سموگ

انسان کی یہ بڑی خوش قسمتی رہی ہے کہ قدرت نے اسے بے شمار فیاضیوں سے نوازا ہے۔ ان فیاضیوں میں ماحول کا توازن قدرت کی طرف سے یقینا ایک بے نظیر اور انمول نعمت ہے، لیکن دوسری طرف حضرت انسان کی یہ بدقسمتی بھی ہے کہ اس نے اپنی بے اعتدالیوں اور لاپرواہیوں سے ماحول کے توازن کو بگاڑا جس کے نتیجے میں آج انسان گونا گوں مسائل اور مشکلات کا شکار ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ماحول کا توازن جنگلات، درختوں اور زرعی اراضی کے بچاؤ سے وابستہ ہے لیکن فی زمانہ آبادی میں مسلسل اور بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے جس کے لیے تعمیرات کی ضرورت پڑتی ہے۔ نتیجے میں درختوں اور جنگلات کی کٹائی سے ان کا خاتمہ اور زرعی اراضی کم ہورہی ہے۔ یہ سلسلہ ساری دنیا خصوصاً وطن عزیز میں جاری ہے۔ جب ماحولیاتی صفائی کے یہ کارکن اور عوامل متاثر ہوں، تو ماحولیاتی توازن بگڑ کر فضا آلودہ اور مسموم ہوجاتی ہے۔

سموگ میں دُھند اور دھوئیں کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائیٹروجن آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ، میتھین گیسیں اور مٹی کے ذرات شامل ہوتے ہیں۔ (Photo: Dunya News)

وطنِ عزیز میں آج سے چند برس پہلے جب اکتوبر اور نومبر کے مہینے آتے تھے، تو یہ سردیوں کی ابتدا کا زمانہ ہوتا تھا، تو میدانی علاقوں میں دُھند (Fog) پھیل جاتی جو صبح سے دوپہر تک جاری رہتی۔ بعد از دوپہر لوگ اپنے کام کاج پر جاتے۔ چوں کہ وطن عزیز اور پڑوسی ممالک بھارت، افغانستان وغیرہ میں عرصۂ دراز سے بارشوں کا سلسلہ رُکا ہوا ہے اور فضا میں گہرا دھواں بھی موجود ہے جسے انگریزی میں سموک (smoke) کہتے ہیں۔ لہٰذا فوگ اور سموک کے ملن سے ماہرین نے اسے سموگ (Smog) کا نام دیا جو ہمارے خیال میں انگریزی زبان اور علم موسمیات میں ایک نئی اصطلاح ہے۔ سموگ میں دُھند اور دھوئیں کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائیٹروجن آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ، میتھین گیسیں اور مٹی کے ذرات شامل ہوتے ہیں۔
٭ سموگ کا تدارک یا خاتمہ:۔ـ سموگ کے خاتمے کا ایک اہم بڑا اور قدرتی عامل بارش ہے۔ اس کے علاوہ کارخانوں اور اینٹ کی بھٹیوں میں لکڑی یا لکڑی کا کوئیلہ اور زمین سے نکلنے والے ایندھن (Fossil)کو جلانے سے گریز کرنا چاہئے۔ درختوں اور جنگلات کو حتی المقدور بلا ضرورت نہ کاٹا جائے بلکہ مزید شجر کاری کی جائے۔ زرعی اراضی پر تعمیرات کی قیام پر سختی سے پابندی لگائی جائے۔ فصلوں اور میوہ جات کی بڑھوتری کے لیے قدرتی کھاد استعمال کیا جائے۔ کیڑے مار ادویات کو کنٹرول کیا جائے اور فاضل مادے، کوڑا کرکٹ اور پلاسٹک وغیرہ کو جلانے کی بجائے دفن کیا جائے تاکہ یہ چیزیں ماحول کو زہریلا نہ کریں۔
سموگ سے سینے، آنکھوں اور جلدی کے امراض پیدا ہوتے ہیں، لہٰذا احتیاطی تدابیر کے طور پر بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں۔ گھروں کے دروازے بند رکھے جائیں، بچوں کو باہر نہ جانے دیں۔ سینے اور دمہ کے مریضوں کو حتی الوسع سموگ سے بچنا چاہئے اور شیر خوار بچوں کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔

………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔