ اچھے الفاظ بھی تو تحریر ہوسکتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔