مَیں دین کے استعمال و تشریح وغیرہ پر پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر لکھنے کی ہمیشہ کوشش کرتا ہوں۔ جس پر میرے قارئین اور دوستوں کی بہت کم تعداد خراجِ تحسین پیش کرتی ہے، جب کہ زیادہ تعداد اُن لوگوں کی ہے کہ جو مجھے اس موضوع پر بات کرنے سے منع کرتے ہیں۔ منع کرنے والوں میں سے بھی ایک طبقہ وہ ہے کہ جس کا خیال ہے کہ میرا دین کا علم اُن کے خیال میں کم ہے اور میری کم علمی کی وجہ سے میں ’’گم راہ‘‘ ہوں۔ حالاں کہ جب مَیں اُن کو کہتا ہوں کہ اول تو مَیں دین کے قوانین (فقہ) پر بات بالکل نہیں کرتا، بل کہ مَیں دین کی تعبیر پر بات کرتا ہوں۔ اور شریعت کے قوانین یا عملی عبادات یا دین سے وابستہ شخصیات پر تو بالکل بات نہیں کرتا، بل کہ مَیں دین کے اخلاقی پہلو پر بات کرتا ہوں، اور دین کے بہ جائے اُن لوگوں کو ہدفِ تنقید بناتا ہوں کہ جو دین کے نام پر ذاتی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ وہ دین کے مقدس نام پر لوگوں کو احمق بناتے ہیں اور اپنے لیے بے شمار سہولتیں حاصل کرتے ہیں۔ یہی سہولتیں یا فوائد معاشی بھی ہوسکتے ہیں اور سیاسی و معاشرتی بھی، لیکن اگر پھر بھی کہیں مَیں غلط ہوں، تو آپ میری راہ نمائی کریں۔ اس سے بہتر بیانیہ یا تشریح دیں، تو اس سے وہ قاصر ہوتے ہیں۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
دوسرا طبقہ وہ ہے کہ میری رائے کو 100 فی صد درست تسلیم کرتا ہے، لیکن اس کا خیال ہے کہ دین چوں کہ ایک نازک مسئلہ ہے اور ہماری قوم کی اکثریت اس بارے جاہل ہے۔ اُن کا دین پر عمومی رویہ جذباتیت پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ بات کو دلیل یا منطق کی بنیاد پر سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ کچھ خاص معاملات پر چوں کہ اس کے دماغ میں ایک بات سما چکی ہوتی ہے، سو وہ اس پر کسی ادنا درجے پر بھی تنقید تو دور، اس پر سوال کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ سو اس ذہنی طور پر ’’امیچور‘‘ اکثریت کے سامنے یہ بات کرنا بہ ذاتِ خود اپنے لیے مسائل پیدا کرنا ہے۔ اس وجہ سے اس کو میڈیا پر موضوع بنانا خطرناک ہے، جب کہ میرا تو نظریہ ہی یہی ہے کہ مَیں اس رویے کے خلاف لکھوں۔ کیوں کہ میرا دین تو سوالات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ قرآن بار ہا غور و فکر کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ سیرتِ رسولؐ میں آپ کو واضح نظر آتا ہے کہ آپؐ لوگوں کو مکالمہ کی دعوت دیتے ہیں، لیکن آج چودہ سو سال بعد ہمارا رویہ اس طرح متشدد اور جذباتی ہے کہ ماہر القادری صاحب جیسے دانش ورکی ادارت میں شائع ہونے والے ایک جریدے میں یہ تحریر ہے کہ کربلا کو حق و باطل کا معرکہ نہ سمجھنا اور اس پر تحقیق کی جسارت کرنا یزید کے اس واقعے میں کردار کو زیرِ بحث لانا بہ طورِ انجان وغیرہ بہ ذاتِ خود کفر کے قریب ہے…… یعنی آپ واقعۂ کربلا پر کسی قسم کی تحقیق کر ہی نہیں سکتے۔
اس متشدد رویے نے یہ کیا کہ عام مسلمان اسلام کی روح اور مقاصد سے دور ہوگیا۔ اس کا فہمِ اسلام بس چند عبادات تک محدود ہوگیا۔ اس پر ہمارے ایک دانش ور نے بہت دل چسپ تحقیق کی ہے اور میرے ایک سعودیہ میں مقیم دوست یونس ابو غالب نے یہ مجھے واٹس اَپ کی کہ جس پر مَیں اُن کا مشکور و ممنون ہوں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
برصغیر کی تہذیب پر مسلمانوں کے اثرات 
رمضان المبارک کی آمد اور مسلمان تاجر  
چینی مسلمانوں کی حالتِ زار  
وہ یورپی ملک جہاں ایک بھی مسلمان نہیں بستا  
وہ اخبار بیچنے والا مسلمان جو ہندوستان کا فخر بن گیا  
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر حسین عسکری نے تحقیق کی کہ اسلامی ممالک کیسے اسلامی ہیں۔ اسلام میں ریاست اور معاشرے کے قوانین پر عمل کرنے والے ممالک کو تلاش کرنے سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں اسلامی احکام پر عمل کرتے ہیں، وہ مسلمان ممالک نہیں۔
اس تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ’’اسلامی اعتبار سے سب سے زیادہ تعمیل کرنے والا ملک نیوزی لینڈ ہے، جس کے بعد لکسمبرگ ہے۔ اس کے بعد آئرلینڈ، آئس لینڈ، فن لینڈ، ڈنمارک چھٹے اور کینیڈا ساتویں نمبر پر رہے۔ ملائیشیا 38ویں، کویت 48ویں، بحرین 64ویں اور حیران کن طور پر سعودی عرب 131ویں نمبر پر ہے۔
گلوبل اکانومی جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بنگلہ دیش کی پوزیشن سعودیوں سے نیچے ہے۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مسلمان نماز، روزہ، سنت، قرآن، حدیث، حجاب، داڑھی، لباس کے بارے میں بہت محتاط ہیں، لیکن ریاستی، سماجی اور پیشہ ورانہ زندگی میں اسلام کے قوانین پر عمل نہیں کرتے۔ مسلمان دنیا میں کسی سے بھی زیادہ مذہبی خطبات، واعظ نصیحتیں سنتے ہیں، لیکن کوئی بھی مسلمان ملک دنیا کا بہترین ملک نہیں بن سکا، بل کہ پچھلے 60 سالوں میں مسلمانوں نے جمعہ کا خطبہ کم از کم 3000 مرتبہ سنا ہے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ایک غیرت مند چینی تاجر نے کہا کہ مسلمان تاجر ہمارے پاس دو نمبر کی جعلی چیزیں بنانے کا آرڈر لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فُلاں فُلاں مشہور کمپنی کا لیبل لگاؤ۔ بعد میں جب مَیں نے اُن سے کہا کہ ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ، تو اُنھوں نے کہا کہ یہ حلال نہیں، اس لیے ہم نہیں کھائیں گے۔ تو کیا نقلی اشیا بیچنا حلال ہے؟
ایک جاپانی نو مسلم نے کہا کہ مَیں مغربی ممالک میں غیر مسلموں کو اسلام کے اُصولوں پر چلتے ہوئے دیکھتا ہوں اور مشرقی ممالک میں میں اسلام کو دیکھتا ہوں، لیکن مسلمان نہیں ہیں۔ اسلام صرف نماز اور روزہ نہیں، بل کہ یہ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے اور دوسروں کے ساتھ رابطے اور رفاقت کا معاملہ ہے۔ جو شخص روزہ دار ہے، نماز پڑھتا ہے اور اس کی پیشانی پر نشان ہے، وہ اللہ کے نزدیک منافق ہوسکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حقیقی پرولتاریہ اور خالی ہاتھ وہ لوگ ہیں جو روزے، نماز، کثرتِ حج اور صدقات کے ساتھ حاضر ہوں گے، لیکن بدعنوانی اور مال ہتھیانے کی وجہ سے خالی ہاتھ جہنم میں جائیں گے۔ وجہ دوسروں کو حقوق نہ دینا اور لوگوں پر ظلم کرنا ہے۔
اسلام کے دو حصے ہیں: ایک ’’ایمان‘‘ کہلانے والے عقیدے کا عوامی اعلان اور دوسرا ’’احسان‘‘ نامی ایمان کا موضوع…… جو کہ صحیح معاشرتی اُصولوں پر عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر دونوں پر عمل نہ کیا جائے، تو اسلام ادھورا رہ جاتا ہے…… جو ہر نام نہاد مسلم ملک میں ہو رہا ہے۔ مذہبی ممنوعات کی پابندی انسان کی ذاتی ذمے داری ہے اور یہ اللہ اور بندے کے درمیان معاملہ ہے لیکن معاشرتی اُصولوں کی پابندی ایک بندے اور دوسرے کے درمیان معاملہ ہے۔
دوسرے لفظوں میں اگر مسلمان اپنی زندگی میں اسلامی اُصولوں پر عمل نہیں کریں گے، تو مسلم معاشرہ بگڑ جائے گا اور ہمارا مستقبل بے عزت ہوجائے گا۔ لارڈ برنارڈ شا نے ایک بار کہا تھا کہ ’’اسلام بہترین مذہب ہے اور مسلمان بدترین پیروکار ہیں۔‘‘
اَب محولہ بالا تحقیق کو پڑھ کرکوئی بھی باشعور مسلمان خوش ہوسکتا ہے نہ مطمئن۔ مجھے تو یہ پڑھ کر ایسا لگا کہ ہم بحیثیت مجموعی منافق ہیں یا جاہلِ اکبر کہ جن کو اسلام کی الف بے کا بھی پتا ہے نہ ادراک۔ اس کی وجہ بالکل یہی ہے کہ جس پر ہم اپنے قارئین کو وقتاً فوقتاً آگاہ کرتے رہتے ہیں…… یعنی اس کے ذمے دار بہ راہِ راست ہمارے مذہبی راہنما ہیں، خواہ کوئی کسی گاؤں کی مسجد میں بیٹھا مولوی ہو یا کسی کالج میں اسلامیات اور اسلامی امور کا پروفیسر۔
ہم کو عبادات یعنی نماز، روزہ، حج اور زکات بارے بتایا جاتا ہے، تلقین کی جاتی ہے۔ اس سے دوری کرنے کی وجہ سے وعید بتائی جاتی ہے، لیکن اسلام کے اخلاقی پہلو اور اُن کی روشنی میں اپنے معاملات کا تعین نہیں بتایا جاتا۔ اسی کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم معاملات میں بہت ناقص ہیں۔
اس تحقیق کو اگر 50 فی صد بھی دُرست مان لیا جائے، تو ہمارے لیے بحیثیت مسلمان یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ وہ لوگ کہ جن کو ہم غیر مسلم اور کافر کہتے ہیں، وہ لوگ اسلام کی عملی شکل میں ہم سے کہیں آگے ہیں۔
ہمیں یہ قبول کرنا ہوگا کہ یہ تحقیق عمومی طور پر دُرست ہی معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ ہمارا ذاتی طور پر واسطہ سالوں مغربی ممالک اور عرب ممالک کے لوگوں سے رہا ہے۔ سو ہم نے حقیقت کچھ ایسی ہی دیکھی۔ ہمارا کیا، ہمارے بہت سے دوست مغربی ممالک جاچکے ہیں، وہ بتا سکتے ہیں کہ وہاں ایمانت داری انسان دوست رویہ کیسا ہے۔ دھوکا، جھوٹ اور مکاری کا لیول کتنا کم ہے، جب کہ اسلامی ممالک میں یہ بالکل عام سی بات سمجھی جاتی ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں وہ برائیاں شاید زیادہ ہیں (حالاں کہ ہمارے ہاں وہ حرکات خفیہ طور پر ان سے زیادہ ہوں گی۔ جیسے شراب نوشی، جوا، بدکاری یا زنا۔
عملی عبادات سے دوری عقائد کی کم زوری وغیرہ کہ جن کا تعلق بہ راہِ راست خدا کی ذات سے ہے، اور اس پر سزا و جزا کا حق بھی کلی طور پر خدا کے پاس ہے، لیکن ان میں ایسی برائیاں کہ جن کا تعلق براہِ راست معاملات یا حقوقِ انسانی سے بہت کم ہے۔ دین کہتا ہے کہ حقوق اﷲ میں بخشش و رعایت کی توقع کی جاسکتی ہے، لیکن حقوق العباد میں خدا رحیم و کریم نہیں، بل کہ عادلِ مطلق کا کردار ادا کرے گا۔ عادل کو بہ ہرحال انصاف کرنا ہوتا ہے، کسی پر رحم یا کرم نہیں۔
آخر میں ہم بس اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ہم نہ تو کبھی کسی خاص عقیدہ، دین یا شریعت پر بات کرتے ہیں اور نہ (نعوذ باﷲ) تنقید، بل کہ ہم مسلمانوں کے اس رویے پر تنقید کرتے ہیں کہ جو مذہب کی آڑ اور دین کے نام پر مخلوق کا استحصال کرتے ہیں اور دین جیسی مقدس چیز کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس پر اِن شاء اﷲ ہم حسبِ طاقت و توفیق بات کرتے رہیں گے۔ خواہ کسی کو برا لگے یا اچھا! کیوں کہ اگر ایک لکھاری، ایک کالم نگار یا ایک مصنف کے پیشِ نظر عام آدمی کے جذبات ہوں، تو وہ پھر جھوٹ و کذب کو تو پروان چڑھا سکتا ہے، لیکن وہ پوشیدہ یا قبول شدہ معاشرتی یا اخلاقی برائیوں کو سامنے لا سکتا ہے اور نہ ان غلط حرکات کو بے نقاب ہی کرسکتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ کی بات دُرست ہو، مکمل ہو، لیکن اس طرح کم از کم آپ معاشرے میں ایک فکر ضرور دیتے ہیں۔ کسی مسئلے کو موضوعِ بحث ضرور بنا دیتے ہیں۔ جب کسی مسئلے کی نشان دہی ہو، اُس پر عمومی بات چیت ہو، تو اِن شاء اﷲ ایک دن اس کو سنجیدہ بھی لیا جاتا ہے اور اس کو بہتر بھی کیا جاتا ہے۔ مَیں بے شک سمندر میں قطرے کے برابر ہی سہی، اپنے ادارے روزنامہ آزادی سے مل کر یہ کام کرتا رہتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔