گذشتہ سہ پہر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’فیس بُک‘‘ پر اِک پوسٹ نظر کے سامنے چمکی، جو اِک عزیز مہربان محمد حسن ڈورو کے اک محیر العقول کارنامے کے بارے میں تھی، جس میں اُن کو اپریل میں دیوسائی عبور کرنے کی مبارک باد دی گئی تھی۔ یہ پڑھ کر ہم انگشتِ بہ دنداں رہ گئے اور من میں بھاونا جاگی کہ اس معاملے میں حسن بھائی سے معلومات لی جائیں، جو اُنھوں نے کمال مہربانی سے پیش کردیں۔
حنیف زاہد کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/hanif/
جیسا کہ آپ بہ خوبی جانتے ہیں کہ دیوسائی جو دنیا کا دوسرا بلند ترین میدان ہے، جو سال کے زیادہ تر مہینوں دل رُبا برف کے کئی کئی فٹ موٹے حسین لحاف کے نیچے سویا رہتا ہے، جہاں درجۂ حرارت جما دینے والا ہوتا ہے۔ ملکی وے (Galaxy) دیوسائی سے وصال کو ہر شب اُترتی ہے،جہاں اکثر برف کے روئی جیسے گالے گرتے ہیں، جہاں بھورے ریچھ اور سنہرے عقاب بسیرا کرتے ہیں، برفیں پگھلتی ہیں، تو رنگ بہ رنگ پھول اس کی مشاطگی کرتے ہیں، جہاں اندھی جھیل شیوسر جلوہ فگن ہے، جدھر کالا پانی، بڑا پانی اور شتونگ کی حیات بخش ندیاں رواں رہتی ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے اس موسم میں چند گورے، گوریاں دیوسائی کو پار کرسکے ہیں، وہ بھی سکیئنگ کرکے…… گویا کوہ نوردی کرنے کا یہ اک نادر کارنامہ ہے جو لمحۂ موجود تک فقط یہی ٹیم سرانجام دے سکی۔
تفصیل ہے کہ وہ 21 اپریل کی شام اسلام آباد سے روانہ ہوئے۔ اگلے دن چلم چوکی پہنچ کر شب بسری کی۔ 23 اپریل کو پانچ سر پھروں، حسن ڈورو کھرمنگوی، خالد محمود اسلام آبادی، جمشید چورتی (چورت ترشنگ سے پہلے اِک حسین گاؤں ہے)، شبر صاحب چلم چوکی والے اور فیضان استوری کا قافلہ دیوسائی کی ہیر ’’شیوسر‘‘ پاس خیمہ زن ہونے کے لیے نکلا، مگر دیوسائی کا برفاب ان کے راہ کی رکاوٹ بنا۔ اس لیے ایمرجنسی میں چھاچھر (چھچھور) ٹاپ پر شب بسری کے لیے ٹھہرنا پڑا۔
اگلی صبح منزل تو کالا پانی تھا، مگر برف کی دبیز تہوں کے باعث منزلِ مقصود تک نہ پہنچ سکے اور راستے میں کیمپنگ کر کے رات خدا خدا کرکے گزری۔ چوں کہ سردی رگوں میں خون کو بھی جما دینے والی تھی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
پاکستان میں مقامی سیاحوں سے استدعا  
ڈاکٹر شاہد اقبال بورے والا، ایک عہد ساز شخصیت 
سوات کبھی مایوس نہیں لوٹاتا 
ورغومو کاڑ آبشار 
بنجیر بابا، بہترین ہائیکنگ اور ٹریکنگ سپاٹ 
اگلے دن دھند کی دبیز تہہ چہار سو چھائی تھی، جس نے حدِ نگاہ کو صفر کر دیا، مگر پھر بھی یہ سر پھرے سیلانی کوہ نورد کالا پانی کی تلاش میں نکل پڑے۔ رحیم و کریم مولا کی غیبی مدد سے یہ قافلہ شدید دھند، منجمد کر دینے والی ٹھنڈ، ناپید راستے اور بھٹک جانے کے وسوسوں اور بہت تگ و دو کے باوجود بالآخر کالا پانی کے پل تک جا پہنچا۔
کچھ دیر بعد دھند تھوڑی سے چھٹی، موسم مہربان ہوا، تو یہ قافلہ سوئے بڑا پانی سر پر کفن باندھے نکل پڑا۔ پاؤں شل تھے۔ چوں کہ یہ ڈیڑھ، ڈیڑھ فٹ تک نرم برف میں دھنستے جاتے، مگر عزم پختہ اور ہمت جواں تھی۔ گرتے پڑتے دن ڈھلے یہ جواں مرد بڑا پانی جا اُترے۔ رات خیموں میں دیوسائی کے بھورے ریچھوں کے درمیان گزاری۔ قدرت مہربان تھی۔ اس لیے مزے کا موسم اور پہلی دو راتوں کی نسبت سے رات کم سرد تھی۔ سو سبھی گھوڑے بیچ کر صبح دیر تک سوئے رہے۔ اگلی منزل شتونگ نالہ تھی، جس کے لیے دیر سے نکلے۔ راستہ نرم و گداز برف سے ڈھکا اور پتھریلا تھا۔ یہ دشوار گزار راستہ بھلا ان دلیروں کے سامنے کتنی مزاحمت کر سکتا تھا۔ چلتے چلتے سہ پہر چار بجے منزل پر قافلہ جاپہنچا۔ وہاں سے دیوسائی ٹاپ پر آرمی ایوی ایشن ریڈار والوں (انتہائی شدید موسم کے باوجود یہاں سارا سال آرمی کے جوان تعینات ہوتے ہیں) سے رابطہ فون کے ذریعے کیا گیا اور جوانوں کی دعوتِ طعام پر یہ راہ روانِ شوق اُدھر چل پڑے، مگر راستہ بھٹک گئے۔ جب رات کے اندھیرے چھاگئے، تو اِک انجان جگہ پر شب بسری کی۔ اگلے دن ریڈار کی تلاش میں نکلے، مگر مختلف راستوں کو کھوجنے اور اندازوں کے باوجود ریڈار نہ ملا
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
اور ٹیم راستہ بھی بھٹک گئی۔
تھوڑا سستانے کے بعد حسن ڈورو صاحب کے گاؤں جانے کے لیے درہ ڈورو شیلا کی طرف چھے کلومیٹر چلے، مگر بہت زیادہ برف کی وجہ سے راستے کا سراغ نہ ملا اور لوٹ کے بدھو واپس لوٹے۔ راستہ تو نہ ملا، مگر شام پانج بجے دیوسائی ٹاپ کا خانۂ خدا مل گیا، جہاں خود چائے بنا کر اس کی دعوتِ شیراز اُڑائی گئی، تاکہ ریڈار والی پُرتکلف دعوت کا غم غلط ہوجائے۔ وہاں سے یہ بھٹکے ہوئے مسافر عازمِ صد پارہ ہوئے۔ سڑک پر نرم برف کے گلیشیر اور اور پتھر تھے۔ گویا یہ راستہ بھی کٹھن و دشوار گزار تھا۔ اندھیری رات میں ٹارچ لائٹس کے سہارے ٹامک ٹوئیاں مارتے مارتے صد پارہ گاؤں قافلہ جا اُترا۔ رات گیارہ بجے بڑا گاؤں ڈورو صاحب کے عزیزوں کے ہاں کھانے کا دسترخوان پہلے ہی بچھ چکا تھا۔ اس ضیافت کے بعد سبھی کوہ نورد دیوسائی کی بلندیوں اور برفوں کا غرور خاک میں ملا کر اور اِک انوکھا تاریخ ساز کارنامہ سرانجام دیتے ہوئے رات دو بجے اسکردو جا اُترے۔ پوری ٹیم کو دل سے ڈھیروں مبارک بادیں اور ان کے عزم و ہمت کو ’’چوبیس توپوں‘‘ کی سلامی۔ آپ سبھی ہمارے ہیرو ہو…… آپ سب کے لیے ڈھیروں دعائیں۔
مرشد تارڑ کے اس قول کے ساتھ اجازت چاہیں گے کہ ’’دیوسائی نہ دیکھنے والے بھی مر جاتے ہیں اور جو دیکھتے ہیں وہ بھی مر جاتے ہیں…… لیکن اس فرق کے ساتھ کہ ان کے آخری دم میں سنہری عقاب اُڑتے ہیں، برجی لاء کی برفیں ہوتی ہیں، شتونگ کی ندیوں کے گیت گونجتے ہیں، بڑے پانی میں مچھلیاں اُچھلتی ہیں اور شیوسر جھیل کے واہمے ہوتے ہیں۔‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔