تحقیق و تحریر: عبد المعین انصاری
مسلمانوں کی آمد کے بعد برصغیر کے لوگوں پر کیا اثرات پڑے؟
یہ ایک بڑا سوال ہے اور اس کا جواب اتنا آسان نہیں۔ اگرچہ دعوا کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے اثرات، برصغیر کے تہذیب و تمدن پر پڑے، مگر اگر بالغ نظری سے دیکھا جائے، تو مسلمانوں پر ہندوؤں کی تہذب و تمدن کے اثرات زیادہ شدید ہیں۔ مسلمانوں پر مذہب، ثقافت، تمدن، زبان پر غرض زندگی کے ہر گوشہ پر ہندوؤں کے اثرات پڑے ہیں۔ اس پر ایک تفصیلی بحث کی ضرورت ہے اور یہ مختصر مضمون اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہاں صرف برصغیر پر دوسری قوموں اور خاص مسلمانوں کے اثرات بارے مختصر بتایا جاسکتا ہے۔
یہ تہذیب کا مسلمہ قانون ہے کہ اعلا تہذب کے اثرات کم تر تہذیب پر پڑتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قدیم زمانے اور قرونِ وسطیٰ کے وسط تک برصغیر کی تہذیب ایک اعلا مقام رکھتی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں وہ تمام عناصر پائے جاتے ہیں جو کسی تہذیب و تمدن کی تشکیل و ترقی کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ مثلاً: یہاں بہترین قدرتی وسائل جن میں زرعی زمین، جس پر بغیر کسی مشقت کے پیداوار حاصل ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ موسم اعتدال پزیر، بارشوں کی کثرت کی وجہ سے کسی نہری نظام کی ضرورت نہیں۔ اس لیے قدرتی طور پر وسیع پر جنگل، جس میں ہر طرح کے جانوروں اور دوسرے وسائل کی فروانی تھی۔ اس کے علاوہ سونے چاندی اور ہر طر دہاتوں کی کانوں کے علاوہ ہیرے جوہرات کی کانیں تھیں۔ جب غذا کی فراہمی وسیع پیمانے پر ہوتی ہے، تو لازمی اس کا نتیجہ آبادی کا وسیع پھیلاو ہوتا ہے اور تہذیب و تمذن کی نمود ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر دور میں علمی و تمدنی ترقی جاری رہی۔ اس لیے یہاں ہر پیشہ کے کاریگر کثرت سے دست یاب تھے…… جیسا کہ بابر لکھتا ہے کہ امیر تیمور نے پوری دنیا سے اتنے کاریگر جمع کیے تھے۔ جب کہ اس سے کہیں زیادہ میری تعمیرات میں کاریگر کام کر رہے ہیں۔
جب روزگار کی فکر نہ ہو، تو ذہنی بالیدیگی بڑھتی ہے اور نئے نت خیالات جنم لیتے ہیں اور تہذیب و تمدن میں نئے نئے انکشافات و خیالات جنم لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تعمیرات، سائنس، فلکیات، مذہب اور فلسفہ میں عظیم انشان ترقی ہوئی۔ ان کی علمی مہارت کا تو البیرونی نے بھی اعتراف کیا ہے۔ یہاں سے مختلف سائنسی انکشافات کو عربوں نے حاصل کیا اور انھیں یورپ تک پہنچایا۔
دنیا کے سب سے بڑے مذہب بدھ مت نے یہیں جنم لیا…… جس کے پیروں کی تعداد دنیا میں کسی بھی اور مذہب سے زیادہ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بدھ مت جہاں بھی گیا، وہاں لوگوں نے اسے اپنے عقائد اور ضرورتوں کے مطابق تبدیل کرلیا۔
ہند اپنی ذرخیری، وسائل کی فراہمی اور سونا چاندی کی بہتات کی وجہ سے ہمیشہ ہی وسطِ ایشیا کے لوگوں کے لیے کشش کا باعث رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس علاقے پر ماقبل مسیح سے ہی وسطِ ایشیا پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ یہاں کی تہذیب کا چوں کہ دنیا کی ترقی یافتہ تہذیبوں میں شمار ہوتا تھا، اس لیے حملہ آور ہونے کے بعد وہ چند نسلوں کے بعد ہی اپنی شناخت گم کرکے مقامی لوگوں میں اس طرح فنا ہوگئے کہ انھیں یاد بھی نہ رہا کہ ان کے آبا بیرونی نژاد تھے۔ کیوں کہ انھوں نے مکمل طور پر مقامی مذہب اور ثقافت اختیار کرلی۔
یہاں ترقی یافتہ تمدن ہونے کی وجہ سے یہاں پر جو قومیں حملہ آور ہوئیں اور فتح یاب ہونے کے باوجود وہ جلد ہی مقامی مذہب اور ثقافت کے ہاتھوں سرنگوں ہوگئیں۔ حملہ آور ہونے والی قومیں ترقی یافتہ تہذیب و تمدن کی حامل نہیں تھیں اور برصغیر کے مقابلے میں ان کا تمدن بہت پست تھا۔ ان کا مذہب بھی بہت سادہ تھا۔ اس لیے جلد ہی مقامی ثقافت و مذہب کے آگے سرنگوں ہوگئیں۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ باپ دادا کے نام غیر ملکی ہوتے تھے اور پوتے کا نام مقامی ہے…… اور ان کے سکوں پر مقامی دیوتا نظر آتے تھے۔ اس کا اندازہ ان کے سکوں کے مطالعے سے بخوبی ہوتا ہے۔
یہ فطرت کا قانون ہے کہ نچلی تہذیب، اعلا تہذیب کا اثر قبول کرتی ہے۔ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ اعلا تہذیب نے نچلی تہذیب کا اثر قبول کیا ہو۔
برصغیر پر مسلمانوں کے حملے سے پہلے حملہ آور قوموں میں دو ایسی تھیں جو ترقی یافتہ تھیں۔ ان میں ایک ایرانی اور دوسری یونانی نسل تھی۔ ایرانی اپنے وقت کی ترقی یافتہ قوم تھے۔ ایرانیوں نے صرف کچھ عرصہ کے لیے برصغیر کے مغربی حصہ کو اپنے قبضہ لیا تھا، مگر ان کے اثرات واضح طور پر شمالی اور مشرقی ہندوستان پر نظر آتے ہیں…… خاص کر موریہ عہد میں۔
یاد رہے کہ موریا عہد سے پہلے علاوہ وادیِ سندھ کی تہذیب کے ہمیں کسی قسم کے اثری آثار نہیں ملتے۔ موریا عہد کے جو بھی آثار ہمیں ملتے ہیں، ان پر ایرانی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔ مثلاً: اشوک کی تعمیرات میں۔ اس طرح یونانیوں کے جو تذکرے ملے ہیں، اُن موریاؤں کے دربار کا نقشا پیش کیا گیا ہے اور فوجوں کی ترتیب وغیرہ میں ایرانیوں کی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔
یہاں حملہ آور قوموں نے کسی قسم کے آثار نہیں چھوڑے۔ سکندر کا حملہ جو کہ یورپین کے نزدیک بہت اہم سمجھا جاتا ہے، مگر اس کے آثار تو دور کی بات…… یہاں کی کتابوں یا کتبوں میں اُس کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا۔ سکندر کی جو کچھ تفصیلات ملی ہیں، وہ صرف یونانی مورخین کی کتابوں میں ملتی ہیں۔ بعد کے یونانی جنہیں سیتھیوں کے حملے کی وجہ سے باختر سے نقلِ مکانی کرنی پڑی اور انھوں نے وادیِ کابل، شمالی اور وسطِ ہند اور وادیِ سندھ پر قبضہ بھی کرلیا تھا…… مگر ان کے اثرات صرف کچھ عمارتوں اور ٹیکسلا کے علاقوں میں کچھ بدھ کے مجسموں میں ملتے ہیں۔ البتہ ان کے سکے چوں کہ ہند کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ تھے، اس لیے یہاں کے راجاؤں نے اپنے سکے یونانی طرز پر ڈھالنے لگے۔
یونانیوں کی زبان اور رسم الخط کچھ زیادہ دیر تک زندہ رہی۔ کیوں کہ آنے والے حملہ آوروں مثلاً کشان اور سیتھیوں نے اسے اپنے سکوں پر استعمال کیا ہے۔ یونانیوں نے باختر میں ہی یونانی دیوتاؤں کو بھلا کر بدھ مذہب اختیار کرلیا تھا، مگر ہند میں آکر انھوں نے بدھ مذہب کے زوال کے ساتھ ہی اسے خیرباد کَہ کر مقامی مذہب اختیار کرلیا تھا اور جلد ہی ہندوؤں میں اس طرح غائب ہوگئے کہ ان کے بارے صرف اتنا ہی معلوم ہوگیا کہ یون نام کی ہندوؤں کی ایک ذات ہے۔
مذہب کے علاوہ برصغیر میں فلسفہ اور سائنس کا ظہور بھی ہوا۔ ان لوگوں نے تعمیرات، دھاتوں کی صفائی اور ان کے استعمال میں نمایاں ترقی کی۔ خاص کر یہاں کے لوگوں ریاضی میں بہت ترقی کی۔ بعض شواہد کے مطابق صفر بھی ان کی اخترع ہے اور ان کے پاس سے ہی یہ عربوں تک پہنچا۔ انھوں نے فلکیات میں بھی قابلِ ذکر ترقی نہیں کی۔ یہ لوگ بت پرست تھے اور ہر فلکی اجزام کو کسی نہ کسی دیوتا کا مظہر اور زندہ ہستی مانتے تھے۔ باوجود ان کی ضعیف االاعتقادی کے یہاں نہایت ترقی پسندانہ اور حقیقت پسندانہ بہت سی ایسی آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ اگرچہ ان آوازوں کو ان کے عقائد کی بنا پر پذیرائی نہیں ملی، لیکن اس کے باوجود یہاں قدیم زمانے میں آزاد خیالی، دنیا کے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ تھی ۔
برصغیر کے لوگوں میں وسعت اور آزاد خیالی کے باوجو ایک نوع کی تنگ نظری بھی آگئی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم ہیں اور علم و فضل میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا…… اور یہاں لوگ ہر معاملے میں بڑھے ہوئے ہیں۔ جب ان کا سامنا البیرونی سے ہوا، تو وہ اس کے علم سے حیرت زدہ رہ گئے۔ ہندوؤں کی تنگ نظری موجودہ ریت یا رواج اور قاعدوں کی پابندی تھی۔
ہندمت کسی ایک مذہب کا نام نہیں، بلکہ یہ اس میں مختلف و متضاد عقائد و رسوم، رجحانات، تصورات اور توہمات کے مجموعے کا نام ہے۔ یہ کسی ایک شخص کا قائم کردہ یا لایا ہوا نہیں، بلکہ مختلف جماعتوں کے مختلف نظریات کا ایک ایسا مرکب ہے، جو صدیوں میں جاکر تیار ہوا ہے۔ اس کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ الحاد سے لے کر عقیدۂ وحدت الوجود تک بلا قباحت اس میں ضم کر لیے گئے ہیں۔ دہریت، بت پرستی، شجر پرستی، حیوان پرستی اور خدا پرستی سب اس میں شامل ہیں۔
ایک اور دعوا کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے اثر سے ان میں توحید کا اثر ہوا اور اس لیے ان میں بہت سے ایسے فرقوں نے جنم لیا۔ حالاں کہ اس میں ذرّہ بھر سچائی نہیں۔ توحید کا مبہم ذکر تو ہمیں وید میں بھی ملتا ہے۔ اس طرح وحدت الوجود بھی ہندوؤں کا قدیم فلسفہ ہے اور مکتی یعنی خالق کی ذات میں جذب ہونے کا نام ہے۔ مسلم تصوف پر اس فلسفہ کے گہرے اثرات ہیں۔ مسلمانوں کی آمد سے قبل ہی توحیدی فرقے ہندوؤں میں موجود تھے۔ یہ مسلمانوں کی آمد کا ہر گز نتیجہ نہیں۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد صرف ایک سکھ فرقے نے جنم لیا، مگر اس کی بنیادیں بھی قدیم تھیں اور یہ کبیر کی تعلیمات پر قائم ہوا تھا۔ اس مذہب نے تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کی تعلیمات سے بھی فائدہ اٹھایا۔ اس لیے یہ کہنا کہ مسلمانوں کی آمد کے بعد ان میں توحید کا ارتقا ہوا، محض خام خیالی یا خوش فہمی ہے۔
مسلمان جب پر صغیر میں آئے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں کے کثیر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ خاص کر بدھ قوموں نے بغیر کسی مزاحمت کے اسلام قبول کیا۔ مثلاً: شمالی ہند جہاں بدھوں کی اکثریت تھی۔ مسلمانوں کے حملے نے ہندو مت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے، مگر بدھ مت کے خاتمے کا سبب بنے۔ بدھ مت کے ماننے والے برصغیر کے اس علاقہ میں آباد تھے جہاں برصغیر میں مسلمانوں نے قبضہ کیا۔ جس وقت مسلمان برصغیر آئے، اس وقت برصغیر میں باوجود اس کے ہندو مت، بدھ مت کے مقابلے میں طاقت ور تھا۔ خاص کر وادیِ کابل، وادیِ سندھ اور بنگال کے علاقے میں ان کی کثیر تعداد بدھ مت سے تعلق رکھتی تھی۔ پہلے ہنوں نے ان امن پسند لوگوں کا قتل عام کیا اور جو باقی بچے ان کا خاتمہ غزنوی فوجوں نے ان کی خانقاہیں جلا کر اور گنجے سادھوں کا قتل عام کرکے کیا۔
اس طرح بنگال بہار کے علاقے میں بدھ مت کثیر تعداد میں آباد تھے۔ پشاور میں کنشک کا عظیم مینار باقی تھا، مگر اسے جلد ہی آگ لگا کر نست و نابود کردیا گیا۔ اس طرح باقی ماندہ بدھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس طرح بدھ مت برصغیر میں ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوگیا، مگر ہندو مت اتنا سخت جان تھا کہ اس کو مسلمان کوئی قابل ذکر نقصان نہیں پہنچاسکے۔ ان کی آبادی کے تناسب سے قلیل تعداد نے ہی اسلام قبول کیا ۔
قدیم زمانے میں برصغیر کے علمی و ادب کا چرچا تھا۔ ان کی علمی خدمات اوپر گنائی ہیں، ان کا دوبارہ ذکر کرنا فضول ہے۔ مسلمانوں سے بہت پہلے پانی نے سنسکرت کی گرام کو ترتیب دے کر ویدک زبان کو سنسکرت کا نام دیا (یعنی سنواری ہوئی زبان) اور اس کے مقابل دوسری زبانوں کو پراکرت کا نام دیا۔ یہ علمی سرگرمیاں ان میں مسلمانوں کی آمد تک پورے شباب پر تھیں اور جب تک مسلمان کا نفوذ نہیں تھا، برصغیر کے ہندوؤں میں علمی، ادبی، سائنسی اور تعمیراتی سرگرمیاں زور شور سے جاری تھیں۔ ان بہت سی یونیورسٹیاں جو کہ ٹیکسلا، نالبدہ، گیا، اجین، قنوج اور دوسرے شہروں میں تھیں، ان میں ٹیکسلا اور نالبدہ یونیورسٹیاں عظیم تر تھیں، مگر محمود غزنوی کے اور بعد میں غوریوں کے حملے سے یہ علمی ادارے تباہ ہوگئے۔
برصغیر میں ویدک کے زمانے میں صرف چار ذاتیں تھیں اور وقت کے ساتھ بے شمار ذاتیں وجود میں آگئیں۔ بقول ابسن کے برصغیر میں ذات کی بنیاد پیشے پر تھی اور اس کا تعلق لازمی طور پر مذہب کا حصہ نہیں۔ اگرچہ ذات کو ایک تقدس حاصل تھا، تاہم مسلمانوں کی آمد سے پہلے ایسی مثالیں ملتی تھیں کہ پیشہ کی بنیاد پر ذات میں تبدیلی ہوئی۔ مثلاً کوئی برہمن راجہ بننے کے بعد چھتری بن گیا یا کوئی چھتری برہمن بن گیا، یا کسی راجہ نے کسی کی خدمات سے اس کی ذات تبدیل کردی یا اس کا درجہ بڑھا دیا۔ یہ عمل اس علاقے میں بھی جاری رہا، جہاں مسلمانوں کا اثر و رسوخ نہیں قائم ہوا۔ مثلاً: کانگڑہ کے پہاڑی علاقے میں جہاں انگریزوں کی آمد تک وہاں یہ روایت تھی کہ راجہ نے کسی سے خوش ہوکر اُسے اعلا ذات میں شامل کر دیا یا ناراض ہوکر اسے کم تر ذات میں شامل کردیا۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی آمد کے بعد ہندوؤں نے اپنے مذہب کے تحفظ کے لیے ذاتوں کے شکنجے کو سخت کر دیا۔
ایک بڑا دعوا یہ ہے کہ مسلمانوں کی آمد کے بعد اُردو وجود میں آئی۔ حالاں کہ اُردو کا بنیادی ڈھانچا ہند آریائی ہے اور برصغیر کے جس گوشے میں چلے جائیں، وہاں کی مقامی زبان جس کو آپ نہیں جانتے ہوں اور لب لہجہ مختلف ہو، مگر چند دنوں کے بعد آپ کو بہت سے الفاظ سمجھ میں آنے لگیں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اُردو کے الفاظ قدیم آریائی زبان کے ہیں اور اُردو میں آکر ان کا لہجہ اور استعمال بدل گیا ہے۔ اگرچہ قدرتی طور پر مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور میں غیرملکی زبانوں فارسی، ترکی اور عربی الفاظ دخیل ہوگئے۔ اس طرح اُردو وجود میں آگئی۔ یہ اثرات برصغیر کے ہر علاقہ اور مقامی بولیوں پر پڑے ۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے ہر قطعے میں ایک اُردو داں طبقہ وجود میں آتا گیا اور ان کی اُردو کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ مقامی لہجے کے زیرِ اثر تھی۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی میں نقل و حمل اور کتابوں کی ترسیل شروع ہوئی، تو شہری طبقہ کی زبان مزید نکھری اور موجودہ اُردو وجود میں آگئی۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے بہت سے علاقوں میں یہ دعوا کیا گیا کہ اُردو کا مولد ان کی زبان و علاقہ ہے۔ گو ان میں کسی کا دعوا غلط نہیں…… یاد رہے کہ انیسویں صدی عیسوی سے پہلے ہندی کوئی الگ زبان نہیں تھی اور یہ دیوناگری اور عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے اُردو کا ایک قدیم نام ہندی یا ہندوی بھی تھا، مگر فورٹ ولیم کالج میں جان گلگرسٹ نے ایک کتاب للوجی سے لکھوائی جس میں عربی اور فارسی الفاظ نکال کر اس کی جگہ سنسکرت کے الفاظ استعمال کیے گئے۔ اس طرح ہندی وجود میں آئی۔ اس طرح سنسکرت کے الفاط اُردو میں سے نکال کر عربی اور فارسی کے الفاظ استعمال کیے گئے۔ اگر یقین نہ آئے، تو کسی بھی قدیم اُردو کی کتاب یا لغت دیکھ لیں، اس سے بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ اُردو اور ہندی کے تمام قاعدے یا سرف و نحو مشترک ہے، صرف ان کا الفاظ کا خزانہ مختلف ہے۔ ہندوؤں کی سخت جانی کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہوگا کہ انھوں نے مسلمانوں کے ہزار سالہ دور میں سنسکرت اور اس کے رسم الخط کو زندہ رکھا اور اس کا تلفظ اب تک وہی ہے۔ یہ عربی الفاظ کی ادائی درست طریقہ سے نہیں کرسکتے۔
بالاذکر کچھ مختصر سے نِکات ہیں۔ ان سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے اثرات ہندوؤں پر نہیں پڑے اور اس کی نسبت مسلمانوں پر اس کے اثرات زیادہ شدید ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
برصغیر کی تہذیب پر مسلمانوں کے اثرات
